زیادتی کے شکار کمسن لڑکے جرائم اورتشدد کی راہ اختیار کرسکتے ہیں، ماہرین نفسیات

ویب ڈیسک  جمعرات 13 اگست 2015
ایسے بچے اگر اپنی بات کہیں تو بہت حد تک مختلف نفسیاتی عارضوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، ماہرین،

فوٹو: فائل

ایسے بچے اگر اپنی بات کہیں تو بہت حد تک مختلف نفسیاتی عارضوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، ماہرین، فوٹو: فائل

 کراچی: دنیا بھر میں لڑکوں سے بدفعلی کے واقعات عام ہیں جو نہ صرف ان کی ذہنی و جسمانی صحت پر بہت برے اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ اس کا نفسیاتی آسیب عمر بھر ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔

بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کم سن لڑکوں سے جنسی زیادتی کا مسئلہ پیچیدہ اور تکلیف دہ ہوتا ہے اگر بچے کے قریبی رشتے دار اس میں ملوث ہوں تو ان کا بھروسہ چکنا چور ہوجاتا ہے جس کے گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوتےہیں اس لیے ایسے موقع پر بچوں کو مناسب رہنمائی اور نفسیاتی کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے ۔

ماہرین کے مطابق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے بالغ ہونے پر محبت، جنسی عمل، لگاوٹ اور ذیادتی کے درمیان بہت کم فرق کرسکتے ہیں اگر کوئی ان سے بے خلوص محبت کرے تو وہ اسے ذیادتی سمجھتے ہیں یا پھر بالغ ہونے پر بھی جنسی ذیادتی کو معمولات کا حصہ سمجھتے ہیں اسی طرح وہ محبت اور جنسی تعلقات کے بعد بھی خود کو خالی اور تنہا محسوس کرتے ہیں جب کہ ایسے بچوں میں ضد، لڑائی جھگڑے اور آگے چل کر جرائم میں ملوث ہونے کا رحجان بھی دیکھا گیا ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہےکہ بچپن میں ذیادتی کے شکار لڑکے بڑے ہوکر خود دوسروں کے ساتھ زیادتی کرسکتے ہیں جس میں کوئی خاص صداقت موجود نہیں لیکن وہ مایوسی ، خوف اور ڈپریشن کے شکار ہوسکتے ہیں اور خودکشی کی کوشش بھی کرسکتے ہیں جب کہ ایسے بچے اگر خاموشی توڑدیں تو اور اپنے والد، استاد، دوست ، معالج سے اس پر بات کریں تو بہت بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ نفسیاتی معالجین کے پاس اس کا باقاعدہ ایک پروگرام ہوتا ہے جس پر عمل کرکے بہت حد تک ان سوختہ روحوں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔