سیپ: نصف صدی کا قصہ

اقبال خورشید  جمعرات 2 اکتوبر 2014

خبر کا بھی عجیب مزاج ہوتا ہے۔ کبھی نیم جیسی کڑوی، کبھی شہد سی میٹھی۔ ایک خبر آپ کا تو دل بہلائے، پر اوروں کا جی جلائے۔ اب عمران خان کے لاہور جلسے ہی کو لیجیے۔ اُن کے حامیوں نے بغلیں بجائیں، تو مخالفین نے شرکاء کی تعداد دس ہزار ٹھہرائی۔ کوئی نئے صوبوں کے مطالبے پر جشن مناتا ہے، کوئی ہتھے سے اُکھڑ جاتا ہے۔

ہم ٹھہرے قنوطی، پھر شہرگریہ کے باسی۔ سفید کینوس ملے، تو اس پر تاریکی پینٹ کر دیں۔ وہ تو شکر ہے، صدیوں قبل کوئی نیک بخت کتاب ایجاد کر گیا۔ کچھ لوگ شعر کہنے، کچھ کہانی سنانے لگے، جو اس ایجاد کے وسیلے ہم تک پہنچیں، اور جینے کا امکان پیدا ہوا۔

کچھ ہی روز ہوئے، ایک اچھی خبر ملی۔ دو نسلوں کے ادبی ذوق کی آبیاری کرنے والا جریدہ ’’سیپ‘‘، آپ کا ہمارا ’’سیپ‘‘ اب 51 برس کا ہو گیا ہے۔ اس مناسبت سے پرچے کا خاص نمبر شایع ہوا۔ یوں ہمارے ہاتھ ایک خاص خبر لگ گئی۔ اور ہم، کم از کم اس بار، اپنے کالم میں اندھیرا قلم بند کرنے سے باز رہے۔

پیشہ ورانہ ذمے داریوں نے کئی قدآور ادیبوں سے ملاقات کا شرف بخشا۔ جب کبھی اُن پرچوں کی بابت پوچھا، جن میں اُن فسوں گروں کی ابتدائی تخلیقات شایع ہوئیں، تو بہت سوں نے ’’سیپ‘‘ کا تذکرہ کیا۔ اس کے مدیر، نسیم درانی کو اپنا محسن ٹھہرایا۔ گزشتہ برس ’’سیپ‘‘ کی گولڈن جوبلی کی بازگشت سنی، تو ٹھان لیا کہ اس کے مدیر سے، جن کی شہرت ہمیں کچھ کچھ اساطیری لگی کہ آخر ہم ٹھہرے شخصیت پرست، ملنے کا فیصلہ کیا۔ بھلا ہو نسیم صاحب کی سادگی، بلکہ بے ساختگی کا، گفتگو میں بڑی سہولت رہی۔ ان کی حوصلہ افزائی نے کچھ بے تکلفی کی فضا پیدا کر دی۔

نسیم صاحب آگرہ کے ہیں۔ بچپن سے میگزین نکالنے کا شوق۔ اسکول کا نوٹس بورڈ میسر۔ کچھ قصّے، لطیفہ گھڑ لیتے۔ بورڈ کا باقی حصہ کسی رسالے کے تراشوں سے مکمل کرتے۔ شاید اِسی مشق نے بعد میں ’’سیپ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ شمس زبیری بچوں کا پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ اور ادبی جراید کے انتخاب پر مبنی ’’نقش‘‘ نکالا کرتے تھے۔

58ء میں ’’میرا رسالہ‘‘ کی ادارت نسیم صاحب کو سونپی گئی۔ اِس کام میں عبید اللہ علیم، نعیم آروی، افسر آذر اور سمیع انور جیسے دوستوں نے بھی ہاتھ بٹایا۔ بعد میں نسیم درانی ہی نے ’’نقش‘‘ سنبھالا۔ شاہد احمد دہلوی کی وفات کے بعد ’’ساقی‘‘ کی دیکھ ریکھ کی۔ ان ہی دنوں معروف مصور، جمیل نقش سے دوستی ہوئی۔ ’’سیپ‘‘ کے سرورق اس دوستی کی جمالیاتی مثال۔ 83 شمارے، اور ایک کو چھوڑ کر سب کے ٹائٹل جمیل نقش کے موئے قلم کی جنبش کی دَین۔

63ء میں شروع ہونے والے اس پرچے کا بنیادی محرک کراچی کی ادبی تنظیم ’’بزم نوآموز مصنفین‘‘ کا اضطراب تھا۔ نوجوان لکھاری معتبر پرچوں کو تخلیقات ارسال کرتے، پر چھپنے کی نوبت ہی نہیں آتی کہ وہاں جید ادیبوں کا انبوہ۔ ایسے میں نسیم درانی نے، جو ابھی چوبیس برس کے تھے، ’’سیپ‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی خواہش اپنی جگہ، مگر اندازہ تھا کہ بڑے لکھاریوں کے بغیر بات نہیں بنے گی۔

آگے کی کہانی دل چسپ ہے۔ پاک و ہند کے ادیبوں، شاعروں کو لکھے ابتدائی خطوط کا جواب آیا، تو اُنھیں محترم و مکرم کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا۔ جب شمارے میں اپنی تصویر شایع کی، تو مراسلوں میں برادرم کہہ کر مخاطب کیا جانے لگا۔ کرشن چندر کو بھی خط لکھا۔ جانتے تھے کہ لکھنا ہی ان کی یافت کا ذریعہ، سو افسانے کی درخواست کے ساتھ اشارتاً معاوضے کا بھی تذکرہ کر دیا۔

کچھ روز بعد افسانہ میز پر۔ ساتھ ہی خط۔ کرشن چندر نے لکھا: ’’نوجوان مدیر سے معاوضہ لینا مجھے گوارا نہیں۔‘‘ عصمت چغتائی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ وہ بلامعاوضہ نہیں لکھتی تھیں، مگر ’’سیپ‘‘ میں شایع ہونے والے اپنے افسانوں کا کبھی معاوضہ نہیں لیا۔ لاہور میں خدیجہ مستور سے افسانے کی درخواست کی۔ انھوں نے کہا؛ سردست کوئی افسانہ نہیں۔ لالا (احمد ندیم قاسمی) آ رہے ہیں، اُن کے ہاتھ کراچی بھجوا دوں گی۔ جب نسیم صاحب نے کہا؛ میں آپ کی کچھ خدمت کرنا چاہتا ہوں، تو وہ ناراض ہو گئیں۔ اِنھیں معذرت کرنی پڑی۔

’’سیپ‘‘ نے جلد ہی جگہ بنا لی۔ واہ واہ ہونے لگی۔ آنے والے برسوں میں تین یادگار ناولٹ نمبر، پانچ منفرد افسانہ نمبر شایع کیے۔ میر انیس پر پہلا خاص نمبر نسیم صاحب ہی نے نکالا۔ ’’سیپ‘‘ کے اثرات کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر ایم اے کے دس مقالے لکھے گئے۔ یہ پی ایچ ڈی تھیسس کا موضوع بنا۔ دور حاضر کے کئی بڑے قلم کاروں نے اپنا سفر ’’سیپ‘‘ سے شروع کیا۔ فہرست میں رشید امجد، سلیم اختر، منشا یاد، سمیع آہوجہ، مظہر الاسلام، افسر آذر جیسے نام شامل۔ پروین شاکر کی ابتدائی شاعری بھی ’’سیپ‘‘ میں شایع ہوئی۔ گروہ بندیوں سے لاتعلق رہنے والا یہ پرچہ آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔

سرکاری پابندی کے وار تو سہہ لیے، مگر بدلتے رجحانات نے منفی اثرات مرتب کیے۔ اب اس کی اشاعت ’’منشا وار‘‘ ہے۔ یعنی جب منشا ہوتی ہے، نکال لیتے ہیں۔ نسیم صاحب پاکستان رائٹرز گلڈ سے بھی وابستہ رہے۔ 95ء تا 2008ء وہ مرکزی سیکریٹری جنرل تھے۔ یہ تجربہ زیادہ خوش گوار نہیں رہا۔ شکایت ہے کہ ناشروں کے استحصال کے خلاف بننے والی یہ تنظیم اپنا کردار ادا نہیں کر سکی۔

ارے یاد آیا، انھوں نے افسانے بھی تو کئی لکھے۔ ’’ٹھوکر گلی‘‘ کے زیر عنوان مجموعہ تیار کیا۔ ’’سیپ‘‘ میں متعدد بار اشتہار شایع ہوا، مگر وہ کبھی منظرعام پر نہیں آ سکا۔ اب ارادہ بھی نہیں۔ یہ امر بھی دل چسپ ہے کہ نصف صدی میں ’’سیپ‘‘ میں اُن کے فقط دو افسانے شایع ہوئے۔

نسیم صاحب سے جب کبھی ملاقات ہوئی، ہمارے زرخیز ماضی کی حسین جھلکیاں آنکھوں کے سامنے پھول کے مانند کھل اٹھیں۔ ان افراد کا تذکرہ آیا، جو ادیب بھی اعلیٰ، انسان بھی عمدہ۔ پر قلم کار قبیلے کے چند تاریک گوشے بھی عیاں ہوئے۔ اُن مرحوم تخلیق کاروں سے سامنا ہوا، جو اپنے ناولوں پر خود مضامین لکھتے، اور کسی نووارد کے نام سے چھپوا دیتے۔ ایک قدآور مترجم، جو کبھی ادبی نشستوں میں کرشن چندر کے افسانے بلاخوف و خطر پڑھ دیا کرتے تھے۔

وہ عملیت پسند دانش وَر، جو لکھتے خود، اور چھپواتے اپنے بچوں کے نام سے کہ کل اُنھیں گدی سونپ سکیں۔ وہ نقاد، جو فلیپ لکھنے کا معاوضہ لیتے۔ اُن ادیب نما ناشروں پر بھی بات ہوئی، جنھوں نے استحصال کی داستانیں رقم کیں۔ وہ ادبی ادارے زیر بحث آئے، جہاں من پسند افراد کو نوازا گیا۔ خیر، اِس تذکرہ کو رہنے دیتے ہیں۔ سیاست دانوں، حکمرانوں کے جرائم کی نشان دہی تک تو ٹھیک ہے، مگر قلم کاروں کی لغزشوں کے تذکرے کا ہمارے ہاں زیادہ رواج نہیں۔

آخری بار نسیم صاحب سے ملے، تو ’’سیپ‘‘ کے مستقبل پر بات ہوئی۔ کہنے لگے: ’’ادبی جریدے کی روایت ہے کہ وہ مدیر کی زندگی کے ساتھ چلتا ہے۔ ’ساقی‘، ’فنون‘ اور ’افکار‘ کی مثال سامنے ہے۔ ’سیپ‘ کا بھی یہ ہی معاملہ ہو گا۔‘‘

اگر یہی ہونا طے ہے، تو ہم دعا گو ہیں کہ خدا نسیم درانی کو زندگی دے کہ ’’سیپ‘‘ فقط ایک ادبی جریدہ نہیں، یہ تو تہذیب و فن کے تسلسل کا ترجمان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔