خواتین ووٹ کے حق سے محروم کیوں ہیں

فرسودہ سوچ اور روایات خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا باعث بن رہی ہیں


کامران سرور November 27, 2023
لوگ خواتین کے گھروں سے باہر نکلنے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کے قبائلی اور پسماندہ علاقوں کی طرح کراچی میں بھی مردوں کی غیرت اور انا کی وجہ سے خواتین ووٹ کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ خواتین کی اس محرومی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جن کا احاطہ ہم آج کی اس تحریر میں کریں گے۔


''مردوں کو اس وقت خواتین کی عزت کا خیال کیوں نہیں آتا جب وہ خود گھروں میں رہ کر خواتین کو نوکریوں پر بھیجتے ہیں؟ تب ان کی غیرت کہاں مر جاتی ہے جب علاقے میں چھوٹے چھوٹے مسائل کےلیے ان کی فیملی کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں؟'' یہ کہنا ہے کراچی کے حلقہ این اے 237 ملیر کی رہائشی خاتون مریم بی بی کا، جو گزشتہ کئی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکیں۔


مریم بی بی نے مجھے بتایا کہ وہ بھی دیگر خواتین کی طرح انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں اپنے شوہر سے اجازت نہیں ملتی اور اگر وہ چھپ کر ووٹ کاسٹ کرنے چلی جائیں تو ان کےلیے مصیبت بن جاتی ہے۔ مریم بی بی نے مطالبہ کیا کہ خواتین کےلیے کام کرنے والی مختلف این جی اوز کو اس حوالے سے آواز اٹھانی چاہیے اور خود الیکشن کمیشن کو بھی ایسا لائحہ عمل بنانا چاہیے جس کے تحت خواتین کے ووٹ کے بغیر کسی بھی حلقہ کے انتخابات قابل قبول نہ ہوں، چونکہ ہم تو اپنے شوہر، والد یا بھائی کی وجہ سے مجبوری میں ووٹ ڈالنے نہیں جاسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا کوئی میکنزم بن جائے جس میں تمام خواتین آسانی سے ووٹ کاسٹ کرسکیں تو انتخابات مزید موثر ہوجائیں گے۔


خواتین کے ووٹ کاسٹ کرنے کے شرعی احکامات سے متعلق جمعیت علمائے اسلام ضلع ملیر کے جنرل سیکریٹری مولانا اجمل شاہ شیرازی نے بتایا کہ اسلام نے خواتین کو ووٹ دینے کا پورا حق دیا ہے اور نہ صرف مردوں بلکہ عورتوں پر لازم ہے کہ وہ ووٹ کا حق ادا کریں کیوں کہ یہ ان کی شرعی ذمے داری ہے۔


ووٹ سے متعلق سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی (مرحوم) کہا کرتے تھے کہ ووٹ ایک امانت ہے، لہٰذا ہر مرد وعورت کو چاہیے کہ اسے امانت سمجھ کر جسے وہ بہتر سمجھتے ہیں، واپس کریں اور ساتھ ہی یہ گواہی بھی ہے، جو وہ اپنے ووٹ کے ذریعے دیتے ہیں کہ فلاں شخص اس علاقے، ملک اور قوم کےلیے بہتر ہے، جب کہ یہ سفارش بھی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اس شخص کے حق میں سفارش کرتے ہیں تاکہ وہ عوام کے حق میں بہترین فیصلے کرسکیں۔


مولانا اجمل شاہ شیرازی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مرد حضرات اسلام اور شریعت کا نام استعمال کرکے خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکتے ہیں جو سراسر جہالت ہے کیوں کہ شریعت میں عورت کے ووٹ کی ممانعت نہیں۔ بلکہ دین تو کہتا ہے کہ حق دار کو اس کا حق وقت پر ادا کیا جائے۔


انہوں نے اپنے حلقے میں تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کی کہ وہ خواتین کے ووٹ کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق بنائیں اور تمام نامزد امیدوار ایسا ماحول بنائیں جس میں خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو، نیز ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ بھی مردوں کی طرح کسی رکاوٹ کے بغیر گھروں سے نکل کر ووٹ کاسٹ کرسکیں۔


الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بنائے گئے قانون کے تحت ملک میں ہونے والے انتخابات کے کسی بھی حلقہ میں کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں اگر خواتین کے ووٹوں کا تناسب 10 فیصد نہ ہوا تو وہ نتائج قبول نہیں کیے جائیں گے۔


عورت فاؤنڈیشن کی صوبائی پروگرام مینجر ملکا خان نے مردوں کی جانب سے خواتین پر ووٹ کاسٹ کرنے کی پابندی سے متعلق کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ کراچی جیسے شہر میں بھی زیادہ تر پشتون فیملیز اپنے گھر کی عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکتی ہیں لیکن وہ مخصوص گھر ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کراچی کے کسی علاقے میں پوری کمیونٹی کی خواتین ووٹ کاسٹ کرنے گھر سے نہ نکلی ہوں۔


انہوں نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو ایسے میں ان کی حمایت یافتہ فیملیز ووٹ ڈالنے نہیں گئیں لیکن ایسا نہیں تھا کہ مردوں نے تو ووٹ کاسٹ کیا مگر خواتین گھروں سے نہیں نکلیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں جہاں قبائلی اضلاع کی طرح پوری کمیونٹی نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا ہو۔


ملکا خان نے کہا کہ عورت فاؤنڈیشن نے ماضی میں انتخابی مہم کے دوران پشتون کمیونٹی کو آگاہی دینے کی کوشش کی تو ان کی مردوں کی جانب سے کہا گیا کہ ہمارے عورتیں گھروں سے نہیں نکلتیں جس پر ہم نے انہیں سمجھایا کہ ایسے تو آپ کے ووٹ کاسٹ کرنے کا بھی فائدہ نہیں، کیوں کہ آپ جس جماعت کو سپورٹ کررہے ہیں، ان کے ووٹ ہی کم ہورہے ہیں جب کہ مخالف امیدوار کو خواتین کے بڑی تعداد میں ووٹ مل جائیں گے اور پھر اگلے دن الیکشن میں ہم نے دیکھا کہ پشتون کمیونٹی کی خواتین سب سے آگے تھیں۔


ووٹ کاسٹ کرتے وقت خواتین کے پردے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ بے پردگی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیوں کہ زیادہ تر عورتوں کا پولنگ بوتھ الگ ہوتا ہے اور وہاں تمام انتظامات ہوتے ہیں۔


پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں کی گئی حالیہ حلقہ بندیوں کے نتیجے میں جو نتائج جاری کیے گئے ان کے مطابق ملک میں تقریباً 2 کروڑ نئے ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے، جن میں تقریباً آدھی تعداد خواتین کی ہے۔


الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 تھی اور اب یہ تعداد 12 کروڑ، 69 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس فہرست میں مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار 258 ہے اور خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 72 ہزار 14 ہے۔


الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10 ہزار 582 ہے اور سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 66 لاکھ 51 ہزار 161 ہے۔ خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 16 لاکھ 92 ہزار 381 ہے، بلوچستان میں ووٹرز کی تعداد 52 لاکھ 84 ہزار 594 ہے، اسلام آباد میں ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار 554 ہے۔


الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں 18 سے 35 سال عمر کے ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 70 لاکھ 95 ہزار 197 ہے۔ 36 سے 45 سال کے ووٹرز کی کل تعداد 2 کروڑ 77 لاکھ 94 ہزار 708 ہے، 46 سے 55 سال عمر کے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 81 لاکھ 24 ہزار 28 ہے، 56 سے 65 سال کے ووٹرز کی مجموعی تعداد 1 کروڑ 18 لاکھ 89 ہزار 259 ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں 66 سال سے زائد عمر والے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 20 لاکھ 77 ہزار 80 ہے۔


الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ابتدائی حلقہ بندیوں کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیوں میں کراچی کے قومی اسمبلی حلقوں کے نمبرز تبدیل کردیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں صوبائی اسمبلی کی 3 جبکہ قومی اسمبلی کی 1 نشست میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں کراچی کا پہلا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 236 (ملیر1) تھا جو اب این اے 229 (ملیر1) بن گیا ہے، اسی طرح ابتدائی حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع ملیر 229، 230 اور این اے 231 پر مشتمل ہے۔


الیکشن کمیشن کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں این اے 237 کی آبادی 6 لاکھ 73 ہزار 678 تھی اور رجسٹرڈ ووٹرز 2 لاکھ 83 ہزار 882 تھے، جن میں مرد ووٹرز ایک لاکھ 62 ہزار 495 اور خواتین ووٹرز ایک لاکھ 21 ہزار 387 شامل تھے۔ جب کہ نئی حلقہ بندیوں کے ابتدائی نتائج کے مطابق اب اس حلقہ (این اے 230) کی آبادی 7 لاکھ 86 ہزار 160 ہوگئی ہے۔


کراچی کے حلقہ این اے 237 ضلع ملیر کے ووٹر خیراللہ کا تعلق خیبرپختونخوا کے علاقے باجوڑ (سابقہ فاٹا) سے ہے اور وہ گزشتہ 40 سال سے کراچی میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ خیراللہ نے بتایا کہ ہمارے پورے خاندان کے ووٹ کراچی میں ہی ہیں لیکن ہمارے تمام مرد باقاعدگی سے قومی، صوبائی، ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں لیکن ہمارے گھر کی خواتین نے آج تک ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔


میرے اصرار پر انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ جناب آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کون کس طرح منتخب ہوکر آتا ہے، ایسے میں کسی کے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا، یہ بس ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے اور پس پردہ کون کیا کرتا ہے، یہ اب سب بخوبی جانتے ہیں۔


خیراللہ نے اپنے گھر کی خواتین کو ووٹ کے بنیادی حق سے محروم رکھنے پر مجھے بتایا کہ چونکہ ہمارے قبائلی علاقوں میں خواتین زیادہ تر گھر کی چار دیواری تک ہی محدود رہتی ہیں اور شہر میں آنے کے باوجود ہماری ثقافت میں تبدیلی نہیں آئی، کیوں کہ ہم لوگ خواتین کا گھروں سے باہر نکلنے کو اچھا نہیں سمجھتے۔ اپنے گھر کی خواتین کو پولنگ اسٹیشن نہ بھیجنے کی ایک اور وجہ وہاں پر بہتر انتظامات نہ ہونا بھی ہے۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ ووٹ کاسٹ کرنے کے دوران خواتین کے ساتھ دھکم پیل اور بدتمیزی بھی ہورہی ہوتی ہے، چونکہ ہم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس لیے ہمارا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ اپنے گھر کی خواتین کو ایسے ماحول میں بھیجیں۔


الیکشن کمیشن سندھ کے پی آر او نبیل ابڑو نے مجھے بتایا کہ جن حلقوں میں خواتین کے ووٹ 10 فیصد سے کم کاسٹ ہوں گے، اس کےلیے الیکشن کمیشن نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ وہاں کا انتخاب تسلیم نہیں کیا جائے گا، تاہم کراچی کے مخصوص حلقوں میں ہمیں ایسی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں جہاں مرد حضرات اپنے گھر کی خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکتے ہیں، اس کےلیے الیکشن کمیشن کی صوبائی سطح پر مختلف کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو وقتاً فوقتاً آگاہی مہم چلاتی رہتی ہیں اور اس کےلیے ہم اسکول، کالجز، یونیورسٹیز میں طلبہ اور طالبات سے بات چیت کرتے ہیں۔


خواتین کو ووٹ دینے کی اجازت نہ دینے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پشتون کمیونٹی سمیت ہمارے نمائندے ان تمام علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں ہمیں اس قسم کی شکایات موصول ہوتی ہیں اور وہاں ہم نہ صرف ان مردوں بلکہ خواتین کو بھی آگاہی دینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے اچھے نتائج موصول ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ خواتین کےلیے الگ پولنگ بوتھ قائم کریں اور خواتین کے پردے اور سیکیورٹی سے متعلق ہر قسم کے انتظامات بروقت مکمل کیے جائیں۔


خیبرپخونخوا کے علاقہ مہمند ایجنسی (سابق فاٹا) سے تعلق رکھنے والے کراچی کے حلقہ این اے 237 ملیر کے رہائشی بخت منیر گزشتہ 35 سال سے کراچی میں مقیم ہیں لیکن ان کا ووٹ اپنے آبائی علاقے میں ہی رجسرڈ ہے۔ کراچی میں رہائش کے باوجود ووٹ یہاں منتقل نہ کرنے کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ وہ ہر انتخابات میں صرف ووٹ کاسٹ کرنے اپنے آبائی علاقے جاتے ہیں کیوں کہ ان کا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے، لہٰذا ہمارے آبائی گاؤں میں ایک ووٹ بھی قیمتی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں میرے کزن کو صرف 10 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔


خواتین کے ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ خواتین کو ووٹ ڈالنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے یہاں پر اس طرح کے انتظامات نہیں کیے جاتے جس ماحول میں خواتین کی پرائیویسی یا پھر پردہ قائم رہتے ہوئے وہ اپنا بنیادی حق ادا کرسکیں۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف قبائلی اضلاع اور یہاں تک کہ اندرون سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں بھی عورت کے ووٹ ڈالنے پر پابندی لگائی جاتی ہے اور اس کام کےلیے اس حلقہ کی تمام سیاسی جماعتیں متفق بھی ہوجاتی ہیں لیکن ہمارے آبائی حلقہ میں آپ کو ایک مختلف مثال ملے گی۔ بخت منیر کا کہنا تھا کہ ان کے آبائی علاقے میں انتخابات کے دوران ایک عورت بھی گھر میں نہیں بیٹھتی اور سب ووٹ کاسٹ کرنے جاتی ہیں لیکن ان کےلیے باقاعدہ پردے کا ماحول بنایا جاتا ہے اور ہر عورت کو گھر سے پردے میں ووٹ کاسٹ کرنے کےلیے لے جایا جاتا ہے، جس کی ذمے داری کا تعین اس حلقہ سے انتخاب لڑنے والے تمام امیدوار انتخاب سے پہلے ہی مل کر کرلیتے ہیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔