نئے سیاسی اتحادوں کے لیے رابطوں میں تیزی

ملک منظور احمد  منگل 6 نومبر 2012
مسلم لیگ (ن) نے مذہبی جماعتوں اور قوم پرست جماعتوں سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے فوٹو: فائل

مسلم لیگ (ن) نے مذہبی جماعتوں اور قوم پرست جماعتوں سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے فوٹو: فائل

اسلام آ باد: موجودہ جمہوری حکومت اپنی دستوری مدت پوری کرنے کے قریب تر ہے اور جمہوری حکومت کی 5 سالہ مدت کی تکمیل کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام اور تسلسل کے تناظر میں مستحسن قدم قرار دیا جارہا ہے۔

عام انتخابات آئندہ سال مئی کے وسط تک کرائے جانے کی قیاس آرائیاں زبان زدِعام ہیں۔ حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ یہ کہہ چکے ہیں کہ 18 مارچ کے بعد نگران سیٹ اپ قائم کردیا جائیگا، عام انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں جہاں تیز ترہوگئیں ہیں وہاں سیاسی جوڑتوڑ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان متوقع نئے سیاسی الائنس کی تشکیل کیلئے رابطے جاری ہیں،ارکان پارلیمنٹ اور وفاقی وزراء نے ابھی سے اپنے حلقوں میں زیادہ وقت دینا شروع کردیا ہے، حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کو خصوصی طور پر ترقیاتی فنڈز جاری کردیئے گئے ہیں، آئندہ عام انتخابات میں سیاسی قائدین اپنی نشستیں محفوظ بنانے کی غرض سے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں،عام انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں کے درمیان نئی صف بندیاں ہوسکتی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں اور بعض قوم پرست جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کیلئے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، دوسری طرف پیپلزپارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کو حتمی شکل دینے کیلئے بات چیت کررہی ہے،مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے میاں منظور احمد وٹو کو وسطی پنجاب کا صدر بنانے پر صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بعض تحفظات کا اظہار کیا تھا اور صدر آصف علی زرداری نے چودھری برادران کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ میاں منظوراحمد وٹو مسلم لیگ (ق) کو پنجاب میں نقصان نہیں پہنچائیں گے اور نہ مسلم لیگ (ق) کے لوگ توڑے جائیںگے، صدر آصف علی زرداری کی تمام تریقین دہانیوں کے باوجود مسلم لیگ (ق) کی قیادت کے خدشات مکمل طور پر تاحال رفع نہ ہوسکے۔

مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے درمیان آئندہ انتخابات کیلئے بڑی حد تک سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر معاملات طے پاچکے ہیں، پیپلزپارٹی کے بعض سینئر قائدین نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ پر شروع میں بعض تحفظات کا اظہار کیاتھا تاہم صدر آصف علی زرداری نے ان قائدین کے تحفظات دور کردیے ہیں، نگران سیٹ اپ کے قیام سے پہلے بڑی حدتک سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان اور سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہداللہ خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف فوری طور پر قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کے ساتھ نگران وزیراعظم اور کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر مذاکرات کریں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران سیٹ اپ کے قیام پر فوری مذاکرات کے امکانات کو مسترد کیا جارہا ہے۔

اپوزیشن کی قیادت آئندہ نگران وزیراعظم کے معاملہ پر اتفاق رائے کے قیام کیلئے کوشاں ہے اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پہلے ہی نگران وزیراعظم کیلئے بعض ایسی شخصیات کے نام تجویز کررکھے ہیں جن کی ساکھ کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے اور معاشرے کے تمام طبقات ایسی شخصیات کو عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ پرسیاسی قوتوں کے مابین اتفاق رائے قائم ہوپائے گا یا نہیں؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایک لیگل فریم ورک کے تحت ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی مشاورت سے نگران سیٹ اپ آئے گا جوکہ ایک مثبت قدم ہوگا۔

چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کے جی ایچ کیو میں افسران سے گفتگو پر تجزیے اور تبصرے کئے جارہے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کسی ادارے یا شخصیت کا نام لئے بغیر کہا کہ کسی فرد یا ادارے کو حق نہیں کہ ملکی مفاد کا حتمی تعین کرسکے، مسلح افواج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش ملکی مفاد کے منافی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلح افواج اور عوام میں دراڑ کون ڈال رہا ہے؟ آرمی چیف کو دراڑیں ڈالنے والے عناصر کو بے نقاب کرنا چاہئے تھا مگر چیف آف آرمی سٹاف نے کسی ادارے یا فرد کا نام نہیں لیا۔ سینئر افسران سے گفتگو کے دوران چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے دو اہم نوعیت کے سوالات کئے ہیں۔

کیا ہم قانون کی حاکمیت اور آئین کی بالادستی قائم کررہے ہیں؟ اداروں کو مضبوط کررہے ہیں یا کمزور؟ آرمی چیف کے اس بیان سے لگتا ہے کہ بعض ریاستی اداروں کے درمیان اہم معاملات پر اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کو انکے مخالفین صف اوّل کے سیاستدان بھی تمام تراختلافات کے باوجود جمہوریت کا حامی سمجھتے ہیں۔ اپوزیشن کے ایک اہم سیاستدان نے گزشتہ دنوں ایک نجی محفل کے دوران آرمی چیف کو سب سے بڑا پروڈیموکریٹ (PRO-Democrate) قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے آج تک ایسا آرمی چیف نہیں دیکھا جس نے فوج کو سیاست سے دور رکھا ہو۔ دستور پاکستان نے مسلح افواج کو جو قومی سلامتی اور ریاستی سرحدوں کے تحفظ کیلئے مینڈیٹ دے رکھا ہے فوج کو اسی پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔

آرمی چیف کے مذکورہ بالا ہنگامہ خیز بیان نے بعض وسوسوں کوجنم ضرور دیا ہے، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں یا ادارے ہیں جو مسلح افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈال رہے ہیں اور وہ کون لوگ ہیں جو پورے ادارے یعنی مسلح افواج کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ آج پاکستان میں سب ادارے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں، اس کوشش میں تیزی کے کچھ اچھے اور کچھ منفی نتائج بھی ہوسکتے ہیں، یہ منفی نتائج کیا ہوسکتے ہیں اور کونسا ادارہ تیزی دکھا رہا ہے، یہ بیان کا حصہ وضاحت طلب ہے آرمی چیف کے بیان پر ردعمل آرہا ہے جو ان کے اس بیان کی وضاحت بھی کررہا ہے اور آرمی چیف کے خدشات کی عکاسی بھی کررہا ہے۔

صدر آصف علی زرداری نے سارک سپیکرز کانفرنس کے اختتامی اجلاس اور بعدازاں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران کہا ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اب بھی حملوں کی زد میں ہے، آرمی چیف کی طرح صدر مملکت نے بھی ان افراد کا نام نہیں لیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ حملوں کی زد میں ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ سارک سپیکر کانفرنس کے انعقادسے رکن ممالک کے درمیان اہم معاملات پر حوصلہ افزا بات چیت ہوئی ہے اور کانفرنس کے انعقاد کو سارک تنظیم کیلئے مثبت قرار دیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔