- جنوبی وزیرستان کے سیشن جج کے اغواء میں ملوث تین دہشت گرد ہلاک،آئی ایس پی آر
- تحریک انصاف نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر وائٹ پیپر جاری کردیا
- ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کا آفیشل ترانہ جاری
- وزیراعظم نے پیٹرول کی قیمت میں مزید کمی کا اشارہ دے دیا
- کراچی کے مختلف علاقوں میں 2.3 شدت کا زلزلہ
- جامعات میں طلبا کے اسرائیل مخالف مظاہرے ’خلل انگیزی‘ ہیں؛ امریکا
- ملک میں گاڑیوں کی قیمت میں لاکھوں روپے کی کمی
- زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کی نسبت روپے کی قدر مستحکم
- امریکی خاتون کا قبول اسلام، چترال کے معروف پولو کھلاڑی سے شادی کرلی
- غصے کی حالت دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیتی ہے، ماہرین
- بونے گھوڑے نے لمبی ترین دُم کا عالمی ریکارڈ قائم کرلیا
- گوگل کا آڈیو ایموجیز کے فیچر پر کام جاری
- چین میں سڑک ٹوٹنے سے متعدد گاڑیاں کھائی میں جاگریں؛ 48 افراد ہلاک
- موبائل سمز بلاک کرنے کیلیے ایف بی آر کے مراسلے کا جائزہ لیکر فیصلہ کرینگے، پی ٹی اے
- گندم کی خریداری، حافظ نعیم کا وزیراعلیٰ ہاؤس پنجاب کے گھیراؤ کا اعلان
- عمران خان نے مذاکرات کا اختیار دیدیا لیکن ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، شبلی فراز
- آصف زرداری پیپلزپارٹی کی صدارت سے مستعفی
- پی سی بی میڈیکل کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر سہیل عہدے سے مستعفی
- لندن کے پہلے مسلم میئر کو اسلاموفوبیا اور نفرت آمیز رویے کا سامنا
- اگر عمران خان جنگ ہار گیا تو پاکستان افریقا کا کوئی ملک بن جائے گا، فواد چوہدری
فنڈز کی کمی، پختونخوا میں لازمی تعلیم ایکٹ سرخ فیتے کی نذر، ہر بچے کو تعلیم دینےکا منصوبہ پورا نہ ہوسکا
پشاور: 18ویں ترمیم کے تحت سابق حکومت کی جانب سے کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 2011 فنڈزکی کمی کے باعث سرخ فیتے کی نذر ہوگیا۔
ایکٹ کے تحت 5 سے16 سال تک کے بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرناحکومت کی ذمے داری تھی ایکٹ پرموجودہ حکومت نے بھی چپ سادھ رکھ کرداخلہ مہم شروع کردی۔18 ویںترمیم کے بعدتعلیم اور نصاب کے تمام تراختیارات وفاقی حکومت سے صوبوںکومنتقل ہونے کے 25-A کے تحت5 سے 16 سال تک کے بچوںکوزیورتعلیم سے آراستہ کرناحکومت کی ذمے داری قراردے دی گئی جس کے لیے کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 2011 جس کی تیاری پرسابق حکومت نے لاکھوںروپے خرچ کیے کے لیے مختلف اوقات میں سیمینارز کا انعقاد کیا گیااس ایکٹ کی باقاعدہ منظوری سابق گورنر خیبرپختونخوا اویس احمدغنی نے بھی دی تاہم جب اسے صوبائی کابینہ میں پیش کیا گیا تو کابینہ نے اسے لاگو کرنے سے انکار کردیااس کے ایکٹ کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیاتھاجس میںپولیس اورکمیونٹی کے ارکان کو پابند بنایا گیا تھاکہ وہ پشاور سمیت صوبہ بھرکے کارخانوں، مستری خانوں، ہوٹلوں میں کام کرنے والے بچوں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ان کے بارے میںیہ معلوم کریں کہ انھیں اس کام پرلگانے کی ذمے داری کس کی ہے۔
اس اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگروالدین انھیں اسکولوں کے بجائے کام پرلگاتے ہیںتوان کے خلاف کارروائی کی جائے گی جس کاجرمانہ 5 ہزاراور3 سے 6 ماہ قیدکی سزاتھی تاہم کابینہ کی جانب سے مالی بحران اورذمے داری قبول نہ کرنے کے باعث اس ایکٹ کو لاگونہ کیا جا سکااورقانون آنے والی حکومت پرچھوڑ کر جان چھڑالی گئی اس حوالے سے سابق وزیرتعلیم سردار حسین بابک نے بتایاکہ حکومت کومالی بحران کا سامنا تھا حالانکہ اس ایکٹ کولاگوکرنے کے لیے تمام ترتیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں،جبکہ موجودہ حکومت نے بھی ایکٹ پرچپ سادھ رکھی ہے اورایکٹ لاگوکرنے کے بجائے وہ بھی داخلہ مہم بروقت صرف کرنے لگی ہے اس بارے میںجب وزیرتعلیم محمدعاطف خان سے پوچھا گیا تو انھوںنے بتایاکہ صوبے میںامن وامان اور تعلیمی بجٹ کے باعث وہ بھی ابتدائی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہیںکہ اس ایکٹ کو لاگو کیا جائے تاہم داخلہ مہم اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔