یوم یکجہتی کشمیر؛ آزادی کشمیر کے لئے محض علامتی اقدامات کافی نہیں

دانش ارشاد  ہفتہ 5 فروری 2022
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں سے گفتگو کا جاں سوز احوال ۔  فوٹو : فائل

مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں سے گفتگو کا جاں سوز احوال ۔ فوٹو : فائل

5 فروری کو ہر سال کشمیریوں سے یکجہتی منائی جاتی ہے۔

یکجہتی منانے کا یہ سلسلہ 1990 سے جاری ہے، جب اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے وزیر اعلی پنجاب میاں محمد نواز شریف کی مشاورت سے کشمیر میں جاری عسکری تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور پانچ فروری 1990کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔

اس وقت پاکستان میں مرکزی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور وزیر اعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو کشمیر کے معاملے پراپوزیشن کے نشانے پر تھیں لہذا وزیر اعظم پاکستان نے بھی بغیر تاخیر کے اس اعلان کی تائید کی اور پھر پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کے باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔

ایک دہائی تک یہ دن جماعت اسلامی کی اپیل کے طور پر منایا جاتا رہا تاہم اس دن کو سرکاری حیثیت 2004 میں ملی جب اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی اور وزیر امور کشمیر آفتاب احمد خان شیرپائو نے اس دن کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کردیا۔

پانچ فروری 2004 کو وزیر اعظم جمالی نے مظفرآباد میںآزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں وکشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا ۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ہر سال اس دن مشترکہ اجلاس منعقد ہوتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان یا ان کا نمائندہ اس اجلاس میں ضرور شرکت کرتا ہے۔

یہ تو سرکاری سطح پر یکجہتی منانے کی مختصر تاریخ ہے، ویسے کشمیریوں سے یکجہتی کا سلسلہ 1890 ء سے جاری ہے جب 1890 ء میں کشمیریوں کی پہلی تنظیم ’’ انجمن کشمیری مسلمانان‘‘ بنی ، جس نے کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانا شروع کی۔ اس کے بعد جولائی 1931 ء کے واقعات پر ردعمل میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنی اور کشمیریوں کیلئے آواز بلند کی گئی۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ اپریل 1931 ء میں سر ینگر میں جمعہ کے خطبے کے موقع پر امام مسجد کو پولیس نے خطبہ جاری رکھنے سے اس لئے روک دیا کہ اس سے عوام میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔

اس کے چند ہفتوں بعد جموں جیل اور سرینگر میں توہین قرآن کے دو مبینہ واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے۔ ان حالات نے ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی اور احتجاج شروع ہوگیا۔ اس دوران عبدالقدیر نامی ایک شخص نے تقریر کی جسے بغاوت پھیلانے کے جرم میں حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا گیا۔

قدیر خان پر قائم بغاوت کے مقدمے کی سماعت 13جولائی 1931کو ہو رہی تھی کہ عوام کا ایک ہجوم اُمنڈ آیا۔ اس کی ایک نمایاں تعداد عدالت کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی جبکہ ایک بہت بڑی تعداد عدالت کے باہر ٹھہر گئی۔ ظہر کی نماز کے وقت پولیس اور مظاہرین کے درمیان دھکم پیل شروع ہوئی جو جلد ہی فائرنگ میں بدل گئی۔ اکیس افراد موقع پر ہلاک ہوگئے جنھیں اکھٹے ایک ہی جگہ دفن کر دیا گیا ۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح انڈیا اور بالخصوص پنجاب میں پھیلی۔

اس واقعے کے بعد لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے 14 اگست1931 کو جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی تحریک پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا۔ علامہ اقبال بھی اس کمیٹی کے رکن بنے،جنہیں بعد میںاس کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا۔ کمیٹی نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا اور امرتسر، لاہور، لکھنئو اور دہلی سمیت کئی ایک شہروں میںاحتجاجی مظاہرے کئے۔

کمیٹی نے کشمیریوں کی مدد کے لیے عطیات جمع کیے اور قابل وکلا کی خدمات بھی حاصل کیں جن میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان بھی شامل تھے جنہوں نے سرینگر کی عدالتوں میں پیش ہو کر زیرحراست کشمیریوں کے مقدمات کی مفت پیروی کی۔

اس کے ساتھ ہی نومبر 1931کو تحریک الاحرار نے مسلح جد وجہد اور سول نافرمانی کے ذریعے جموں و کشمیر کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا اور 1934ء میں پہلی بار ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ ان احتجاجوں کی وجہ سے انگریز حکومت نے گلینسی کمیشن قائم کیا اور1934ء میں پہلی ریاستی اسمبلی کا قیام عمل میں آیا۔

قیام پاکستان کے بعد ریاست جموں کشمیر کے عوام کیلئے پہلی مرتبہ یکجہتی کا اظہارحسین شہید سہروردی کے دور میں کیاگیا جب انہوں نے کراچی میں کشمیر کانفرنس کروائی اور تمام کشمیری قیادت کو اس میں مدعو کیا۔ کشمیر کانفرنس کے کئی سال بعد جب سیز فائر لائن عبور کرنے کیلئے کشمیر لبریشن موومنٹ (کے ایل ایم ) نے تحریک شروع کی تو پورے پاکستان میں ان کے جلسے ہوئے اور کشمیریوں سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا گیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل پر کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے28 فروری 1975 ء کو پاکستان بھر میں ہڑتال ہوئی۔

اس دور کی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ احتجاج اس قدر سخت تھا کہ پورا پاکستان بند ہوگیا ، لوگوں نے اپنے مویشیوں کو پانی تک نہیں پلایا۔ یہ ہڑتال شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کی وجہ سے کی گئی، جسے ’ اندرا ، عبداللہ ایکارڈ ‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس کے باعث شیخ عبداللہ کانگریس کی مدد سے دوبارہ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کا اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

پاکستان اورآزاد جموں کشمیر میں اس معاہدے پر سخت ردعمل سامنے آیا اور پاکستان سمیت آزاد جموں و کشمیرمیں پُرامن یکجہتی کی گئی۔

پانچ اگست 2019 ء کو جب ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو پاکستان کی طرف سے عملی اقدامات کے بجائے وزیر اعظم پاکستان نے ہر جمعہ کو آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر احتجاج کی اپیل کی اور اسلام آباد کے کچھ چوکوں میں گھڑیاں نصب کی گئیں جو اب خراب ہو چکی ہیں۔ اگست 2019 ء میں ترقی کے دعووں کے ساتھ بھارتی آئین میں جموں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم اور مرکز کے تحت یونین ٹیریٹریزمیں تبدیل کر دیا گیا تھا اور اس منصوبے کے بعد کئی ہزارکروڑ کے ترقیاتی پیکیج کے اعلان کئے گئے۔

کہا گیا کہ کشمیر کی ترقی میں رکاوٹ کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی۔ اس اقدام کے کچھ عرصہ بعد اصل منصوبہ سامنے آنا شروع ہوا جب اس منصوبے پرمرحلہ وار عمل درآمد کی کوششیں شروع کی گئیں۔ اس قانون پر عمل درآمد کا آغاز وادی کوقید خانے میں تبدیل کر کے داخلی خود مختاری اور خصوصی حیثیت چھینے جانے کے عمل کے خلاف احتجاجوں کو روک کر مواصلات کے تمام ذرائع بند کرنے سے کیا گیا، جس سے پورے خطے میں ایک سکوت اور خوف طاری تھا۔

ہندوستان میں بی جے پی حکومت نے سب سے پہلے شہریت کے قوانین کے خاتمے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ریاستی افراد کے ڈومیسائل بنانے کیلئے قانون سازی کی اور پھر نئے ڈومیسائلوں کا اجرا کرتے ہوئے آبادیاتی تناسب میں تبدیلی کے لئے اسرائیلی طرز کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا۔ اس کے بعد ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کونسلز (ڈی ڈی سی)کے انتخابات کروائے گئے۔

سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا کہ ڈی ڈی سی انتخابات اسمبلی پر شب خون کے مترادف ہیں، اس عمل سے کشمیر کو بی جے پی کے حوالے کرنے کا انتظام ہو رہا ہے لیکن ان انتخابات میں بی جے پی کو مطلوبہ کامیابی نہ مل سکی اور مقامی جماعتیں ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسلز کے انتخابات جیتنے میںکامیاب ہوگئیں۔

جب بی جے پی کو مطلوبہ کامیابی نہ ملی تو انہیں سرکاری افسروں یعنی بیوروکریسی کے ماتحت کر دیا گیا ۔ یوں اب تمام اختیارات بیوروکریسی کے پاس ہیں جو مرکز کے مسلط کردہ لیفٹیننٹ گورنر کی مرضی و منشا کے تحت ان اختیارات کو استعمال کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ گزشتہ دو سال سے اسمبلی انتخابات کیلئے نئی حلقہ بندیوں پر منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور مقامی جماعتوں کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لیں تاہم اس وقت تک پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی اس پیشکش کی مخالفت کر رہی ہیں۔

حلقہ بندیوں کیلئے بنائے گئے اس کمیشن میں مقامی سیاسی جماعتوں کو بھی شامل کیا گیا تاہم پی ڈی پی نے کمیشن میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا جبکہ نیشنل کانفرنس اس کمیشن کا حصہ تھی۔ ریاستی جماعتوں بالخصوص پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا اعتراض یہی تھا کہ مودی حکومت اپنے مذموم عزائم کیلئے جموں کشمیر میں نئی حلقہ بندیاں کر رہی ہے جبکہ 2026 ء کی مردم شماری تک نئی حلقہ بندیوں پر پورے بھارت میں پابندی عائد ہے۔ اس پابندی کے باوجود حلقہ بندی کمیشن نے مسودہ میں تجویز کیا ہے کہ اضلاع کی تعداد 12سے بڑھ کر 20 اور تحصیلوں کی تعداد 52 سے بڑھا کر 207 کی جائے ۔

اس کے علاوہ کمیشن نے سات انتخابی نشستوں کا اضافہ کیا ہے جس میںآبادی کے تناسب کے اصول کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ نئے بنائے جانے والے حلقوں میں وادی کشمیر کیلئے ایک انتخابی حلقے جبکہ جموں کیلئے چھ انتخابی حلقوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس طرح بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کی اسمبلی کی نشستیں 90 ہو جائیں گی جن میں سے 9 شیڈول ٹرائب اور 7شیڈول کاسٹ کیلئے مختص ہوں گی۔ اس سے قبل ریاستی اسمبلی کی کل 87 نشستیں تھیں جن میں وادی کشمیر کی 46 ، جموں کی 37 اور لداخ کی 4 نشستیں تھیں لیکن اب تجویز کئے گئے مسودے کے مطابق کشمیر میں 47 اور جموں میں 43 نشستیں ہوں گی۔

اس کے علاوہ مقبوضہ جموں کشمیر میں تشدد کی کارروائیوں میں بھی اضافہ سامنے آیا ہے۔ ہندوستان کے اعداد و شمار کے مطابق اگست 2019ء سے 26جنوری 2022ء تک 439 عسکریت پسندوں اور 98 عام شہریوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 109بھارتی فوجی بھی مارے گئے۔ حالیہ عرصے میں کشمیر میں موجود بھارتی فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا اور کئی ایسی چوکیوں کو دوبارہ قائم کیا گیا جو ختم کی جا چکی تھیں۔

اس صورتحال میں کشمیریوں سے آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر یا سال میں ایک دن کی یکجہتی کی ضرورت نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عالمی برادری کشمیر کی طرف متوجہ ہو سکے اور وہ جان سکے کہ بھارت کشمیر میں کن جنگی جرائم میں ملوث ہے اور انسانی حقوق کی بنیاد پر دنیا کشمیریوں کا ساتھ دینے پر آمدہ کیا جا سکے۔

کشمیری قوم پُرعزم، ’ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے‘
محمدایوب منیر
[email protected]

پاکستان، خلیج یورپ اور افریقہ کے مختلف شہروں میں پانچ فروری کو جموں وکشمیر کے بہادر، غیر ت مند عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیاجا رہا ہے۔ مظاہرے ، سیمینارز ، جلسے، جلوس، قراردادیں صرف اور صرف یہی مطالبہ کریں گی کہ جموں وکشمیر کی 5اگست 2019ء کی پرانی حیثیت بحال کی جائے اور اقوام متحدہ کی5اگست 1949ء کی قرار داد پر عمل درآمد کرایاجائے۔ جس میں کہاگیا ہے :
The question of the accession of the state of Jammu and Kashmir to India or Pakistan will be decided through the democratic method of the free and impartial plebesstic.

بھارتی حکومت نے بیس لاکھ بھارتی باشندوں کو کشمیر میں رہائش اختیارکرنے اور ڈومی سائل دینے کی پالیسی اختیار کرکے آبادی کے اعداد و شمار تبدیل کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے تاکہ کشمیر میں ہندوؤں کاتناسب بڑھ جائے اور مسلمانوں کی اکثریت ختم ہو جائے۔

جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے بھارتی افواج نے اسرائیلی فوجی ماہرین سے مد د حاصل کی ہے، مظاہرین کو سڑکوں سے اٹھالینا اور نا معلوم مقام پر لے جانا اور کچھ عرصہ بعد ان کی لاشوں کو سڑک کنارے پھینک دینا بھارتی ظالم فوج کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اسی طرح پیلٹ بندوقوں کے ذریعے مظاہرین کے چہروں پر گولیاں برسانا اور انہیں بینائی سے محروم کرنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔

شیخ عبداللہ،بخشی غلام محمد سے لے کر بعد میں آنے والے کشمیری حکمرانوں نے بھارت کو اپنا ملک سمجھنے کی غلطی کی جو ایک سراب سے بڑھ کچھ نہ تھا وہ یہ نہیں سمجھے کہ غلامی کی زندگی، آزاد زندگی کے برابر نہیں ہوسکتی۔1989ء سے 2022ء تک ایک لاکھ انسان بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنی جانیں آزادی کے لیے قربان کرچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں برصغیر کی آزادی کی تکمیل کی منزل پا لیں اور پاکستان کا حصہ بن کر زندگی گزار سکیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی متعد د تنظیمیں یہ واضح کرچکی ہیں کہ بھارتی حکومت، سابقہ نسل پرست جنوبی افریقہ کی حکومت کے اقدامات سے بھی کہیں آگے بڑھ چکی ہے، 5اگست 2019ء سے جاری لاک ڈاؤن اس بات کی دلیل ہے کہ نئی دہلی کے حکمران کسی بھی بین الاقوامی یا عالمی طاقت کی بات پر کان نہیں دھرتے اور لاک ڈاؤن کے ذریعے ہی تحریک آزادی کی کمر توڑنا چاہتے ہیں۔ ایک لاکھ افراد کی شہادت کی کم ازکم قیمت یہ ہے کہ بھارت جموں وکشمیر میں استصواب رائے کرائے ورنہ اسے ان سات دیگر ریاستوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے جہاں مختلف وجوہات سے بھارت سے آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔

جموں وکشمیر میں اشفاق وانی جیسے نوجوان پیداہوچکے ہیں جنہوں نے مسلسل جدوجہد کرکے، سوشل میڈیا کے ذریعے آواز بلند کی اور کہا کہ بھارت نے کشمیریوں پر اسی طرح ناجائز تسلط جما رکھا ہے جس طرح انگریز وں نے ایشیا میں اور جنوبی افریقہ میں کالونیاں بنائی تھیں۔ جب انگریز استعمار کو باون ممالک کو آزادی دینا پڑی اور فرانسیسی استعمار کو تینتالیس ممالک کو آزاد کرنا پڑا، وہ دن ضرور آئے گا کہ بھارت کو بھی کشمیر سے نکلنا ہوگا۔ عالم اسلام ، عالمی طاقتیں، جمہوری ممالک ، کشمیریوں کی جانب آئیں نہ آئیں، کشمیری اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی جدوجہد کی وکالت کی، اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اسلامی ممالک کانفرنس کے پلیٹ فارم پر اور ہر اس جگہ پر جہاں سے کشمیریوں کو آزادی کی منزل مل سکے۔ یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہوئے کشمیریوں کے عظیم قائد سید علی شاہ گیلانی کاتذکرہ کرنابھی ضروری ہے، جنہوں نے ساری عمر بھارتی غلامی کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے برسرعام کہا تھاکہ :

’’پاکستان ہمارا ہے۔ ہم پاکستانی ہیں۔‘‘

آج ساری قوم کشمیریوں کے ساتھ متحد ہے اور وہ دن آکر رہے گا کہ جب جموں کشمیر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پرچم باقاعدہ طور پر لہرائے گا۔

’’آپ کو سیاسی لڑائیوں سے فرصت نہیں، آپ ہماری مدد کیسے کریں گے‘‘
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں سے گفتگو کا جاں سوز احوال
فرح مصباح

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری پوسٹنگ آزاد کشمیر میں تھی۔ وہاں رہتے ہوئے کشمیریوں کے مسائل کو نہایت قریب سے دیکھنے ، جاننے اورجانچنے کا موقع ملا ۔ میری اس دلچسپی نے مجھے دو بہنوں سے ملوایا جن کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے تھا۔ یہ دو بہنیں تھیں آمنہ اور آسیہ ہیں۔

ملاقات میں انھوں نے بتایا : ’’ ہمارا تعلق دنیا میں جنت نظیر کہلائی جانے والی وادی کشمیر سے ہے۔ جو یہاں آتا ہے، مسحور ہوجاتا ہے۔ یہاں سے ایک قطرہ پانی پینے والا امرت جل بھول جاتا ہے۔ ہم اہلِ کشمیر کو پاکستان سے وہ نسبت ہے جو مچھلی کو پانی سے، اور جسم کو روح سے ہے۔ ہماری تحریکِ آزادی پاکستان سے جڑنے کے لیے ہے اور اسی سبب دشمن کو ہماری تحریک کھٹکتی ہے۔

دشمن اس تحریک اور نظریہ آزادی کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اسی تحریک اور نظریے کے ساتھ ساتھ سانس لیتے ہیں۔ نہ جانے ہمارے کتنے عزیز رشتہ دار اسی جدوجہدآزادی میں دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کتنے ہی کٹے ہوئے ہاتھوں، پاؤں اور جسم پر زخموں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

’’پاکستانی نوجوان ہندوستانی فلموں سے بھی متاثر ہے، جن میں دکھایا جاتا ہے جیسے ہندوستانی قیادت تو بڑی پُر امن اور کشمیریوں کی خیر خواہ ہے۔ وہ ظالم نہیں ہے بلکہ خود مسئلہ کشمیر کے سبب مظلوم ہے۔ ان کی فلموں میںکشمیری نوجوانوں کو دہشت گرد دکھایا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوری1989سے لے کر دسمبر 2021 تک ہمارا جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے، اس کے اعداد و شمار ہی ساری تصویر نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق تین عشروں سے زائد اس عرصہ میں مجموعی طور پر شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد پچانوے ہزار نو سو اڑتالیس ہے۔

اب تک جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں کاٹنے والے کشمیریوں کی تعداد ایک لاکھ چونسٹھ ہزار اٹھہتر ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد چار لاکھ اکاون ہزار110 ہے۔ اب تک چورانوے ہزار بائیس کشمیری خواتین کو بیوہ کر دیا گیا، ایک لاکھ آٹھ سو ستاون بچے یتیم ہوئے ، چوبیس ہزار چھ سو گیارہ کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ ‘‘

’’ ایسا نہیں ہے کہ یہ کہانیاں صرف ہماری بیان کردہ ہیں بلکہ غیرجانبدار عالمی اداروں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ کشمیری قوم کے ساتھ اسی طرح ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ بھارت کے سخت مظالم برداشت کرنا ہم لوگوں کے لیے معمول بن چکا ہے۔ تعلیم کے لیے بچوں کا بیگ اٹھا کر اسکول جانا، بیماروں کا سلامتی سے شفا خانے پہنچنا، شادی بیاہ میں خوش ہونا، یہ سب باتیں ہمارے لیے بھولی بسری داستان بن چکی ہیں۔‘‘

’’ ہماری سانسیں اسی لئے آزادی کی تحریک کے ساتھ چلتی ہیں کہ ہم لوگ فطری طور پر پاکستان کے ساتھ رہنے کے حقدار ہیں۔ کشمیری مائیں یہ سبق اپنے دودھ پیتے بچے کو ضرور پڑھاتی ہیں کہ ’’بیٹا ! تم مرد مجاہد ہو، اللہ کی راہ میں یا تو جان دینا یا سینہ سپر ہو کر دشمن کا سامنا کرنا لیکن گھبرانا نہیں، کیونکہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور ہمارا حق ہے کہ ہم پاکستانیوں کے ساتھ زندگی بسر کریں ۔ کشمیری مائیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ تم اس جدوجہد میں ایک تاریخی انسان بن کر سامنے آؤ۔ تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی تلوار کو ایک بار پھر اٹھائو۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح قابض دشمن پر دبدبہ طاری کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی شجاعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھو۔‘‘

’’ ہمارے جوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں، وہ فولاد سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمیں پھانسنے کی ہر چال ناکام ہوچکی ہے۔ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ ہاں اگر ضرورت ہے تو مسلمان ممالک کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنوں کے ساتھ ہی اچھے لگتے ہیں۔‘‘

میں نے کشمیری لڑکیوں سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آپ کی یہ تحریک کب تک نتیجہ خیر ہوگی؟ اِسے مزید کتنا عرصہ چاہیے ہوگا؟ آمنہ کو شاید میرا یہ سوال اچھا نہیں لگا۔ اس نے گھورتے ہوئے کہا : باجی! کیا یہ تحریک صرف ہماری ہے؟‘‘

اس کے اس بے خطر جواب سے میں تو لب بستہ ہوگئی۔ اور معذرت چاہتے ہوئے کہا کہ اسی تحریکِ آزادی کی بات کر رہی ہوں۔ چوں کہ آپ بہنیں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں، اس لیے زیادہ کہہ نہ پائی۔ دونوں بہنیں بڑی سلجھی ہوئی تھیں، جھٹ سے کہا کہ باجی! اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، آپ لوگوں کی تو ہر بڑی غلطی سے بھی ہم درگزر کر جاتے ہیں، لیکن کبھی دشمن کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتے۔

مجھے اس کا انداز اور جذبہ بہت پیارا لگااور دل دعا سے لبریز کہ اللہ! ہماری ان بہنوں اور بھائیوں کی کوششوں کو جلد بارآور فرما۔ میں نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تو آسیہ نے کہا کہ باجی! اس سوال کا جواب تو آپ زیادہ بہتر طریقے سے دے سکتی ہیں۔

یہ سن کر میں ششدر رہ گئی اور کہا:’’ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں‘‘۔ آمنہ نے کہا کہ بہت آسان سی بات ہے۔ آپ اگر ہمیں دشمن سے چھڑانا چاہتے ہیں تو طاقت بھی استعمال کرنی پڑے گی، اور آج کی دنیا میں سیاسی طاقت ، معاشی طاقت ، ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات بہت بڑا سرمایہ ہیں ۔ جب کہ آپ لوگ آپس کی سیاسی لڑائیوں سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔ آپ لوگوں کے پاس اپنی بہتری کے لئے وقت نہیں ، آپ ہمیں کیسے چھڑا سکو گے ۔ اب تک آپ لوگ ہمارے لئے کچھ نہیں کرسکے، سبب بھی یہی ہے۔‘‘

آمنہ کی یہ باتیں سن کر میری آنکھوں میں نمی آگئی۔ میں سوچتی رہی کہ واقعی ہمارے پاکستانی سیاست دان ، یہاں کی حکومتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سوائے زبانی جمع خرچ کے، کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔