مالی جیسی ماں کی نشاط بھری سختیاں

ندیم صدیقی  اتوار 20 اگست 2023

کیاری میں جب بھی کسی پودے میں شاخ نکلتی اور بڑھنے لگتی تو مالی قریب سے بانس کے ایک ٹکڑے سے کچھ لانبی کچھ چوڑی تیلیوں جیسی کھپچیاں بناتا اور ان پودوں کے ساتھ زمین میں گاڑ کر ان تازہ شاخوں کو دھاگے سے ان کھپچیوں میں باندھ دیتا اور پھر دو تین دن میں جب وہ شاخیں اور اوپر اٹھنے لگتیں تو وہی عمل دہرا دیتا اور پھر ایک وقت یہ آتا کہ وہ شاخیں جب کچھ سختی اختیار کرنے لگتیں تو مالی اپنے اس عمل کو موقوف کر دیتا۔

ہم نے اپنے بچپن میں اپنے ایک نانا کے گلشن میں یہ عمل دیکھا تھا، گزشتہ دنوں ہماری ایک بڑی بہن نشاط آپا اللہ کو پیاری ہوگئی وہ خاندان کی عورتوں میں بہت سخت ہی نہیں بلکہ ظالم خیال کی جاتی تھی۔ اللہ نے اسے ہر طرح آسودہ کر رکھا تھا، اس کو ظالم سمجھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے بچوں کو عمدہ سے عمدہ کھلاتی پلاتی اور اچھے سے اچھا پہناتی ضرور تھی مگر اس نے بعض اصول بنا رکھے تھے جس پر وہ ماں کی طرح نہیں بلکہ ایک سخت گیر باپ کی طرح عامل تھی۔

ایک مثال :صبح اس کے بچوں کے اسکول جانے کا وقت ساڑھے سات بجے کا تھا بچوں کے سرہانے وہ ایک ٹائم پیس میں سات بجے کا الارم لگا رکھتی تھی، الارم بجا، پانچ منٹ کی رعایت بھی دے رکھی تھی اگر کوئی بچہ سات بج کر پانچ منٹ پر بھی نہیں اٹھا تو وہ بچے کے نام کی ایک آواز لگاتی تھی دوسری آواز پر بھی اگر بچہ نہیں اٹھتا تو وہ اس کی ران میں چٹکی نہیں بگوٹا (چٹکی کی بہت ہی موٹی شکل) لیتی اور بچہ چیختے ہوئے بستر پر اٹھ بیٹھتا، پھر اس کو تیار کر کے، کھلا پلا کر اور ٹفن دے کر اسکول کی بس میں بٹھاتی۔

شادی بیاہ میں بچوں کو لے جاتی اور اپنے ساتھ کھانے کی میز پر بچوں کو بٹھاتی، مجال ہے کہ کوئی بچہ اپنی رکابی میں ایک سے زائد بوٹی نکال لے اور اگر کسی بچے نے ایسا کر بھی لیا تو شادی کی تقریب میں تو وہ کچھ نہیں بولتی مگر گھر آنے کے بعد اس بچّے کی عملاً پوری طرح کلاس لیتی۔

ایک بات یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ ہماری نشاط آپا عمر میں تو ہم سے چند برس ہی بڑی تھی اور کوئی قابل ذکر پڑھی لکھی بھی نہیں تھی مگر خاندان بھر میں ہم خود ساختہ بقراط بہن بھائیوں میں اپنے معاملات میں افضل و برتر تھی، ظاہر ہے کسی کی کوئی سعی رائیگاں نہیں جاتی، نشاط آپا کے چھ بچے اب خود کئی بچوں کے باپ ہیں۔

تین بیٹے اعلا درجے کے سوِل انجینئر، چوتھا بیٹا کامیاب تاجر ہے تو بڑی بیٹی ایم بی بی ایس اور ایم ڈی ہو کر پہلے دس برس مدینہ منورہ کے ایک اسپتال میں اور اب انگلینڈ کے ایک بڑے اسپتال میں طبی خدمات انجام دے رہی ہے جب کہ سب سے چھوٹی گریجویٹ بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ دوحہ قطر میں (ہاؤس وائف) ہے۔

نشاط آپا بظاہر سخت مزاج تو تھی مگر اپنے اعزہ و اقربا کے ایک ایک فرد کا خیال رکھنے والی ہمدرد خاتون بھی تھی، مالی طور پر کمزور چچا اور چچی کو اپنے خرچ پر حج کروایا۔ شوہروں کے بارے میں آپ نے سن رکھا ہوگا کہ فلاں صاحب کی بیگم بہت سگھڑ اور اپنے شوہر کی ہر ایک ضرورت اور ان کی مرضی کا خیال رکھنے والی خاتون ہیں، ہماری نشاط آپا اس معاملے میں برعکس تھی، اس کے شوہر جو عظیم خان کے نام سے معروف ہیں، موصوف نے کسی بیوی کی طرح اپنی زوجہ کا خیال رکھا۔

ہم اپنے اس بہنوئی سے کہتے تھے کہ آپ تو نام ہی کے عظیم نہیں اپنے کردار سے بھی’عظیم‘ ثابت ہوئے، آپ نے تو دنیا ہی میں نصف جنت کے حصول کا کام کرلیا، ہم سے چار پانچ برس بڑا یہ سادہ لوح شریف النفس شخص ہماری باتوں پر صرف ایک تبسم کر دیتا ہے۔مرحومہ ذیابیطس (شوگر) کی شدید مریضہ تھی، کوئی دس برس قبل وہ اپنی چھوٹی بیٹی سے ملنے قطر گئی اور پھر وہاں چند ہفتے رہنے کے بعد شدید بیمار پڑگئی، اس کی علالت کی جو خبریں مل رہی تھیں تو اس کے نتیجے میں تمام اہل خانہ اور اعزہ اس کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے، ایک ہم تھے کہ یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! اس کو اتنی مہلت دیدے کہ وہ اپنے وطن اور اپنے اعزہ میں لوٹ کر آخری سانس لے سکے۔

اللہ نے رحم کیا اور وہ کسی طور وطن لوٹ آئی مگر قطر میں علاج کے دوران اس کے دونوں ہاتھ کی انگلیاں اینٹھ کر سیاہ ہوگئیں اور ایسی سیاہ جیسے سیخ کباب بری طرح جل گیا ہو۔ ممبئی ایئر پورٹ سے اسے سیدھے ایک پرائیویٹ اسپتال لے جایا گیا تو جن ڈاکٹروں نے اس کی میڈیکل رپورٹ پڑھی اور مریضہ کا معائنہ کیا تو وہ حیران تھے کہ وہ بچ کیسے گئی ؟

مختصر یہ کہ اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں تراش دی گئیں، شوگر کی مریضہ روزبروز کمزور ہوتی گئی پھر یہ ہوا کہ کوئی آٹھ برس تک بستر ہی پر اس کی تمام ضرورتیں اور تمام حاجتیں انجام پاتی رہیں، آواز بھی جاتی رہی کچھ بولنے کی کوشش تو کرتی تھی مگر تیمار داروں کی سمجھ میں کچھ آتا تو کچھ تحلیل ہوجاتا تھا، خاندان کا کوئی بھی فرد عیادت کو پہنچتا تو لگتا تھا کہ سب کو پہچانتی ہے کیوں کہ اشارے اور کنائے یہی بتاتے تھے، یعنی وہ اپنی بہو سے (شاید ) کہتی تھی کہ انھیں کھانا کھلا کر رخصت کرنا۔ ہم سے ایک کاغذ پر لکھوایا کہ میرے جسد کو وہیں دفن کرنا جہاں میری ماں باپ اور خاندان کے دیگر لوگ مدفون ہیں۔

انتقال کے بعد جو غیر ضروری یا غیر اسلامی رسوم ہمارے ہاں رواج پا گئے ہیں، اپنی وصیت میں اس کی بھی نفی کر گئی ہماری آپا جان۔اس واقعے کو ایک ذاتی قسم کا پرسہ نہ سمجھا جائے، اس کو اپنے قارئین سے ہم نے اس لیے بھی شیئر کیا کہ ہر ماں اپنی اولاد سے شدید محبت کرتی ہے مگر اِس ماں کی محبت وقتی نہیں بلکہ ایک مالی جیسی محبت تھی جو اپنے چمن کے پودوں کی کسی بھی شاخ کو ٹیڑھا نہیں ہونے دینا چاہتا۔

نشاط آپا کا بڑا بیٹا ہم سے کہہ رہا تھا کہ ماموں! ہماری ماں یقینا بہت سخت تھی، ہمیں بچپن میں اس کی سختی گراں گزرتی تو تھی مگر عمر کے اس مرحلے پر سمجھ میں آیا کہ اگر وہ سخت نہ ہوتی تو شاید ہم آج جو پڑھ لکھ کر بہر طور آسودہ ہیں شاید نہ ہوتے۔ ’’اللہ ہماری ماں کے ساتھ وہی کرنا جو ایک ماں کو کرنا چاہیے کیونکہ تو تو ستر ماؤں کی طرح رحم و کرم کرنے والا ہے۔‘‘ہم نے اپنے بھانجے کی اس دعا پر آمین ہی نہیں کہا بلکہ یہ دعا بھی کی کہ اے اللہ! دوسری مائیں بھی اپنے بچوں کے حق میں ایس ہی سراپا ’نشاط‘ بن سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔