معاشی استحکام ... انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے انقلابی اقدامات کرنا ہونگے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 21 فروری 2022
ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔فوٹو: ایکسپریس

ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔فوٹو: ایکسپریس

ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا جنہوں نے ملکی معیشت پر سیر حاصل گفتگو گی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر قیس اسلم (ماہر معاشیات)

ہمارے ہاں دو طرح کی معیشت ہے۔ ایک امراء جبکہ دوسری غرباء کیلئے۔ ملک میں 25 فیصد افراد امیر ہیں جو روزانہ 10 ہزارروپے سے زائد کماتے ہیں۔ ان میں سے 6فیصد وہ ہیں جو بہت امیر ہیں اور ان سب کی معیشت اچھی چل رہی ہے۔ ہمارے 20 ملین افراد غریب ہیںجو حکومت کی مقرر کردہ کم از کم تنخواہ سے تھوڑا زائد یا کم کماتے ہیں۔ انہیں بہت مشکلات ہیںا ور ان کی معیشت بھی خراب ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق ہماری ملکی معیشت کی حالیہ شرح نمو 3.4 فیصد ہے۔ حکومت پاکستان نے ان سے کہا کہ یہ شرح نمو 3.9 فیصد ہے۔ پھر انہوں نے ’بیس‘ کو 2005ء سے تبدیل کرکے 2016ء کر دیا ، جس کے بعد گروتھ 5.4 پر چلی گئی ہے۔ گروتھ 3.4 ہو یا 5.4 ، میرے نزدیک گروتھ ہوئی ہے کیونکہ کنسٹرکشن انڈسٹری کو جو مراعات دی گئیں ان سے کالا دھن سفید ہوسکتا۔ ان مراعات کی وجہ سے کنسٹرکشن انڈسٹری سے جڑی 40 مزید صنعتوں کو فروغ ملا۔

اس کا منفی اثر یہ ہوا کہ ہماری زراعت میں کمی آگئی۔ اچھی زمینوں پر گھر بننا شروع ہوئے، ہائوسنگ سوسائٹیز بن گئی، زرعی زمین کم ہوتی گئی جس کے باعث فصلیں کم ہوئیں اور 2021ء میںاناج، کپاس اور چینی خریدنا پڑی۔ دوسری طرف ٹیکسٹائل انڈسٹری، کپاس وغیرہ کے حوالے سے مراعات دینے سے ایکسپورٹس میں اضافہ ہوااور یہ 3بلین کے قریب چلی گئی۔ آئی ٹی انڈسٹری میں بھی بہتری آئی اور اس کی ایکسپورٹ 1بلین کے قریب ہے۔ پاکستان سے باہر موجود افراد نے ہر ماہ 2 بلین ڈالر بھیجے۔

2021ء میں ہمارے مالیاتی ذخائر بڑھ کر 27بلین ہوگئے مگر ہم نے جو قرض دینا تھا اور ڈالر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، اس کی وجہ سے یہ ذخائر 14 بلین رہ گئے۔ معیشت میں جو گروتھ ہوئی ہے، اس کی مراعات اور فوائد غریب آدمی تک نہیں پہنچے۔ سوائے لنگر خانوں، ہیلتھ کارڈ و دیگر حکومتی سکیموں کے، غریب کو کچھ نہیں ملا۔ گھر بنانے ، درخت لگانے ، ایک تعلیمی نصاب جیسے حکومتی منصوبے درست نہیں چلے۔

بیوروکریسی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے، خاص کر پنجاب میں بیوروکریسی بالکل تعاون نہیں کر رہی، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی ٹھیک نہیں ہے۔ مافیا ملک میں مضبوط ہے اور خود وزیراعظم بھی اس حوالے سے بات کرتے ہیں۔ ایک طرف تو معاشی گروتھ کے فوائد عام آدمی تک نہیں پہنچے جبکہ دوسری طرف حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کر کے بہت بڑی زیادتی کی۔ ضروریات زندگی کی اشیاء مہنگی کر دی گئی۔

پٹرول کی قیمت میں حالیہ 12 روپے اضافے سے پہلے کے اعداد و شمار کے مطابق ’سی پی آئی‘ 13 فیصد اوپر گیا مگر زیادہ اہم اشیاء کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہوا۔ خوردنی تیل کی گزشتہ برس قیمت میں 54 فیصد ،پٹرول کی قیمت میں 36 فیصد ، ٹرانسپورٹ میں 14 فیصداضافہ ہوا ۔ گھروں کے کرائے میں 14 فیصد، اشیائے خورونوش کی قیمت میں 15 فیصد، بجلی ، گیس و توانائی میں36 فیصد اضافہ ہوا۔

اس بدترین مہنگائی سے غریب کی قوت خرید شدید کم ہوچکی ہے۔ وہ بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ تہوار نہیں منا سکتے، نئے کپڑے و جوتے نہیں خرید سکتے۔ کپڑوں کی قیمت میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی ہے۔ اب پٹرول کی قیمت میں12 روپے اضافے کے بعد ہر چیز مزید مہنگی ہوگی، ٹرانسپورٹرز نے کرایہ میں 20 فیصد مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اب کاروباری لاگت میں بھی اضافہ ہوگااوروہ صنعتیں جنہیں حکومت نے مراعات نہیں دی، چلنے کے قابل نہیں رہیں گی۔

بے روزگاری کی شرح 4.4 فیصد تھی جو تیل کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بعد 5 فیصد تک پہنچ گئی ۔ کرونا وباء نے بھی نقصان کیا۔ تعلیمی حوالے سے بچوں کا بہت نقصان ہوا۔ ہمارے سوشل سیکٹر ، چھوٹی صنعتوں اور غریب کیلئے معیشت میں بہت نقصان ہوا۔ سٹیٹ بینک کو خودمختار بنانے کے دو پہلو ہیں کہ خودمختاری دینی چاہیے یا نہیں۔ میرے نزدیک ہمیشہ کیلئے خود مختاری دینا غلطی ہے بلکہ ہمیں کینیڈا کی طرز پر 5 سالہ معاہدہ کرنا چاہیے اور ہر 5 سال بعد اس کا جائزہ لیتا ہے۔

حکومت نے دوسرا غلط کام یہ کیا ہے کہ سٹیٹ بینک کے گورنر اور بورڈ کو ملکی قانون سے بالاتر کر دیا ہے۔ قانون سے تو صدر اور وزیراعظم بھی بالاتر نہیں ہیں تو گورنر سٹیٹ بینک کیوں؟اب ڈالر 180 سے بھی اوپر جائے گا جس سے مزید مہنگائی ہوگی۔ ہم نے مہنگائی درآمد بھی کی ہے۔ جب ہم کپاس، اناج، مشینری و دیگر اشیاء باہر سے منگواتے ہیں تو مہنگائی امپورٹ ہوتی ہے۔ ملک پر اس وقت بہت مشکل وقت آچکا ہے۔ اب گھر کے ہر فرد کو کام کرنا پڑے گا، جو سکول نہیں جاتے انہیں بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔

آئی ایم ایف نے جس طرح ہمیں جکڑا ہے، اب ملٹی نیشنل کمپنیاں ہماری معیشت پر قبضہ کریں گی۔ وہ کاروبار جہاں مراعات نہیں دی گئی، جہاں کالا دھن نہیں ہے، جہاں لوگ 17 سے31 فیصد ٹیکس دے رہے ہیں، وہ کاروباری لاگت میں اضافے کے باعث کاروبار نہیں چلا سکیں گے ۔ حکومت کی جانب سے معیشت کو مشکل سے مشکل بنایا جا رہا ہے۔ حکومت کو اپنی سمت درست کرنی چاہیے اور ہر صنعت کو مراعات دینی چاہیے۔ جیولری، کارپٹ، سنگ مرمر، پھل، سبزیاں، حلال گوشت و دیگر اشیاء کو برآمد کے قابل بنائیں، اپنی ’مین پاور‘ کو سکلز دے کر دنیا میں بھیجیں تو بہتری آسکتی ہے۔

اس سال پاکستان نے دنیا کا 8 بلین ڈالر قرض دینا ہے مگر ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ایک بلین آئی ایم ایف سے مانگ رہے ہیں، 3 بلین سعودی عرب سے مانگا جنہوں نے 1بلین دیا۔ چین کے پاس بھی گئے، 2 سے3 بلین چین نے بھی ری شیڈول کیا ہے مگر پھر بھی ہدف پورا نہیں ہوا۔ ہمارے مالیاتی ذخائر میں کمی کے باعث سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہمارے ملک کا امیر عیش کر رہا ہے، وہ ٹیکس بھی نہیں دے رہا اور اسے مراعات بھی مل رہی ہیں۔ ان مشکل حالات میں وہ کما رہا ہے جبکہ غریب پس رہا ہے۔ مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس میں تبدیل ہوچکی ہے جبکہ لوئر مڈل کلاس خط غربت کے قریب جا چکی ہے جو افسوسناک ہے۔

عرفان اقبال شیخ (صدر ایف پی سی سی آئی)

ہم خوش قسمت ہیں کہ پاکستان کو اس وقت کرونا وباء کے شدید نقصانات کا سامنا نہیں ہے۔ اس پر میں پالیسی سازوں اور خاص طور پر ان افراد کی تعریف کرتا ہوں جو اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ذمہ داری سے برتاؤ کرتے ہیں۔ اگرچہ اقتصادی بحالی جاری ہے لیکن میرے نزدیک ہماری معیشت اب بھی نئی کرونا وباء، افراط زر اور بیرونی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ان ناخوشگوار مسائل کی وجوہات بالخصوص دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، سیاسی غیر یقینی، عالمی تنازعات اور تیزی سے بدلتی ہوئے جغرافیائی اور سیاسی محرکات ہیں۔بڑھتی ہوئی لاگت اور سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے عالمی تجارت مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔

عالمی موجودہ حالات میں پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور ہمیں بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ میں خصوصی طور پر اوورسیز پاکستانیوں کی تعریف کرتا ہوں جو مسلسل ترسیلات زر بھیج کر اپنی مادر وطن کی مدد کر رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی گزشتہ 7 ماہ کے دوران 18 بلین امریکی ڈالر بھیج چکے ہیں۔ پالیسی سازوں کو کلیدی طبقات اور ایسے شعبوں کے رجحان پر بھی نظر رکھنی چاہیے جن کا براہ راست تعلق غریب عوام سے ہے۔

میرا مطلب ہے کہ حکومت کو ماہ رمضان سے پہلے مہنگائی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کے لیے دانشمندانہ پالیسیاں بنانے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری کمی کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو نقصان پہنچانے والے اہم عوامل میں سے ایک اعلیٰ درآمدات ہیں جو 46.6 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں ،یہ گزشتہ سال کی برآمدات کے حجم سے زیادہ ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کے دورہ چین نے تعاون کے نئے دروازے کھولے ہیں اور مختلف پروگراموں اور منصوبوں کو فعال کیا ہے جو سست رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔اور میں پر امید ہوں کہ وزیر اعظم کا روسی فیڈریشن کا دورہ اندرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے گا اور پاکستان کی معیشت میں اعتماد کو فروغ دے گا۔ اگر حکومت پالیسیوں کی تشکیل میں باقاعدگی سے مشاورت کرتی ہے، خاص طور پر آئندہ بجٹ کے حوالے سے کاروباری شعبے سے مشاورت کی جاتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ منصوبے اور اہداف یقینی طور پر بہتر انداز میں حاصل کیے جاسکیں گے۔

ڈاکٹر محمد ارشد (سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)

ہر شخص خواہ وہ کاروبار کر رہا ہے یا ملازمت، وہ سرکاری ملازم ہے یا کسی نجی ادارے میں کام کر رہا ہے، اس کی زندگی میں مہنگائی اور کمائی کا توازن خراب ہوچکا ہے۔ اس کیلئے گزشتہ 4 برسوں میں معاشی حوالے سے شدید مشکلات پیدا ہوئی ہیں اور گزشتہ 3 سے 4 دہائیوں میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہ ریاست کا سب سے پہلا فرض ہے کہ وہ عوام کی کمائی اور مہنگائی میں توازن قائم کرے۔

میرے نزدیک ٹیکس ، مارک اپ اور ڈالر کے ایکسچینج ریٹ میں توازن رکھے بغیر جو بھی پالیسی بنائی جائے گی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ صرف کاسمیٹک اقدامات ہی ہونگے۔ اس وقت ایک لاکھ روپیہ کمانے والے فرد کیلئے بھی یوٹیلٹی بلز اور دال روٹی کا خرچ پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے، یہ تشویشناک صورتحال ہے۔ مشکل معاشی صورتحال سے بڑے پیمانے پر سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوگا۔ جس طرح مارک اپ ریٹ بڑھایا جا رہا ہے، اس سے مینوفیکچرنگ سیکٹر رک جائے گا اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔

افسوس ہے کہ موجودہ حکومت کو جس طرح معاملات کو دیکھنا چاہیے تھا اور آگے بڑھانا چاہیے تھا ویسے نہیں ہوا۔پہلے گزشتہ حکومت پر ملبہ ڈال دیا جاتا تھا مگر اب موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، اس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ میں نے ہمیشہ ارباب اختیار سے گزارش کی ہے کہ ٹیکس ، مارک اپ اور ایکسچینج ریٹ میں جس حد تک ممکن ہو توازن برقرار رکھا جائے۔ اس کے علاوہ صرف خاص قسم کی صنعت ہی نہیں بلکہ انڈسٹری،زراعت سمیت تمام شعبوں کا خیال رکھا جائے۔

مہنگائی کا اثر سب کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ زرعی اجناس کی قیمتوں میں اتاڑ چڑھائو کا بغور جائزہ لیں تو اس میں بہت کم حصہ کاشتکار کو جاتا ہے جبکہ مڈل مین زیادہ کماتا ہے اور مہنگائی عوام کیلئے ہوتی ہے۔ اگر گندم کی قیمت میں دوگنا اضافہ ہوا ہے تو اس کا فائدہ زمیندار کو نہیں جا رہا بلکہ مڈل مین کو جارہا ہے جو تعداد میں بہت کم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی کوئی پالیسی نہ بنائی جائے جس میں زیادہ لوگوں کا نقصان ہو اور صرف چند لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

پالیسی چاہے کسی سیاسی مخالف یادشمن کی ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ چھے نتائج دے رہی ہے تو اسے وسیع تر ملکی مفاد میں اسے اپنانے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے۔ اس سے حکومت کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ڈالر کے ریٹ میں تیزی سے اتار چڑھائو آرہا ہے، 5 سے 6 روپے کا اضافہ اب معمولی بات ہے جبکہ گزشتہ 15 برسوں میں دیکھا جائے تو کبھی بھی اتنا اضافہ نہیں ہوتا تھا۔ 2سے 3 روپے اضافے سے ملک میں سیاسی طوفان آجاتا تھا مگر اب کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حکومت کو مسائل اور وسائل میں توازن پیدا کرنے کیلئے پالیسی سازی کرنا ہوگی۔

حکومت کے پاس آخری سال ہے، اس میں اسے خامیاں دور کرنی چاہئیں اور عوامی مسائل میں کمی لانی چاہیے بصورت دیگر عام انتخابات میں حکومتی جماعت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مارک اپ 4 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ڈالر کا ریٹ 145 سے نیچے ہونا چاہیے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے، انہیں کم کرنا چاہیے۔ لوکل آئل سیڈ پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگایا گیا ہے جو نا مناسب اقدام ہے۔ ہم آئل کی امپورٹ پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن لوکل آئل سیڈ کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔

اس سال سرسوں اور سورج مکھی کی فصل ایک ملین ٹن کے قریب ہوگی،حکومت نے اس پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگا دیا ہے، فوری طور پر اسے واپس کرنا چاہیے تاکہ جو سیکٹر ابھی ابھرنا شروع ہوا وہ بند نہ ہو۔ حکومت کی جانب سے بعض انڈسٹریز کو بہت زیادہ مراعات دی جاتی ہیں جبکہ بیشتر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بے شمار مراعات دی جارہی ہیں،ایک سے ڈیڑھ فیصد مارک اپ پر سافٹ لون دیے گئے ، سستی بجلی اور دیگر مراعات دی گئی۔ میرے نزدیک حکومت کو ساری ایکسپورٹ انڈسٹری کو ایک جیسی مراعات دینی چاہئیں۔

رائس انڈسٹری کو خاصل مراعات نہیں دی جاتی۔ان کے پیسے اکثر رک جاتے ہیں، اگر آجائیں تو بھی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ رائس ایکسورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے بعض ممبران نے یمن میں چاول ایکسپورٹ کیے۔ وہاں کے وصول کنندہ نے بینک آف بیروت کو وقت پر رقم ادا کر دی مگر یہ بینک گزشتہ دو برسوں سے پاکستانی ایکسپورٹرز کو ادائیگی نہیں کر رہا۔ ایسوسی ایشن نے اس پر کافی تگ و دو کی ہے مگر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک ہمارا سٹیٹ بینک، بینک آف بیروت سے رابطہ کرکے انہیں مجبور نہیں کرتا تب تک ادائیگی نہیں ہوگی۔

بھارت کے ایکسپورٹرز کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ان کی حکومت اور سٹیٹ بینک نے جارحانہ پالیسی اپنا کر بینک آف بیروت سے اپنے پیسے نکلوا لیے۔ اگر حکومت رائس ایکسپورٹرز کی مدد کرے تو بینک آف بیروت میں پڑا ہوا 10 ملین ڈالر پاکستان آئے گا جو سٹیٹ بینک کے ریزرو میں رہے گا۔ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔