- اے ایس پی شہر بانو نقوی شادی کے بندھن میں بندھ گئیں، تصاویر وائرل
- انتخابی نتائج کیخلاف جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان
- ضلع خیبر: سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں 4 دہشت گرد ہلاک
- وکیل کے قتل میں مطلوب خطرناک اشتہاری آذربائیجان سے گرفتار
- ملکی معیشت میں بہتری کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنے جارہے ہیں، وزیراعظم
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بڑھ گئی
- کراچی میں گرمی کی لہر برقرار، منگل کو پارہ 40 تک جانے کا امکان
- سعودی عرب میں لڑکی کو ہراساں کرنے پر بھارتی شہری گرفتار
- رجب طیب اردوان پاکستان کے سچے اور مخلص دوست ہیں، صدر مملکت
- کراچی: او اور اے لیول امتحانات میں بدترین بد انتظامی سے ہزاروں طلبہ اذیت کا شکار
- عجیب و غریب ڈیزائن کی حامل گاڑیاں
- سرجری سے انکاری معمر افراد کیلئے انتباہ
- صوتی آلودگی کے پرندوں پر مرتب ہونے والے سنگین اثرات
- شہباز شریف اور بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، فضل الرحمان
- بھارتی وزیر خارجہ امیت شاہ ہیلی کاپٹر حادثے میں بال بال بچ گئے
- مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود بائیس فیصد کی سطح پر برقرار
- خیبر پختون خوا میں بارشوں سے تین روز کے دوران 10 افراد جاں بحق
- انوکھا انداز؛ نیوزی لینڈ ٹی-20 ٹیم کا اعلان 2 بچوں نے کیا
- علی رضا عابدی کے قتل میں ملوث چار مجرموں کو عمر قید کا حکم
- تحریک انصاف کے بیک ڈور کسی سے مذاکرات نہیں ہورہے، بیرسٹر گوہر
بلند عمارتوں کی تعمیر پر پابندی، لاکھوں افراد کا روزگار متاثر
کراچی: بلند وبالا عمارتوںکی تعمیرات پر پابندی عائد ہونے کے باعث بلڈرزاینڈ ڈیولپرز کے150 ہائی رائز بلڈنگ پروجیکٹس کی سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں جس کے نتیجے میں عیدالفطرکے موقع پر300 ارب روپے کی متوقع سرمایہ کاری رک گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ ایسوسی ایشن آف بلڈرزاینڈ ڈیولپرزنے اس ضمن میں عدالت عالیہ کی قائم کردہ واٹرکمیشن اور عدالت عظمیٰ کی بینچ سے باقاعدہ رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ عدالت عظمیٰ کو زمینی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بلند و بالا عمارتوںکی کنسٹرکشن پر عائد پابندی کو ختم کرایا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر پرعدالت کی قائم کردہ واٹرکمیشن کی سفارشات پر عدالت عظمیٰ نے پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن تعمیراتی انڈسٹری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی کنسٹرکشن انڈسٹری کا موقف سنے بغیرملٹی اسٹوری، ہائی رائز بلڈنگز کی کنسٹرکشن پر عدالت عظمیٰ نے16 مارچ 2017 کو عائد کی جس کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے23 مئی2017 کوملٹی اسٹوری اور ہائی رائز بلڈنگز کی کنسٹرکشن پر باقاعدہ پابندی کا حکم نامہ جاری کیا۔
اس سلسلے میں آباد کے سینئروائس چیئرمین سینٹرل حسن بخشی نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ اگر بلندوبالا عمارتوں اور ملٹی اسٹوری بلڈنگز کی تعمیرات پر پابندی آئندہ 6 ماہ تک برقرار رہی تو اس شعبے سے وابستہ 25 لاکھ افراد کا روزگارخطرے میں پڑجائے گا جس میں تعمیراتی شعبے سے وابستہ ذیلی شعبوں کی صنعتوں کے ملازمین بھی شامل ہوں گے۔
چیئرمین سینٹرل نے بتایا کہ آباد کا خیال ہے کہ حکومت سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل عدالت عظمیٰ کو اس معاملے میں بہتر انداز سے بریفنگ دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ایسے احکام جاری کیے گئے جس سے ایک عام آدمی کے جائز کاروبار کے حقوق متاثر ہوئے ہیں اور اس شعبے کا موقف سنے بغیرپاکستان کے ایک بڑے صنعتی شعبے کی سرگرمیوں کوقلم کی ایک نوک پر ختم کیا جارہا ہے۔
حسن بخشی نے بتایا کہ پانی انسان پیتا ہے نہ ہائی رائیز عمارتیں پیتی ہیں، انسان جہاں بھی ہوگا پانی کی فراہمی حکومت وقت کی ذمے داری ہے،انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ آباد کے پلیٹ فارم سے عدالت عظمیٰ کی واٹرکمیشن اورعدالت عظمیٰ کے سامنے اس ضمن میں باضابطہ موقف پیش کیا جائے گا تاکہ اس شعبے میں پھیلنے والے اضطرات کا خاتمہ ممکن ہوسکے اور معطل تعمیراتی سرگرمیاں بحال ہوسکیں۔
دوسری جانب آباد کے چیئرمین محسن شیخانی کا کہنا تھا کہ ضابطوں اور قانون کے مطابق بلندوبالا عمارتیں شہرکی خوبصورتی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جنھیں مطلوبہ انفرااسٹرکچر کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے لیکن متعلقہ اداروں کی ناکامی کی ذمے داری ہائی رائزمنصوبوں کو ٹھہرانا درست نہیں ہے،انھوں نے کہا کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت شہر میں غیرمنظم تعمیرات کو فروغ دیکرکچی آبادیوں میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ انھی کچی آبادیوں میں ہونے والے جرائم کی کوئی ذمے داری کسی پرعائد نہیں ہوتی ہے،رشوت کا بازارگرم اورجرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔
محسن شیخانی نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کوزمینی حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کراچی میں مجموعی طورپرسپلائی کاصرف17 فیصد پانی عوام استعمال کرتے ہیں،باقی ماندہ83 فیصد پانی کا استعمال کہاں ہورہا ہے اس بارے میں متعلقہ اداروں کوحقائق تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔