پاکستان واپس آرہا ہوں، سیاست میں متحرک کردار ادا کروں گا، عشرت العباد

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 25 مئ 2024
گورنر سندھ دبئی سے بذریعہ ویڈیو لنک صحافیوں سے گفتگو کررہے ہیں (فوٹو ایکسیرپس ویب)

گورنر سندھ دبئی سے بذریعہ ویڈیو لنک صحافیوں سے گفتگو کررہے ہیں (فوٹو ایکسیرپس ویب)

  کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور سابق گورنرسندھ ڈاکٹرعشرت العباد نے پاکستان آنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے پاس دو آپشن ہیں کہ کچھ کروں یا تماشائی بن جاؤں مگر میں نے کچھ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ہے،کب ، کیسے  اور کیا کرنا ہے اس بارے میں جلد اپنی حکمت عملی کا اعلان کروں گا۔

ان خیالات کا اظہارسابق گورنر سندھ عشرت العباد نے ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی کے مقامی ہوٹل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹرعشرت العباد نے کہا کہ اب محسوس ہوتا ہے کہ مجھے سیاست میں فعال ہونا چاہیے، مجھے کئی سال تک لوگوں کی خدمت کا موقع ملا، میں اپنے دوستوں سے مشاورت کرتا رہا ہوں، میں ملک سے جانے کے بعد سے ملک کےلیے دعاگو رہا ہوں۔

انہوں نے وطن واپس آنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کب آنا ہے اس کے لیے وقت ضروری ہے اب مجھے جو بھی کرنا ہے پاکستان آکر ہی کرنا ہے، واپس آنے کے بارے میں مناسب وقت پر تفصیل بتاؤں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام نہیں کیا البتہ اسٹیبشلمٹ کے ساتھ کام کیا ہے، اب میں اپنا تجربہ شیئر کرنا چاہتا ہوں، مجھے اسٹیبشلنٹ کی سپورٹ نہیں چاہیے۔

سابق گورنر نے کہا کہ 2015 میں مجھے  ڈس اون کیا گیا تھا مجھ پر ملک چھوڑنے پر بہت دباؤ تھا، میں ہمیشہ اسٹیٹ کے ساتھ کھڑا رہا جس کی قیمت ادا کی،میں جو کام کرنا چاہ رہا ہوں اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ میں پاکستان میں معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں ،جو لوگ حکومت میں ہیں ان کا اخلاقی جواز کمزور ہے اور قانونی حیثیت چیلنج ہے۔

انہوں نے کہاکہ پی ایس پی بنانے جیسا بے وقوفانہ مشورہ نہیں دے سکتا، میں نے ساتھیوں کو ایم کیوایم میں رہتے ہوئے سیاست کا مشورہ دیا تھا مگر کچھ لوگوں نے ہماری بات نہیں مانی، پی ایس پی والے بعد میں خود ایم کیوایم میں شامل ہوگئے، کراچی میں ترقیاتی کاموں کی ابتر صورتحال کی ذمہ دار پیپلزپارٹی سے زیادہ کراچی کی حاکمیت کے دعویدار ہیں،میں نے زرداری صاحب سے کراچی کے لیے کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کرائے،وفاق ، صوبہ اور بلدیاتی قیادت تینوں کے ملے بغیر کراچی میں کام نہیں ہوسکتے۔ نعمت اللہ خان بہت اچھے انسان تھے۔

سابق گورنر نے کہاکہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہورہی ہے، جس کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کار پاکستان آنے سے گریز کررہے ہیں، پی ٹی آئی کو جذباتی حمایت حاصل ہے مگر  پی ٹی آئی کی حکومتی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔ عشرت العباد کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی 47کا لفظ بار بار آئے گا،ایم کیوایم شہر کے لیے کام کرے،جو بزنس مین ملتے ہیں وہ کراچی کے حوالے سے خوفناک داستانیں سناتے ہیں، سیاسی استحکام میری صلاحیت ہے اس پر کام کرونگا اپنے دور گورنری میں اس پر بہت کام کیا انھوں نے اس حوالے سے کئی مثالیں بھی پیش کیں۔

انہوں نے کہاکہ 2015 کے ضمنی الیکشن میں بہت تناؤ تھا پی ٹی آئی نے جناح گراؤنڈ میں جلسے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد صورت حال خطرناک ہوگئی تھی، میں نے عمران خان سے فون کیا تو انہوں نے بات مان لی تھی۔ انہوں نے کہاکہ آصف زرداری کی جانب سے 2016 میں پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت پر معذرت کرلی تھی،بارہ مئی کے واقعہ کو روکنے کی بھرپور کوششیں کیں مگر روک نہ سکا، اس کے بعد پچیس سے ستائیس مئی کو ایک ہڑتال کی کال دی گئی تھی، معلوم ہوا کہ فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی آرہے ہیں،میں اسفندیار ولی کے پاس چلا گیا،میری کوششوں سے ہڑتال موخر ہوگئی۔

عشرت العباد نے کہا کہ متحدہ کے جو لوگ پاکستان گئے ان کو پریشانی ہوئی،بابر غوری گئے تو گرفتار کرلیا گیاکہ ان کی وجہ سے ہمارا پروجیکٹ خراب ہوجائے گا جبکہ بابر غوری اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے گئے تھے،متحدہ اور پی ایس پی کا انضمام آرگینک نہیں جبری کروایا گیا، انضمام کے بعد متحدہ کے بہت سے لوگ غیر فعال ہوگئے ہیں، انضمام کے وقت سب کو ایک ساتھ ملانا چاہیے تھا،میں پہلے پاکستان واپس آکر خرابی پیدا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

سابق گورنر کا کہنا تھا کہ میں نے متحدہ کو پورا موقع دیا کہ شہر کے لیے کام کریں مگر وہ کر نہ سکے۔ انہوں نے بتایا کہ شاہد خاقان اور مفتاح اسماعیل سے ملاقات ہوئی اس طرح کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں،نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی،نئی پارٹی میں جانا ہے نہیں جانا اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی، میں پاکستان آکر متحدہ سمیت کسی کو چیلنج نہیں کرونگا،میں پاکستان کے ذہین ، باصلاحیت اور اثر انگیز لوگوں کو جمع کرنا چاہتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔