بلند شرح سود اسٹاک مارکیٹ کے لیے خطرہ قرار

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 13 نومبر 2023
سرمایہ کاری کیلیے محفوظ توانائی، ٹیکس ریونیو میں اضافہ، نجکاری اور قرضوں میں کمی لانا ضروری ۔ فوٹو : فائل

سرمایہ کاری کیلیے محفوظ توانائی، ٹیکس ریونیو میں اضافہ، نجکاری اور قرضوں میں کمی لانا ضروری ۔ فوٹو : فائل

  کراچی: پاکستان اسٹاک مارکیٹ ایک بار پھر بلندی کی جانب گامزن ہے اور گزشتہ چند سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسٹاک مارکیٹ تیزی کے اس تسلسل کو قائم رکھ پائے گی۔

اس وقت مختلف تخمینوں کے مطابق اسٹاک ایکسچینج کا پرائس ٹو ارن ریشو 3.7-8x ہے، جو منافعے کو ظاہر کرتا ہے، پاکستان کے ڈیفالٹ نہ ہونے کا یقین ہونا اسٹاک مارکیٹ میں حالیہ تیزی کی بڑی اور بنیادی وجہ ہے۔

پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے، اور اس کے پاس اسٹرکچرل اصلاحات، تیل کی قیمتوں میں اعتدال، درآمدات اور ڈیویڈنڈ کی بتدریج بحالی اور سخت مالیاتی پالیسی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، لیکن بلند شرح سود اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ کاروں کو نکال سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان71 کروڑ ڈالر کی قسط کیلیے مذاکرات کا آغاز آج ہوگا

21 فیصد شرح سود کے ہوتے ہوئے سرمایہ کار اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ لگانے سے کترائیں گے اور ان کو اسٹاک مارکیٹ کی جانب راغب کرنے کیلیے خطرات سے پاک 21 فیصد سے زیادہ منافع آفر کرنے کی ضرورت ہوگی۔

ایسے سرمایہ کار جو پہلے نقصان اٹھا چکے ہیں، وہ اسٹاک مارکیٹ کے مستحکم ہونے کا انتظار کریں گے، مستقبل قریب میں شرح سود میں کمی، آئی ایم ایف پروگرام کا تسلسل اور غیر متنازعہ انتخابات اسٹاک مارکیٹ کو مزید تیزی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔