بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ ہے، پاکستانی ہائی کمشنر

ویب ڈیسک  اتوار 4 دسمبر 2016
ہم بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں، عبدالباسط. فوٹو: فائل

ہم بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں، عبدالباسط. فوٹو: فائل

امرتسر: بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ہندوستان ہماری مذاکرات کی پیش کش کو کمزوری نہ سمجھے جب کہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ ہے۔

امرتسر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستانی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہارٹ آّف ایشیا کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ مثبت پیش رفت ہے اور اس میں کالعدم تنظیموں کا نام بھی آیا ہے، پاکستان بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط کوششیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارے لئے بہت اہم ملک ہے، پچھلے 35 سال سے ہم افغانستان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں، خاص طور پر نائن الیون کے بعد ہم نے افغانستان کے لئے بہت قربانیاں دیں جس کی وجہ سے ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ کالعدم  تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں ہے اس لئے الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی پر فوکس ہونا چاہیے۔

عبدالباسط نے کہا کہ افغان قیادت مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ممالک کو مل کرکام کرنا ہو گا، افغانستان اور دیگر ممالک مل کرکالعدم تحریک طالبان کی کارروائیوں کوروکیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کے لئے جامع اور مربوط کوششیں کرنی چاہیئیں اور تمام ممالک  اس میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ  کانفرنس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واضح  کیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کسی ایک ملک پر الزام تراشی سے حل نہیں ہو سکتا جب کہ مشیر خارجہ کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات مفید رہی۔

پاکستانی ہائی کمشنر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ ہے اور اس مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگوں کے عین مطابق حل ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیرکےحل کے بغیرجنوبی ایشیا میں پائیدارامن ممکن نہیں، پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی اور پاکستان کی مذاکرات کی پیش کش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات چاہتے ہیں۔ سرتاج عزیز کی بھارت کے مشیر سلامتی امور اجیت دوول سے ملاقات نہیں ہوئی بلکہ غیررسمی بات چیت ہوئی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔