ضمنی الیکشن کے نتائج نے عام انتخابات پر سوالیہ نشان لگا دیا

خالد قیوم  منگل 27 اگست 2013
آخر وزیراعلیٰ پنجاب کی راجن پور والی بھاری اکثریت سے جیتی گئی سیٹ پر اپ سیٹ کیوں ہوا؟ فوٹو: فائل

آخر وزیراعلیٰ پنجاب کی راجن پور والی بھاری اکثریت سے جیتی گئی سیٹ پر اپ سیٹ کیوں ہوا؟ فوٹو: فائل

لاہور: موجودہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک لحاظ سے یہ ووٹرز کی اپنی رائے کے عکاس تھے۔

عام انتخابات کو ہوئے ابھی صرف 75 دن ہوئے ہیں، یہ وقت کسی بھی پارٹی یا شخص کے انداز حکمرانی، ملک و قوم کے بارے میں اس کی سوچ ، فیصلے اور پارٹی منشور کو لاگو کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتا۔ عمران خاں این اے 1 پشاور سے 66 ہزار ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے تھے اور اب 75دن بعد تحریک انصاف اپنے قائد کی خالی کی گئی نشست ہار گئی اور اس کا امیدوار صرف 29 ہزار ووٹ حاصل کر سکا۔ دوسری طرف اگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر میاں منظوروٹو عام انتخابات میں اپنے پورے خاندان سمیت الیکشن ہار گئے تھے مگر ضمنی انتخابات میں ان کے بیٹے خرم جہانگیر وٹو پنجاب اسمبلی کی سیٹ جیت گئے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ شہباز شریف پی پی 247 راجن پور سے 56 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے اور ان کے مد مقابل امیدوار علی رضا دریشک نے صرف 25 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے، ضمنی الیکشن میں وہ جیت گئے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزیراعلیٰ پنجاب کی راجن پور والی بھاری اکثریت سے جیتی گئی سیٹ پر اپ سیٹ کیوں ہوا؟ ادھر ڈی جی خان میں ذوالفقار کھوسہ والی سیٹ کیوں ہار گئے؟ اگر خاندانی چپقلش اس کی وجہ ہے تو سیف الدین کھوسہ 2010ء کے ضمنی الیکشن میں بھی مخالف تھے اور خاندانی چپقلش بھی موجود تھی، اس کے باوجود وہ جیتے تھے۔ حکومت بھی اپنی تھی پھر اب کیوں ہارے ؟ این اے 177 مظفر گڑھ سے جمشید دستی ایک لاکھ تین ہزار ووٹ لے کر بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے اب ضمنی الیکشن میںان کے بھائی مسلم لیگ(ن) کے حمایت یافتہ امیدوار تھے مگر وہ الیکشن ہار گئے ہیں اور ان کے مقابلے میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد ، پیپلزپارٹی کے امیدوار نور ربانی کھر جیت گئے ہیں ۔ دراصل 75 دن حکومتوں کی کارکردگی کیلئے کافی نہیں ہوتے، اس قلیل عرصے کے دوران نہ تو عمران خاں برے ہوگئے اور نہ ہی پنجاب میں شہباز شریف نے کوئی اتنی بڑی غلطیاں کردی ہیں کہ عوام مایوس ہوگئے ہیں اور نہ ہی پیپلزپارٹی نے یہاں کوئی ایسا جادو چلادیا ہے کہ ان کا گراف اچانک بڑھ گیا ہے۔

یہ عجیب بات لگتی ہے کہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 297اور قومی اسمبلی کی 148سیٹوں میں سے پیپلزپارٹی کے حصے میں صوبائی اسمبلی کی 6اور قومی اسمبلی کی 2سیٹیں آتی ہیں اور 75 دن کے بعد ہاری ہوئی پارٹی صوبائی اسمبلی کی 15 سیٹوں میں سے 2اور قومی اسمبلی کی 6میں سے 1ایک نشست جیت جاتی ہے، اس سے سیاسیات کے طالب علم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا عام انتخابات عوامی رائے کے عکاس تھے؟ یا ضمنی انتخابات عوامی رائے کا عکاس ہیں۔ اس کا جواب تلاش کیاجاسکتا ہے۔ ملک کے تمام ضمنی حلقوں میں انتخابات پر کہیں بھی کسی سیاسی جماعت، سول سوسائٹی ، میڈیا اور ووٹرز کی طرف سے انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ فوج کی پولنگ اسٹیشنز پر موجودگی نے صوبائی حکومتوں کو انتخابی عمل میں گڑ بڑ کرنے سے روک دیا، صرف پی پی 150لاہور واحد حلقہ ہے جس کے بارے میںکہا جا رہا ہے کہ وہاں الیکشن کا عمل تو درست طریقے سے ہوا لیکن ریٹرننگ افسر نے گنتی میں اس کو غیر منصفانہ بنا دیا ہے۔

ریٹرننگ افسر کا دوبارہ گنتی سے انکار اس شکایت کو تقویت دیتا ہے کہ کیا وجہ تھی اور کون سا خفیہ ہاتھ تھا جو اسے دوبارہ گنتی سے روک رہا تھا؟ 138پولنگ اسٹیشنز کی دوبارہ گنتی صرف ایک دن کا کام تھا اگر یہ کردیا جاتا تو انصاف ہوتا نظرآتا۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے لاہور کے حلقہ پی پی 161میں چودھری گلزار گجر کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ درست تھا۔ یہ نشست شریف برادران کے لئے بڑی اہم ہے۔ ضمنی الیکشن میں ایک اہم سوال کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے، قانون اور سیاست کے طالبعلم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ ضمنی الیکشن ایک قائم مقام چیف الیکشن کمشنرکے زیر نگرانی ہوئے ہیں، ان کی سارے معاملات پرگرفت کیوں مضبوط تھی اور کس طرح کمیشن نے اپنے احکامات پر عملدرآمد کرایا اورعام انتخابات میں سابق چیف الیکشن کمیشن فخرو بھائی ایسا کرنے میں کیوں ناکام ہوئے؟ کمیشن کے ممبران اور سرکاری اعمال کیوں گریزاں رہے؟

اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن صرف قائم مقام چیف الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی یا سربراہی میں ہی بہتر نگرانی کرسکتا ہے اور چیف الیکشن کمشنر بطور سینئر جج سپریم کورٹ اپنے احکامات پر عمل درآمد کراسکتے تھے اگر اس کا موازنہ کیا جائے تودو قائم مقام الیکشن کمشنر پہلے جسٹس شاکراﷲ جان اور اب جسٹس تصدق حسین جیلانی اور مستقل چیف الیکشن کمشنر جسٹس حامد علی اور فخرو بھائی میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ و فاقی و صوبائی حکومتیں عدلیہ کی وجہ سے ان کے احکامات پر عمل درآمد کرانے کے لئے مجبور تھیں ۔ اگر عام اور ضمنی انتخابات کا عمیق جائزہ لیا جائے تو دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات کہ عام انتخابات کے نتائج پر اٹھنے والی انگلیاں کسی حد تک درست ہیں۔ عام انتخابات عوامی رائے کے صحیح عکاس نہیں بلکہ ان خاص قوتوں کے ڈرائنگ روم فیصلوں کے عکاس تھے جو الیکشن سے پہلے ہی کئے لگتے تھے۔

موجودہ ضمنی الیکشن پاکستان میں سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور قائدین کی عوامی مقبولیت کا درست اور صحیح اندازہ مہیا کرتے ہیں اور ان انتخابات کے نتائج کے مطابق ہی سیاسی جماعتوں کے وزن اور عوامی مقبولیت کو دیکھنا پڑے گا ۔ دوسری بات جو کھل کر سامنے آئی ہے، وہ 18ویں ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی بے بسی، بے وقتی اور بے اختیاری ہے اور فخرو بھائی اس کا شکار ہوئے، الیکشن کمیشن کے تین ممبران نے انہیں چلنے نہیں دیا اور بالآخر وہ مستعفی ہوگئے۔ چیف الیکشن کمشنر محض ایک ممبر ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ جب تک چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کو آئینی طور پر باوقار اور بااختیار نہیں بنایا جاتا اور رولز آف بزنس نہیں بنائے جاتے، ہر چیف الیکشن کمشنر خواہ وہ جتنا بھی ایمان دار، قابل، کام کرنے والا، قوم اور ملک کا درد رکھنے والاہو بدنامی کا ٹیکہ لے کر یہاں سے جائے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔