- پنجاب کے اسکولوں میں 16 مئی کو اسٹوڈنٹس کونسل انتخابات کا اعلان
- حکومت کا سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے عبوری فیصلے پر تحفظات کا اظہار
- گونگا بچہ کیوں پیدا کیا؛ طعنوں پر ماں نے بیٹے کو مگرمچھوں کی نہر میں پھینک دیا
- سندھ میں آم کے باغات میں بیماری پھیل گئی
- امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے پی ٹی آئی قیادت کی ملاقات، قانون کی حکمرانی پر گفتگو
- کراچی میں اسٹریٹ کرائم کیلیے آن لائن اسلحہ فراہم کرنے والا گینگ گرفتار
- کراچی میں شہریوں کے تشدد سے 2 ڈکیت ہلاک، ایک شدید زخمی
- صدر ممکت سرکاری دورے پر کوئٹہ پہنچ گئے
- عوامی مقامات پر لگے چارجنگ اسٹیشنز سے ہوشیار رہیں
- روزمرہ معمولات میں تنہائی کے چند لمحات ذہنی صحت کیلئے ضروری
- برازیلین سپرمین کی سوشل میڈیا پر دھوم
- سعودی ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے سے ایک شخص ہلاک؛ 95 کی حالت غیر
- وقاص اکرم کی چیئرمین پی اے سی نامزدگی پر شیر افضل مروت برہم
- گندم اسکینڈل پر انکوائری کب کرنی ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کا نیب پراسیکیوٹر سے استفسار
- ایٹمی طاقت رکھنے والے پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں؛ فاروق عبداللہ
- جماعت اسلامی کا احتجاجی مظاہرہ، تعلیمی اداروں میں مقابلہ موسیقی منسوخی کا مطالبہ
- مئی اور جون میں ہیٹ ویو کا الرٹ؛ جنوبی پنجاب اور سندھ متاثر ہونگے
- سوات : 13 سالہ بچی سے نکاح کرنے والا 70 سالہ شخص، نکاح خواں اور گواہ زیر حراست
- امریکا نے پہلی بار اسرائیل کو گولہ بارود کی فراہمی روک دی
- فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہوتا تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا،چیف جسٹس
بی اے پی اور اتحادیوں کے بعض وزراء جام کمال کیخلاف ہو گئے
کوئٹہ: بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں یہ بات بڑے وثوق سے وائرل ہوئی ہے کہ بلوچستان میں جام کمال کی مخلوط حکومت کے خلاف اُن کی جماعت بی اے پی اور اتحادی جماعتوں کے بعض وزراء و ارکان اسمبلی نے سر جوڑ لئے ہیں جبکہ اس بات کو تقویت اس لئے بھی ملی کہ بی اے پی کے سینئر رکن اسمبلی اور سابق وزیراعلیٰ میر جان محمد جمالی نے بھی ایک بیان ایسا داغا جس میں اُنہوں نے اپنی جماعت کے وزیراعلیٰ جام کمال کی حکومت کو ناکام قرار دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ صوبائی مخلوط حکومت صرف اخباری بیانات کی حد تک ٹھیک چل رہی ہے جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ صوبائی کابینہ کے اجلاسوں میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے لیکن اس میں وہ ناکام ہو چکی ہے۔
سینئر پارلیمنٹیرین جان محمد جمالی کے اس بیان کو سیاسی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی تاہم ردعمل کے طور پر وزیراعلیٰ بلوچستان کے ترجمان کی طرف سے جواب تیار کیا گیا لیکن اسے مشتہر نہیں کیا گیا کیونکہ یہ جواب آخری وقت پر واپس لے لیا گیا جو کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی جانب سے ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ جواب آنے کے بعد بیانات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا تھا؟ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اندرون خانہ کچھ چل تو ضرور رہا ہے کیونکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ مخلوط حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بعض ارکان اسمبلی اور کابینہ کے ارکان کی اس دوران ایک ’’بیٹھک‘‘ ایک ایم پی اے کی جانب سے دیئے گئے نجی ظہرانے پر بھی ہوئی۔
جس میں موجودہ مخلوط حکومت کے حوالے سے بعض معاملات پر بحث و مباحثہ ہوا اس ’’بیٹھک‘‘ میں بھی گلے شکوے ہوئے اور بعض ارکان نے کھل کر کچھ حکومتی اقدامات پر تنقید کی، بعض حلقے اس سیاسی ’’بیٹھک‘‘ کو صرف کھانے تک محدود قرار دیتے ہوئے اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ اس میں کسی قسم کی کوئی سیاسی گفت و شنید ہوئی اور نہ ہی حکومتی اقدامات پر کوئی رائے دی گئی۔
جان جمالی کے سیاسی بیان اور سیاسی بیٹھک کے تناظر میں بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن بھی پیچھے نہیں رہی اور بی این پی کے پارلیمانی لیڈر رکن اسمبلی ملک نصیر شاہوانی نے موقع جانتے ہوئے یہ بیان دیا کہ نمبر گیم پورا ہوا تو بلوچستان میں حکومت بنانے میں دیر نہیں کریں گے۔ موجودہ مخلوط صوبائی حکومت نا اہل ہے ابھی تک پی ایس ڈی پی پر ایک روپیہ خرچ نہیں کرسکی، حکومت ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے ترقیاتی فنڈز لیپس کرنے کے درپے ہے۔ تاہم صوبے کی سیاست کیا رُخ اختیار کرتی ہے یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے مختلف صوبائی محکموں میں ہزاروں کی تعداد میں بھرتیوں کے عمل کو صاف اور شفاف بنانے کیلئے ڈویژنل کمشنرز کے ذریعے اس عمل کو مکمل کرنے کے فیصلے پر بھی انکی کابینہ کے بعض وزراء اور اراکین اسمبلی کو تحفظات ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ATP رولز کے تحت پہلے ہی سلیکشن کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں اب یہ نیا پنڈورا بکس کھولنے سے نئی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں، بھرتیوں کیلئے ڈویژنل کمشنرز کو چیئرمین بنانے سے تمام کنٹرول وزراء اور محکموں کے سیکرٹریز سے ختم ہو جائے گا کیونکہ کمشنرز کسی بھی وزیر یا محکمے کے ماتحت نہیں ہیں۔
بھرتیوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ کے اس فیصلے کو آئندہ صوبائی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے پر رکھا جارہا ہے جس میں اس حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جائے گا توقع اس بات کی ہے کہ اس اجلاس میں اکثریت رائے کو فوقیت دی جائے گی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیراعلیٰ اپنے اس فیصلے کوکابینہ سے منوانے میں کامیاب نہ ہو پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی تمام صورتحال کو بھانپتے ہوئے اپنی حکومت کے مثبت اقدامات کو اُجاگر کرتے ہوئے تیزی سے اُن پر عملدرآمد شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ اس حوالے سے اُن کے اقدامات پر جو تنقید کی جا رہی ہے۔
اُس کا تدارک کیا جا سکے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ حکومت چلانا آسان کام نہیں باہر کے ممالک میں ہم سے زیادہ سیاست کی جاتی ہے لیکن جب وہاں لوگ گورنمنٹ میں آتے ہیں تو وہ سیاست کو الگ رکھتے ہیں اور ملک کیلئے بہتر منصوبہ بندی کرتے ہیں اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت صوبے کی آمدنی 15 ارب روپے ہے اگر15 سال پہلے بہتر طریقہ کار اپنایا جاتا منصوبہ بندی کی جاتی تو آج15 ارب روپے کے بجائے60 ارب روپے کے قریب آمدنی ہوتی جہاں منصوبہ بندی کا فقدان ہو وہاں رزلٹ کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمیں اداروں کے استحکام کی بنیاد پرروزگار دینا ہوگا نہ کہ سیاسی بنیادوں پر۔
سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں تحریک انصاف بھی اپنے پارلیمانی گروپ میں بعض اُلجھے ہوئے معاملات کو درست سمت میں لے جانے کیلئے ہوم ورک کر رہی ہے اور پارلیمانی گروپ میں حکومت سازی سے لے کر اب تک جو رابطوں کا فقدان ہے اُسے دور کرکے مشاورت کے ذریعے تمام معاملات کو ہینڈل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔
تحریک انصاف بلوچستان کے ایک اہم عہدیدارکا کہنا ہے کہ پارٹی کی مرکزی و صوبائی قیادت مکمل رابطے میں ہے اور جلد ہی اچھے اور مثبت فیصلے بلوچستان کے حوالے سے سامنے آئیں گے۔ بلوچستان میں حکومت سازی سے لے کر اب تک جو مس انڈر اسٹینڈنگ تھی وہ بھی دور ہوگئی ہے، سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ کچھ عرصے میں تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ کے حوالے سے بھی بعض اہم نوعیت کے فیصلے اور تبدیلیاں سامنے آنے کی توقع کی جا رہی ہے جس کا اشارہ پارٹی کے عہدیداران اور پارلیمانی گروپ کے بعض ارکان دے رہے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔