نصیحت کی اہمیت و آداب

حافظ محمد عرفان اسلام اویسی  جمعـء 15 جنوری 2021
قرآن و سنت رسول اﷲ ﷺ میں کثیر تعداد میں ہر طبقۂ انسانیت کے لیے نصائح اور اس کا طریقہ کار موجود ہے۔ فوٹو : فائل

قرآن و سنت رسول اﷲ ﷺ میں کثیر تعداد میں ہر طبقۂ انسانیت کے لیے نصائح اور اس کا طریقہ کار موجود ہے۔ فوٹو : فائل

نصیحت کا لفظ عام طور پر بھلائی کی بات بتانے اور نیک مشورے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کہ جس شخص کو نصیحت کی جا رہی ہو، اس کی مکمل بھلائی اور خیر خواہی کے ارادے کو لفظ نصیحت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قرآن و سنت رسول اﷲ ﷺ میں کثیر تعداد میں ہر طبقۂ انسانیت کے لیے نصائح اور اس کا طریقہ کار موجود ہے، اور اچھے انداز میں نصیحت کا تذکرہ اور اس کے ثمرات و نتائج تک قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اور اسی بابت قرآن مجید سورۃ اعراف میں آیت نمبر 62 سے لے کر 79 تک یکے بعد دیگرے تین ذی قدر انبیاء کرام حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح علیھم الصلوۃ و التسلیمات کے احوال میں ان کی نصیحت کا ذکر موجود ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ہم تم سے کسی قسم کا کوئی اجر یا معاوضہ نہیں مانگتے بل کہ ہم تو تمہیں نصیحت کرنے کے لیے آئے ہیں۔

قرآن مجید میں ر ب قدیر کے فرمان ذی شان کا مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو امداد دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، بُرے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے قبول کرو اور یاد رکھو۔‘‘ (النحل)

قرآن مجید نے حضرت لقمان جو کہ اﷲ کے محبوب بندے اور صاحب حکمت تھے، ان کی ان نصیحتوں کو بھی نقل کیا، جو اُنھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ یہ ساری نصیحتیں سورۃ لقمان میں موجود ہیں۔ ا نہیں سات بنیادی نکات سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی نصیحت کا آغاز توحید سے کیا اور اسے چند اخلاقی امور پر ختم کیا ہے، ان میں سے دو کا تعلق عبادات اور باقی ماندہ پانچ کا تعلق معاملات اور رہن سہن سے ہے۔ انھوں نے شرک سے اجتناب کا حکم فرمایا، اور یہ احساس دلایا کہ تمہیں ہر وقت تمہارا رب دیکھ رہا ہے اور تم یہ یاد رکھو کہ وہ علیم اور خبیر ہے، ہمیشہ نماز قائم کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہمیشہ سر انجام دیتے رہو، مصائب پر صبر کرو، کبر و غرور سے اجتناب کرو اور رفتار و آواز میں میانہ روی اختیار کرو۔

رسول اکرم ﷺ نے مسلمان کے مسلمان پر حقوق کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے ایک نصیحت کے متعلق ذکر فرمایا کہ جب تم سے وہ نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو۔

نصائح کے باب میں یہ فرمان بہت اہم ہے، مفہوم: ’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مال داری کو اپنی تنگ دستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘ (المستدرک)

حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ نصیحت کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نصیحت عام حالات میں سنّت ہے مگر جب کوئی نصیحت کی بات سننے کی خواہش ظاہِر کرے تو پھر اسے نصیحت کرنا ضروری ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات، کتاب الجنائز)

نصیحت کے آداب و طریقہ کار:

نصیحت کس کو اور کیسے کرنی ہے، یہ سب سے اہم باب ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا انداز نصیحت بہت دل نشیں اور خوب صورت ہوتا تھا جس میں موقع کی مناسبت اور نزاکت کا خصوصاً خیال رکھا جاتا تھا۔ رسول اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب کسی کی کوئی ناگوار بات معلوم ہوتی تو اصلاح کا یہ حسین انداز ہوتا کہ اس کا پردہ رکھتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسے ایسے کہتے ہیں۔

سیّدنا ابن عباسؓ نے فرمایا، مفہوم: لوگوں کو ہر جمعے یعنی ہر ہفتے میں ایک دفعہ حدیث بیان کیا کر اور اگر تو اسے نہیں مانتا تو دو دفعہ بیان کر اور اگر تو بہت زیادہ کرنا چاہتا ہے تو تین دفعہ بیان کر اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرنا، اور میں تجھے اس حال میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں لگے ہوئے ہوں پھر تم انھیں وعظ سنانا شروع کردو، تاکہ ان کی باتیں ختم ہو جائیں، پھر وہ اُکتا جائیں، لیکن خاموش رہیں، پھر اگر وہ تجھے حکم دیں تو اس حال میں انھیں حدیثیں سناؤ کہ وہ اس کا شوق رکھتے ہوں۔ دعا میں مسجع مقفیٰ (یعنی شاعرانہ) الفاظ سے بچو، کیوں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓؓ کو پایا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔

حضرت قاضی فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ مومن پردہ پوشی اور نصیحت کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس فاسق و فاجر بدنام کرتا اور شرم و عار دلاتا ہے۔ (جامع العلوم)

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو اپنے مسلمان بھائی کو اس گناہ جس سے وہ توبہ کر چکا کے ذریعے عار دلائے تو وہ عار دلانے والا اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ خود گناہ نہ کر لے۔‘‘ (ترمذی)

کاش ہمیں بھی اِصلاح کا ڈھنگ آجائے، ہمارا تو اکثر حال یہ ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بلاضرورت شرعی سب کے سامنے نام لے کر یا اُسی کی طرف دیکھ کر اس طرح سمجھائیں گی کہ بے چارے کے راز و عیوب بھی کھول کر رکھ دیں گے۔

خود اپنے ضمیر سے ہی پوچھ لیجیے کہ یہ سمجھانا ہُوا یا اسے ذلیل کرنا ہُوا۔۔۔۔ ؟

اس طرح سُدھار پیدا ہوگا یا مزید بگاڑ بڑھے گا ۔۔۔۔۔؟

یاد رکھیے! اگر ہمارے رعب سے سامنے والا چُپ ہو گیا، یا مان گیا، تب بھی اُس کے دل میں ناگواری سی رہ جائے گی جو بُغض و کینہ اور غیبت و تہمت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اسی لیے حضرت ام درداء رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں جس کسی نے اپنی دینی بہن کو اعَلانیہ نصیحت کی اُس نے اُسے عیب لگایا اور جس نے چپکے سے کی تو اُسے زینت بخشی۔ (شعب الایمان)

ناصح الامّہ حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے نصیحت کے باب میں ارشادات ملاحظہ ہوں جو کہ اس عنوان کا بہترین اور کامل درس ہیں۔

آپؓ نے فرمایا، مفہوم: ’’لوگوں کے سامنے کسی کو نصیحت کرنا اس کی شخصیت کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ اور جب کسی نوجوان کو ملامت کرو تو اس کی غلطیوں کو لائق عذر سمجھو تاکہ تمہاری سختی سے وہ ہٹ دھرم نہ بن جائے۔‘‘

’’اپنے دوست کو نیکی کے ساتھ ملامت کرو اور انعام کے ذریعے اس کے شر کو دور کردو۔

جو چیز گناہ و معصیت نہ ہو اس پر زیادہ ملامت نہ کرو۔‘‘

اﷲ تعالی ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔