پاکستان دنیا کا منفرد ملک

نجمہ عالم  جمعـء 29 جون 2018
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

وطن عزیز تو کئی لحاظ سے دنیا کا منفرد ملک ہے، زیادہ نہیں مگر چند مثالوں سے ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں۔ مثلاً پاکستان (شاید) دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک غیر ملکی وزیر خزانہ، وزیراعظم کے فرائض ادا کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان دنیا کے چند ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے کہ جب دنیا بھر میں علم و ہنر اور سائنسی ترقی میں قابل قدر اضافہ ہورہا ہے یہاں بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود شرح خواندگی میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان وہ منفرد ملک ہے جو آزاد، خود مختار اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ’’قرض کی دلدل‘‘ میں گلے گلے پھنسا ہوا ہے مگر ساتھ ہی غریب، پسماندہ اور ترقی پذیر اور مقروض بھی ہوتے ہوئے بھی اس کے ہر قابل ذکر ادارے میں کروڑوں کی کرپشن ممکن ہے۔ جہاں 50 فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، دیہاتوں کا تو ذکر کیا شہروں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہیں۔

شدید گرمی کے باعث اس گندگی میں تعفن اٹھنے سے طرح طرح کے امراض پیدا ہورہے ہیں اور محکمہ صحت کی کارکردگی بھی کچھ کم مثالی نہیں کہ دواؤں کے نام پر عملے کی تنخواہوں کی مد میں سوائے کرپشن کے کچھ نہیں، عالم یہ کہ بڑے بڑے سرکاری اسپتالوں میں ایک ہی بستر پر مریض اور مردہ لیٹے پائے گئے ہیں۔ کراچی جیسے بین الاقوامی شہر کے بڑے اسپتال میں تقریباً ایک سال ایک مشکوک خاتون بحیثیت ڈاکٹر خدمات انجام دیتی رہیں۔ تو کیا ہوا جب ایک غیر ملکی کرسیٔ وزارت عظمیٰ پر براجمان رہ سکتا ہے تو ایک میٹرک پاس خاتون جو کم از کم اس ملک کی شہری تو ہیں بطور ڈاکٹر اگر ’’خدمت خلق‘‘ فرماتی ہیں تو کیا حرج ہے؟ خدمت خلق تو بہر حال نیکی ہے۔ روزگار نہ ملے تو خدمت خلق کے ذریعے دوسروں کے علاوہ خود اپنے اہل خانہ کی خدمت کے لیے کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔

پاکستان کے لیے منفی عالمی رپورٹوں کو تو ہم خود بہت اچھالتے ہیں مگر ان مثبت کارروائیوں کا ذکر نہیں کرتے۔ کرپشن کے حوالے سے ہی اگر دیکھا جائے تو بقول ’’خود ہمارے‘‘ ہمارا ملک دنیا کا امیر ترین ملک ہے ہماری صداقت کے لیے ذرا ان اربوں روپوں کو جمع کرلیجیے جو مختلف اداروں میں برسوں سے ہورہی ہے تو ہر پاکستانی ثابت ہوجائے گا۔ مگر ہمارے محترم سعداﷲ برقؔ صاحب کو یہ حیرت کھائے جارہی ہے کہ اتنا کچھ جو دساورکو بھیجا جاتا ہے آخر یہ ’’سبزۂ و گل‘‘ آتا کہاں سے ہے؟

بھیجے جانے کی تحقیق تو وہ مکمل کرچکے ہیں مگر آتا کہاں سے ہے کی تحقیق ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ بہرحال یہ جمع شدہ رقم کسی اچھے بھلے ترقی یافتہ ملک کے کئی برس کے اخراجات سے کئی گنا زائد ہوگی۔ غربت اور پسماندگی کا غل تو بطور قومی پالیسی اس لیے مچایا جاتا ہے کہ مزید قرض حاصل کرنا جو ہوتا ہے، ساتھ ہی عوام کی تسلی کے لیے بھی کہ اس بار تو قرض محض آپ کی بہبود اور مشکلات دور کرنے کے لیے لیا جارہاہے ورنہ ہم تو آپ کے لیے دامے درمے سخنے حاضر ہیں۔

غیر ملکی وزیراعظم کی مثال ہوتے ہوئے یہ کہنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا کہ ملک کے ایک اہم صوبے کے وزیراعلیٰ دوہری شہریت کے ساتھ صوبے پر حکمرانی کرتے رہے۔ (کام نہیں صرف حکمرانی) اور روز کوئی نہ کوئیایسا بیان داغتے رہے  (جس سے صوبے کی لسانی و سیاسی صورتحال متغیر ہوتی رہے) اورایک صاحب دہری شہرت کے ساتھ ممبر قومی اسمبلی بننے کی سزا گزشتہ پانچ سال سے بھگت رہے ہیں، امریکا میں ان کا کاروبار بھی ٹھپ  ہوچکا ہے اور اس شوق سیاست میں ’’عزتِ خان‘‘ بھی گئی جب کہ وزارت اعلیٰ کے عہدے سے مراد علی شاہ نہ صرف باعزت رخصت ہوئے بلکہ دوبارہ بھی کاغذات نامزدگی داخل کردیے جو مسترد ضرور ہوئے مگر کوئی صورت پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ آیندہ بھی سندھ کابینہ میں نظر آجائیں کیونکہ یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ممکن ہے (اب یہ صورت پیدا ہوچکی ہے)

موسم انتخابات میں دیکھیے کیسے کیسے گل کھل رہے ہیں کراچی کے ایک حلقے سے ہر پارٹی کے سربراہ انتخاب کی قطار میں کھڑے ہیں۔ ہمارے دانشور اور مبصرین کا فرمانا ہے کہ آیندہ وزیراعظم کراچی سے ہوگا۔

(اگر اس حلقے سے جیت جائے تو) خیر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے، بہر حال متوقع وزیراعظم نے بھی کراچی سے اپنے کاغذات داخل کرادیے ہیں جن کے حامی ان کے لیے نیک تناؤں کا اظہار کرتے ہوئے انھیں پاکستان کی ’’آخری امید‘‘ تک قرار دے چکے ہیں ور مخالفین ان کے یوٹرن، غیر سنجیدہ سیاست، غیر ذمے دارانہ فیصلوں کے علاوہ جو بات دیگر رہنماؤں اور ان کے درمیان وجۂ امتیاز تھی وہ خود اس کا شکار ہوگئے یعنی اپنے مخلص، وفادار ساتھیوں کو نظر انداز کرے ایسے نو وارد افراد جو اپنی گزشتہ وفاداریاں بھول گئے، محض ’’چڑھتا سورج‘‘ سمجھ کر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں کو اس امید پر کہ وہ اپنے  حلقوں سے 80 فی صد کامیابی کا امکان رکھتے ہیں ٹکٹ دیے ہیں کیونکہ موصوف کو اس بار ہر حال میں وزیراعظم بننا ہے۔

وہ اپنی پارٹی کے سربراہ ہیں (جمہوری و غیر جمہوری) جو بھی فیصلہ کریں مگر ہم بطور ووٹر اور پاکستانی یہ پوچھنے کا حق تو رکھتے ہیں کہ جس پارلیمنٹ میں وہ پانچ برس میں دو چار سے زیادہ بار قدم رنجہ نہ فرماسکے جس پر وہ لعنت بھیج چکے ہوں اس کے قائد ایوان بنتے ہوئے وہ کوئی شرمندگی تو محسوس نہ کریںگے؟ اور پھر کراچی سے منتخب ہونے کی خواہش چہ خوب ہمارا آیندہ وزیراعظم زندہ لاشوں کا منتخب کردہ ہو کم از کم ہمیں تو اچھا نہیں لگے گا پھر پاکستان کی بھی بدنصیبی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی؟ مگر ان کو ایک موقع (کسی بھی صورت) بہرحال ملنا چاہیے کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آنے سے پہلے خود ہی کو بلند سمجھتا ہے۔ سو (100) دنوں کی کارکردگی سے ہی  پتا چل جائے گا کہ ملک چلانا کس کو کہتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔