آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا چیف جسٹس

صرف اس دفعہ تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہورہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ کیا کیا گیا؟، چیف جسٹس


ویب ڈیسک March 30, 2022
صرف اس دفعہ تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہورہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ کیا کیا گیا؟، چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63A کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

جسٹس جمال خان نے پوچھا کہ کیا صدر مملکت اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں رائے لے سکتا ہے اور کیا اسمبلی عدالتی رائے کی پابند ہے، کیا اسپیکر کی ایڈوائس پر صدر نے ریفرنس بھیجا ہے؟

مسلم لیگ ن کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدالت صدارتی ریفرنس سننے کی قانونی طور پر پابند نہیں ہے، ریفرنس میں سوال قانونی نہیں سیاسی ہیں لہذا واپس بھجوایا جائے، حکومت چاہتی ہے آرٹیکل 63 اے میں درج نتائج سے بڑھ کر اسے ریلیف ملے، صدر نے عدالت سے پوچھا ہے کہہ ہارس ٹریڈنگ کیسے روکی جاسکتی ہے، ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال کا جواب رائے نہیں بلکہ آئین سازی کے مترادف ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہوگا، آپ کی گفتگو سے لگ رہا ہے پارٹی سے انحراف غلط کام نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جمہوریت کا حصہ ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جان بوجھ کر دیا گیا دھوکہ ہے، آرٹیکل 63 اے پارٹی سے انحراف کو غلط کہتا ہے، سوال یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف کیا اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہو؟، سینیٹ الیکشن میں پیسوں کے لین دین کا ذکر تھا، پیسوں کے معاملے میں ثابت کرنا لازمی ہونا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل تریسٹھ اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مفروضہ پر بات کررہا ہوں اگر ایک ممبر اپنے ضمیر پر ووٹ دیتا ہے تو وہ ڈی سیٹ ہو گا، صرف چار شرائط پر عمل کرنے کے بعد ہی تریسٹھ اے لگے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس دفعہ تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہورہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ کیا کیا گیا؟ انحراف کرنے والے واپس اپنی پارٹیوں میں واپس لیے جاتے رہے ہیں، ممکن ہے پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے کو پارٹی معاف کردے، عدالت آئین پر عمل درآمد کے لیے ہے، آئین کے آرٹیکل کو موثر ہونا ہے، سسٹم کمزور ہو تو آئین بچانے کے لیے سپریم کورٹ کو آنا پڑتا ہے۔

ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ پارٹی سے انحراف لازمی نہیں غیر اخلاقی یا کرپشن کی بنیاد پر ہو، پارٹی سے انحراف اچھے مقصد کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ تریسٹھ اے پر عمل ووٹ ڈالنے سے شروع ہو گا، صدر کو کیسے معلوم ہو کہ حکومتی جماعت کے لوگ منحرف ہورہے ہیں۔

جسٹس مظہر عالم نے عمران خان کی پارٹی اراکین کو دی گئی ہدایات کی کاپی ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کو فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ایک پارٹی سربراہ کی ہدایت کی کاپی میرے پاس ہے۔

جسٹس جمال خان نے کہا کہ اگر پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر بات ختم ہوتی تو شوکاز کیوں دیا جاتا، عدالت منحرف ہونے کو گھناؤنا جرم قرار دے تو بھی وزیراعظم کی مرضی ہے کہ اس جرم پر ڈیکلریشن دے یا نہ دے۔

ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ منحرف رکن کہہ سکتا ہے وزیراعظم صاحب منشور کے خلاف کسی اقدام پر ووٹ نہیں دوں گا، منحرف رکن کہہ سکتا ہے اسمبلی میں تھا لیکن ووٹ نہیں ڈالا۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ منحرف رکن تاحیات نااہل ہوتے تو کیا کوئی اچھے کام کے لیے انحراف کریگا۔

وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے پارٹی ارکان منحرف ہوں یہ لازمی نہیں، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اتحادی ہی ساتھ چھوڑ جائیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد جیتنے والا سیاسی جماعت میں شامل ہو تو کیا یہ عوام کیساتھ بے ایمانی نہیں ہو گی، کیا کامیابی کے بعد سیاسی جماعت میں آنے والے پر ارٹیکل تریسٹھ اے لاگو نہیں ہوتا۔

وکیل ن لیگ نے کہا کہ آزاد امیدوار کا پارٹی میں شامل ہونا ووٹرز کیساتھ بے وفائی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں