پاکستان میں موسم سرد ہوتے ہی ادبی میلوں کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مگر آج سے پندرہ سال قبل ملک میں لٹریچر فیسٹیول یا ادبی میلوں کی کوئی مستقل روایت موجود نہ تھی اور پہلا لٹریچر فیسٹیول مارچ 2010 میں کراچی کے ساحل پر واقع ایک ہوٹل میں منعقد ہوا اور یہاں سے ادبی میلوں کی روایت نے ایسا زور پکڑا کہ ملک کے طول عرض میں ادبی میلوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
بطور صحافی ان متعدد میلوں کی رواداد نویسی بھی کی، جہاں فنون لطیفہ کی تمام اصناف شاعری، نثر نگاری، مزاح نگاری، ناول، افسانہ، کتاب نویسی، موسیقی اور رقص کی محافل کو پیش کیا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان ادبی میلوں میں ہر طبقہ فکر، لسانی، مذہبی، اور معاشی طبقات کے افراد نظر آتے ہیں۔ اور یہ میلہ عوام کو ان کے پسند کے مصنف، شاعر، گائیک، مزاح نگار سے براہ راست ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ ان میلوں کے دوران متعدد غیر ملکی مصنیفین سے ملنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ اس سال کراچی لٹریچر فیسٹیول 16 سے 18 فروری کو اپنے روایتی مقام پر منتعقد کیا گیا۔ اس سال چونکہ کراچی لٹریچر فیسٹیول کو 8 فروری کے انتخابات کے فوری بعد منعقد کیا گیا تھا اس لیے منعقدہ مجالس میں سیاسی رنگ کسی حد تک غالب رہا۔ عوام نے سیاسی رجحانات پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ مگر اچھی بات یہ تھی کہ ملک میں جاری سیاسی کشیدہ ماحول کے باوجود کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ایک دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کا اظہار بخوبی دیکھا گیا۔
کراچی لٹریچر فیسٹیول کی عمومی رودادنویسی کے ساتھ ساتھ جب غیر ملکی مندوبین کی فہرست پر نظر ڈالی تو ان میں کنیزے مراد کا نام دیکھ کر آنکھیں چمک اٹھیں، کیونکہ کنیزے حسین آف کوٹوارا (جو کہ اپنے نانا کی نسبت سے خود کو کنیزے مراد کہتی ہیں، بطور پیشہ صحافی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں) سے بھی ملنے کا موقع مل سکے گا۔
کنیزے مراد کی کہانی دراصل خلافت عثمانیہ کے زوال اور آخری خلیفہ کے خاندان کے دربدر ہونے کی ایک درناک داستان ہے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ان سے ایک مختصر سی ملاقات رہی جس میں ان کی ذاتی زندگی، عالمی سیاست، فلسطین، اور یورپ میں اسلامو فوبیا کے علاوہ ترک سیاست میں خاندان عثمانیہ کے متوقع کردار پر بات چیت ہوئی۔
پہلی جنگ عظیم کا آغاز یورپ کی اندرونی سیاسی کشمکش سے ہوا۔ اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ، فرانس اور روس اتحادی تھے تو دوسری طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری کے ساتھ خلافت عثمانیہ بھی اتحادی تھے۔ مگر پہلی جنگ عظیم کا اختتام مسلمانوں کی حکمرانی کی آخری نشانی خلافت عثمانیہ کے زوال پر ہوا۔ خلیفہ کی جانب سے افواج کی قیادت سونپے جانے کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت کا خاتمہ کرتے ہوئے خلیفہ حمید کے خاندان کو بے دخل کردیا۔ جنگ کے اختتام پر مرکزی طاقتوں اور ترکی کے درمیان سو سال مدت کا ایک معاہدہ طے پایا جس میں ترکی کو امت مسلمہ کی خلافت سے دستبردار کرتے ہوئے افریقہ اور عرب علاقوں کو آزاد ریاست قرار دینا تھا۔
اس معاہدے کے اثرات آج بھی پوری دنیا پر محسوس کیے جارہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں شکست کی وجہ سے خلیفہ کے خاندان کو ترکی سے بے دخل کردیا گیا اور کنیزے مراد کے خاندان نے لبنان میں پناہ لی۔ جہاں وہ نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ایسے میں برصغیر پاک وہند میں خلافت تحریک چلانے والے مولانا شوکت علی سے کنیزے مراد کی نانی نے رابطہ کیا اور انہیں کنیزے مراد کی والدہ، جوکہ عثمانی خلیفہ مراد پنجم کی نواسی تھیں، کےلیے کسی شاہی خاندان کے فرد کا رشتہ تلاش کرنے کا کہا۔ مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی کے برصغیر میں تحریک خلافت کی وجہ سے ترک شاہی خاندان سے بہت اچھے مراسم تھے۔ مولانا شوکت علی نے اودھ کے نواب خاندان کے چشم و چراغ ساجد حسین زیدی سے لبنان میں رشتہ ازدواج طے کرایا۔
کنیزے مراد اپنی والدہ کی شادی کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ شادی مکمل طور پر دونوں خاندانوں کی باہمی رضامندی سے طے پائی تھی اور ان کے والد والدہ نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ تھا۔ شادی کے بعد جب کنیزے مراد کی والدہ سلمہ سلطان حاملہ ہوئیں تو والدین نے فیصلہ کیا کہ ان کی اولاد برطانوی سامراج کی غلام نہ ہو اور انہوں نے سلمہ سلطان کو عثمانی خاندان کے ایک وفادار ملازم کے ہمراہ پیرس روانہ کردیا۔
کنیزے مراد کہتی ہیں کہ مشکلات نے پیرس میں ان کی والدہ کی جان نہ چھوڑی اور دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اور پیرس پر جرمن افواج قابض ہوگئیں، جس نے برطانیہ اور اس کی نو آبادیات کا رابطہ فرانس سے منقطع کردیا۔ اور پہلے سے مشکلات میں گھری شہزادی کی زندگی اب مکمل غربت کی نذر ہوگئی۔ اپنی والدہ کے حالات بیان کرتے ہوئے کنیزے کے چہرے پر کرب کے اثرات نمایاں تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ میری والدہ کی پیرس میں دوسری جنگ عظیم میں انتہائی کسمپرسی اور کرب کے عالم میں موت ہوئی جب وہ صرف 26 سال کی تھیں۔ جنگ کی وجہ سے انڈیا سے کوئی بھی پیسہ پیرس بھیجا نہیں جاسکتا تھا۔ برطانوی سفری دستاویزات کی بنا پر وہ برطانوی شہری تھیں اور جرمن فوجی برطانوی شہریت رکھنے والوں کو بے دریغ قید میں ڈال رہے تھے۔ میری پیدائش کے تقریباً ایک سال بعد میری والدہ کا انتہائی غربت میں انتقال ہوگیا۔
والدہ کے انتقال کے بعد شاہی نوکر نے کسی حد تک کنیزے مراد کی پرورش کرنے کی کوشش کی مگر حالات سے مجبور ہوکر کنیزے کو کیتھولک مشینری اسکول میں داخل کرادیا۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور فرانس کی جرمن افواج سے آزادی کے بعد نواب ساجد حسین زیدی اپنی بیٹی کی تلاش میں فرانس آئے مگر مایوس لوٹ گئے۔ کنیزے مراد کے مطابق عیسائی مشنریز انہیں ایک مسلمان باپ کے حوالے نہیں کرنا چاہتی تھیں، اس کے علاوہ ان کو یہ بھی پتہ تھا کہ کنیزے مراد کا تعلق ترکی کے خلفیہ اور انڈیا کے نواب خاندان سے ہے۔ اس لیے انہوں نے کنیزے کو والد کے حوالے نہیں کیا بلکہ ایک کیتھولک خاندان کے زیر کفالت دے دیا۔
کنیزے کی عمر اٹھارہ سال ہوئی تو انہیں اس بات کا علم ہوا کہ وہ کون ہیں اور ان کی بنیاد کیا ہے۔ اسی دوران انہوں نے ترک صوفی ازم کا مطالعہ کیا اور کیتھولک مذہب کو چھوڑ کر اسلام اختیار کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اسی لیے ان کی تحریروں میں باہمی تعاون اور برداشت کو فروغ دینے کی بات کی جاتی ہے۔
خاندان سے ملاقات
پیرس میں کینزے کی تلاش کے بعد مایوس ہوکر ساجد حسین زیدی نے دوسری شادی کرلی مگر کنیزے کی پھوپھی یعنی ساجد حسین کی بہن بیگم واجد نے کنیزے کی تلاش جاری رکھی اور جب کنیزے 21 سال کی ہوئیں تو ان کی ملاقات والد سے ہوئی مگر اب تک وہ بوڑھے ہونے کے علاوہ تین بیٹوں کے باپ بھی تھے۔ اس جذباتی ملاقات کے باوجود کینزے کا تعلق اپنے والد کے بجائے اپنی پھوپھی کے خاندان سے زیادہ مضبوط رہا اور آج بھی قائم ہے۔ بیگم واجد کی بیٹیوں سے ملنے کنیزے ہر سال پاکستان آتی ہیں اور وہ ان سے رشتے پر نہایت فخر بھی محسوس کرتی ہیں۔
صحافتی سفر
کنیزے نے اپنی شناخت کو پانے کے بعد صحافت کا سفر شروع کیا اور فرانسیسی اخبارات میں بطور جنگی رپورٹر کے طور پر خدمات سرانجام دینے لگیں۔ انہوں نے فلسطین، عرب اسرائیل تنازعہ، انقلاب ایران، پاکستان اور ترکی کے حالات پر رپورٹنگ کی مگر ان کی بعض رپورٹنگ کو بروقت اشاعت نہیں ملتی تھی۔ کنیزے کا خیال تھا کہ وہ اپنی صحافت کے ذریعے مغرب اور اسلامی دنیا میں خلیج کو پاٹ سکیں گی۔ مگر وہ اس حوالے سے مایوس نظر آتی ہیں۔ کنیزے نے صحافت چھوڑ کر کتاب نویسی کا عمل شروع کیا اور اپنی والدہ پر ایک کتاب خلافت عثمانیہ کی شہزادی کی یادداشتیں لکھی۔ جس کےلیے انہوں نے پیرس، لبنان، ترکی اور انڈیا کا سفر کیا۔ اس کتاب نے کنیزے مراد کو شہرت کی بلندی پر پہنچادیا۔ کئی لاکھ کتابیں فروخت ہوئیں اور 34 زبانوں میں اس کتاب کا ترجمہ کیا گیا۔
یورپ میں اسلامو فوبیا
کنیزے مراد نے جب اپنی والدہ کی سوانح حیات اور دیگر غیر سیاسی موضوعات پر کتابیں لکھیں تو وہ یورپ اور فرانس میں ایک نہایت مقبول مصنفہ رہیں مگر جب انہوں نے فلسطین کے مسئلے پر کتاب Our Sacred Land: Voices of the Palestine-Israeli Conflict کو تحریر کیا تو بقول کنیزے ایسا لگا کہ فرانسیسی ذرائع ابلاغ کےلیے وہ اجنبی ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کو 20 سال کا عرصہ ہوگیا ہے مگر اس کے بعد کسی ٹی وی چینل یا بڑے اخبار نے کنیزے مراد کا انٹرویو نہیں کیا۔ کنیزے مراد کہتی ہیں کہ یورپ اور خصوصاً فرانس میں اسلام فوبیا بڑھتا چلا جارہا ہے۔ فلسطین پر میری کتاب ایک متوازن اور مدلل تصنیف تھی مگر اس کے بعد فرانسیسی میڈیا نے میرا بائیکاٹ کردیا، جو آج بھی جاری ہے۔ فرانس کے ذرائع ابلاغ مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ صہیونی لابی کا فرانس کے اخباروں پر کنٹرول بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کو قابو میں کرنے کا مطلب ہے کہ عوام کے ذہنوں کو قابو میں کرنا۔ اس حوالے سے کی جانے والی کوئی بھی کوشش وقت کا ضیاع ہے۔ مگر عوام میں کچھ عناصر اس کو سمجھتے ہیں۔ مغربی حکومتیں مکمل طور پر صہیونیوں کے قبضے میں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یورپ تہذیبی اور آبادی دونوں لحاظ سے انحطاط کا شکار ہے۔ فرانس کی اندرونی سیاست میں مقامی آبادی خوف کا شکار ہے۔ فرانس میں سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، جس کی تعداد 50 لاکھ ہے جبکہ فرانس میں ہی یورپ کے سب سے زیادہ یہودی رہتے ہیں، جن کی آبادی 5 لاکھ ہے۔ بڑھتی مسلم آبادی کی وجہ سے مقامی لوگ پریشان ہیں اور رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ پوری کررہے ہیں۔
کنیزے مراد کے خیال میں یورپ تہذیبی اور آبادی کے طور پر انحطاط کا شکار ہے۔ برکس کا نیا اتحاد ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ برازیل، انڈیا، چین اور دیگر ملک ابھر رہے ہیں۔ اور ایک دن پاکستان بھی انہی ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگا۔ اس لیے کسی حد تک مسلمانوں کے آگے بڑھنے کا موقع بھی موجود ہے۔ یورپ کے انحطاط کی وجہ سے یہودی لابی کی گرفت بھی عالمی نظام پر کسی حد تک کمزور ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فرانس کو چھوڑ کر ترکیہ میں آکر آباد ہوگئی ہیں۔
عثمانی خاندان کے ترکی کی سیاست میں واپسی کے امکانات
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے حوالے سے سو سال کے معاہدے کے خاتمے کا ترکی میں بہت جشن منایا گیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا عثمانی خاندان کی ترکیہ کی سیاست میں کوئی گنجائش ہے؟ اس پر کنیزے مراد کا جواب نفی میں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ کے موجودہ صدر طیب اردگان کے آنے کے بعد عثمانی خاندان کی عزت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور عوامی سطح پر ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ مگر ترکی سے بے دخل کیے جانے کے بعد عوام کے ذہنوں کو خلافت کے حوالے سے بہت آلودہ کردیا گیا ہے۔ تعلیمی نصاب میں خاندان عثمانیہ کے حوالے سے بہت زیادہ منفی باتیں اور جھوٹ شامل کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کے ہمارے خاندان کو ترکی کا غدار قرار دیا گیا ہے۔ ان کی ذہن سازی ہمارے بارے میں بہت زیادہ منفی پروپیگنڈے سے کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خاندان عثمانیہ کی ترکی کی مقامی سیاست میں گنجائش بہت کم ہے۔
کنیزے مراد اب 84 سال کی ہوچکی ہیں۔ مگر ان کی کہانی مسلم دنیا کے زوال کے ساتھ ساتھ یورپ میں موجود اسلامو فوبیا کے جذبات کی عکاس ہے۔ یہ کہانی عالمی سیاست کی وجہ سے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات کی عکاس ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔