قومی اسمبلی اجلاس؛ اب سندھ کارڈ نہیں صرف پاکستان کارڈ چلے گا، شاہ محمود قریشی

ویب ڈیسک  پير 11 مئ 2020
اگر لاک ڈاؤن کو برقرار رکھتے تو 71 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے، وزیر خارجہ۔ فوٹو : فائل

اگر لاک ڈاؤن کو برقرار رکھتے تو 71 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے، وزیر خارجہ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ آج صوبائی تعصب کی بو آرہی ہے تاہم اب سندھ کارڈ نہیں صرف پاکستان کارڈ چلے گا۔

قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں نے جوانی پیپلز پارٹی کو دی، بھٹو اور بینظیر وفاق کی بات کرتی تھیں، پیپلز پارٹی وفاق کی خوشبو ہے مگر آج صوبائی تعصب کی بو آرہی ہے تاہم اب کوئی سندھ کارڈ نہیں، صوبائی کارڈ نہیں، صرف پاکستان کارڈ چلے گا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے لاک ڈاؤن کو نرم کیا تو اس پر بھی تنقید کرتے ہوئے ہم پر طعنہ زنی کی گئی، ایک طرف کورونا وائرس اور دوسری طرف معاشی بحران ہے، ہمیں کورونا کے ساتھ بھوک و افلاس کا بھی مقابلہ کرنا ہے، مراد علی شاہ کی کوشش کے باوجود لاک ڈاؤن اس طرح نہیں ہوسکا جیسا ہونا چاہیے تھا، اگر لاک ڈاؤن کو برقرار رکھتے تو 7 کروڑ سے زائد  لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے۔

خواجہ آصف؛

مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس پر یورپ کی مثال نہ دیں کیونکہ ہمارے ہاں ابھی پیک آنی ہے وہاں صورتحال بہتر ہوچکی ہے جب کہ شاہ محمود قریشی کو سندھ کارڈ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، سندھ نے بہترین کام کیا، اگر صوبائی خود مختاری کا مسئلہ پہلے حل کرلیا جاتا تو بنگلا دیش جدا نہ ہوتا لہذا جو چیزیں تمام اکائیوں نے مل کر طے کرلی ہیں انہیں مت چھیڑا جائے۔

بلاول بھٹو زرداری؛

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وزیراعظم کو ملک کا وزیراعظم بننا چاہیے تھا، اسے پی ٹی آئی کا وزیراعظم نہیں بننا چاہیے۔ انہوں نے شاہ محمود قریشی  کے خطاب پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا وزیر خارجہ جن کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اقدامات کے بارے میں بتائیں مگر انہوں نے 18 ویں ترمیم اور سندھ کی بات چھیڑ دیا۔ آج ہمارا وزیراعظم ایوان میں نہیں حالانکہ وہ اس ایوان کے قائد اور وزیر صحت بھی ہیں۔ اس وبا نے دنیا کے بڑے بڑے لیلڈروں کی حقیقت عیاں کردی ہے۔ بحرانوں میں لیڈرز کا پتہ چلتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک 700 فرنٹ لائن ورکرز وائرس سے  متاثر اور 11 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹرز، پیر میڈیکس کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق جتنی تیزی سے یہ بیماری پیرا میڈیکس سٹاف میں پھیل رہی ہے وہ کسی ملک میں اتنی نہیں پھیلی۔ وفاقی حکومت اور ریاست کو تمام صوبوں کے شعبہ صحت میں بہتری کے لیے وسائل دینا ہوں گے۔وزیر خارجہ کا خطاب حقائق پر مبنی نہیں ہے، ہم کوئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیے: قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلیے ارکان کا کورونا ٹیسٹ کروانا لازمی قرار

انہوں نے کہا خیبر پختون خوا کی ٹیسٹ کرنے کی استعداد کم ہے اس لیے وہاں اموات بھی زیاد ہیں۔ ۔ہم خیبرپختونخوا کی وزارت صحت ، بیورو کریسی اور وزرا کو سلام پیش کرتا ہوں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کو بھی سہولت فراہم نہیں کی جارہی حالانکہ وہان بھی ٹیسٹنگ کیپسٹی بڑھی ہے ۔ہم روزانہ 5000 سے زائد کا ٹیسٹ کرسکتے ہیں ، دو لیبارٹریز کا وعدہ کیا گیا مگر ایک بھی نہیں دی گئی ۔اس وقت سندھ حکومت کا ٹیسٹنگ کیپسٹی میں سب سے زیادہ اضافہ کیا۔ افسوس ہمارے صوبہ سندھ کے وزرا، عوام کی کردار کشی تک کی گئی ۔جب سے یہ وبا آئی اس وقت سے ہم نے کہا کہ اس ایشو پر کوئی سیاست نہیں ہوگی ۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کی تقریر ختم ہوتے ہی حزب اختلاف کے اراکین اجلاس سے واک آوٹ کرگئے۔ وفاقی وزیر مراد سعید کی تقریر کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس بدھ دن 12 بجے تک ملتوی کردیا۔

فواد چودھری کا اجلاس میں شرکت سے انکار 

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ٹوئٹر پر آج کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کئ اراکین اور عملے کے ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کروں گا، پہلے دن سے میں ویڈیو لنک پر سیشن کا کہ رہا ہوں اپوزیشن کے دباؤ میں آ کر پارلیمانی کمیٹی نے غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا اور ملکی سیاسی قیادت کو غیر ضروری خطرے میں ڈال دیا۔

گزشتہ روز ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈی والا کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ میرے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں، اب یہ وائرس پارلیمنٹ کی راہداریوں میں بھی پہنچ گیا ہے، مزید ارکان اور عملے میں کرونا کی تشخیص ہونے کا خدشہ ہے، بروقت خبردار کردیا تھا کہ ٹیسٹ کے بغیر کسی کو پارلیمنٹ میں داخل نہ ہونے دیا جائے، موجودہ صورت حال میں اجلاس بلانے کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔