چین کے انجینئرز اور پنجاب کی پولیس

ناصر محمود شیخ  اتوار 8 اپريل 2018
nms.mux@gmail.com

[email protected]

ہمارے مذہب میں علم کی اہمیت اور افادیت کے لیے کہا گیا کہ ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘‘ ہم تو علم کے حصول کے لیے چائینہ کو زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتے البتہ چین کے بڑی تعداد میں باشندے ہمیں پراجیکٹس اور سبق دینے آرہے ہیں۔

گزشتہ دنوں خانیوال میں پولیس اور چینی انجینئرز کے درمیان لڑائی جھگڑے کے واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا  کے ماہرین اپنی اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر رہے ہیں۔ ایسا ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار ہو رہا ہے کہ عوام پنجاب پولیس کو مظلوم کہہ اور سمجھ  رہے ہیں  ورنہ  پنجاب پولیس کو ہمیشہ ظالم ہی کہا اور سمجھا گیا۔

ملک کے دیگر شہروں کی طرح ضلع خانیوال میں موٹروے پروجیکٹ کے لیے کام کرنے والے چینی انجینئرز کی بڑی تعداد مقیم ہے، ان کی حفاظت پر مامور پولیس‘ سکیورٹی عملے  اور چینی انجینئرز کے درمیان  لڑائی جھگڑے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی تبصروں اور تجزیوں کا سیلاب رواں ہو گیا ہے۔ کہیں پاکستان میں کام کرنے والے چائنیز سٹاف کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہہ دی جا رہی ہے اور کہیں کوہ ہمالیہ سے بلند اور دیوار چین جیسی مضبوط پاک چین دوستی کو کچی دیوار قرار دیا جا رہا ہے۔

خانیوال سے پہلے شجاع آباد ضلع ملتان میں بھی ایسا ہی ناخوشگوار واقعہ ہوا تھا، چینی انجینئرز نے ملتان کی پولیس سے بھی بدتہذیبی کی تھی لیکن ملتان پولیس نے ان کا ’’مکو ٹھپ‘‘ دیا تھا ۔ پاکستانی پولیس اور چائینہ کے انجینئرز کے درمیان ہونے والے جھگڑوں میں ان میں سے کون سے وجہ ہے ابھی تک سامنے نہیں آ سکی حالانکہ اس طرح کے واقعات میں جس میں غیر ملکی مہمان بھی فریق ہوں تو فوری وجوہات سامنے آ جانی چاہئیں۔

چائینہ کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی اکثر چیزیں پائیدار اور دیرپا نہیں ہوتیں۔ ایک پاکستانی نے چین کی خاتون سے شادی کی اور اسے پاکستان لے آیا۔ کچھ دن کے بعد اس کی چینی بیوی کا انتقال ہو گیا، پاکستانی خاوند اس کے جنازے پر زار و قطار رو رہا تھا ،اس کے ایک دوست نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ صبر کرو یار چائینہ کی چیز اتنی ہی چلتی ہے۔

سوشل میڈیا کے کچھ دانشور پاک چین دوستی کو ان چھوٹے چھوٹے واقعات کے تناظر میں ناپائیدار اور کمزور قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ نامناسب ہے۔

دنیا کے تقریباً 74 ممالک میں محنت مزدوری اور بچوں کے روزگار کے سلسلے میں 80 لاکھ سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں وہاں ان سے بھی بدسلوکی اور بدتہذیبی کے بے شمار واقعات ہوتے ہیں لیکن پاکستانیوں کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنا پڑتا ہے۔ ڈی پورٹ ہونے کے خوف سے وہ بدسلوکیوں کو برداشت کرتے ہیں۔

پاکستان میں اپنے روزگار اور سرکاری پروجیکٹس پر کام کے لیے آنے والے تعلیم یافتہ چینی شہریوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ سی پیک سے متعلق پراجیکٹس کے آغاز کے بعد تو یہ تعداد لاکھوں میں جا پہنچی ہے لیکن حالات نے ثابت کیا کہ ان کے ساتھ ساتھ چور اور فراڈیے بھی چائینہ سے پاکستان آ رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں بینکوں کیATM مشینوں سے کیش نکالنے والے کئی چینی فراڈیے پکڑے بھی گئے ہیں۔ چائنیز اگر پاکستان میں اپنے روزگار کے سلسلے میں آتے ہیں تو انھیں یہاں کے قوانین اور قواعد و ضوابط اور سکیورٹی عملے کا احترام لازمی کرنا چاہیے۔

ملتان‘ خانیوال جیسے واقعات کی روک تھام بے حد ضروری ہے‘ چینی انجینئرز کے ساتھ ساتھ پولیس اور سکیورٹی ایجنسیز کو زیادہ تحمل مزاجی اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہی ہماری مذہبی تعلیمات بھی ہیں اور قومی ذمے داریاں بھی ہیں۔ ابتدائی رپورٹ میںچینی عملے کے کچھ ارکان کوذمے دارقرار دیا گیا ہے اور انھیں ڈی پورٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ کچھ چینی جان بوجھ کر تلخی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ وہ ڈی پورٹ ہوکر واپس جا سکیں۔ ہمیں بطور میزبان اپنا دل بڑا کرنا چاہیے ۔ہمارے دشمن بہت ہیں، ایسے میں  ہمیں ناخوشگوار واقعات کا خاتمہ کرکے پاک چین دوستی کی لاج رکھنی چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔