
یہ ایک گم راہ کن بات ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام دین رحمت ہے، اس کا دامن ِمحبت و رحمت ساری انسانیت کو محیط ہے۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو سخت تاکید کی ہے کہ وہ دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ مساوات، ہم دردی، غم خواری و رواداری کا معاملہ کریں اور اسلامی نظامِ حکومت میں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی اور امتیاز کا برتاؤ نہ کیا جائے۔ ان کی جان، مال، عزت، آبرو، اموال اور جائیداد اور دیگر حقوق کی حفاظت کی جائے۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا،
ترجمہ :'' اﷲ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے، جو لڑے نہیں دین کے سلسلے میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے، کہ ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرو، بے شک اﷲ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔'' ۔
اس کی تشریح میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خود مسلمان تو نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں سے ضد رکھی، اور نہ ہی وہ دین کے معاملے میں ان سے لڑے، اور نہ ہی وہ مسلمانوں کو ستانے اور نکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے، اس طرح کے غیرمسلموں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے سے اسلام نہیں روکتا، جب وہ تمہارے ساتھ نرمی، خوش اخلاقی اور رواداری سے پیش آتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو بتادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے۔ اسلام کی تعلیمات یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں کی کوئی ایک جماعت مسلمانوں برسرپیکار ہے تو تمام غیر مسلموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں، ایسا کرنا حکمت و انصاف کے خلاف ہوگا۔ دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ مشترکہ سماجی، ملکی مسائل و معاملات، جن میں شرعی نقطۂ نظر سے اشتراک و تعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو، ان میں ساتھ دینا چاہیے۔
دیگر مذاہب اور اقوام کے لوگ اگر مسلمانوں سے سخت دشمنی اور سخت عداوت بھی رکھتے ہوں تب بھی اسلام نے ان کے ساتھ رواداری کی تعلیم دی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا
ترجمہ:'' بدی کا بدلہ نیکی سے دو، پھر جس شخص کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تمہارا گرم جوش حامی بن جائے گا''۔
٭آپﷺ کا کفارِ مکہ کے ساتھ حسنِ سلوک
وہ کون سا ظلم تھا، جو کفار و مشرکین نے مکہ مکرمہ میں سرکار دو عالم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے ساتھ روا نہ رکھا ہو۔ آپ ﷺ کو (نعوذباﷲ) جادوگر، شاعر اور کاہن کہا گیا، آپ ﷺ کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپ ﷺ پر پتھروں کی بارش کی گئی، آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ ﷺ پر نماز کی حالت میں اوجھ رکھ دی گئی، آپﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے گئے، تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ ﷺ کو محصور رکھا گیا، جس میں ببول کے پتے کھا کر گزارا کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ ﷺ کو سخت اذیت پہنچائی گئی، لوگوں نے آپ ﷺ کو گالیاں دیں اور اتنا تشدد کیا کہ آپ ﷺ کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہو گئے، آپ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا، آپ ﷺ مدینہ شریف گئے تو وہاں بھی آپ کو سکون و اطمینان سے رہنے نہیں دیا گیا اور ہر طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں۔ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی اور انہیں یہ خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا۔ لیکن سرکارِ دو عالم ﷺ نے انہیں مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:'' اے قریشیو! تمہیں کیا توقع ہے کہ اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ کفار نے جواب دیا: ہم آپ سے اچھی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا '' میں تم سے وہی کہتا ہوں جو حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔''
کیا انسانی تاریخ اس طرح کے رحم و کرم کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے۔۔۔؟
٭آپﷺ کا یہودیوں کے ساتھ حسنِ سلوک
یہودیوں کے مختلف قبائل مدینہ طیبہ میں آباد تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے مدینہ طیبہ ہجرت فرمانے کے بعد، ابتداََ یہود غیر جانب دار اور خاموش رہے لیکن اس کے بعد وہ اسلام اور نبی رحمت ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف اپنی عداوتوں اور نفرتوں کو زیادہ دن تک نہ چھپاسکے ۔ انہوں نے سرکار دو عالم ﷺ اور مسلمانوں کو نقصان اور تکلیف پہچانے کی ہرممکن کوشش کی اور خفیہ سازشیں بھی کیں، بغاوت کے منصوبے بھی بنائے، آپ ﷺ کو کھانے میں زہر ملاکر دیا، آپ ﷺ کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں کو تکلیف پہچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس کی ایک وجہ یہودیوں میں حسد، تنگ دلی اور جمود و تعصب کا پایا جانا تھا۔ دوسرے ان کے عقائد باطلہ اور اخلاق رزیلہ اور گندی سرشت تھی۔ لیکن آپ ﷺ نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سرکار دو عالم ﷺ نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کریں اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں
1، تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انہیں حاصل تھے۔
2، مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔
3، اگر کوئی مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بشرط منظوری ورثا سے خون بہا لیا جائے۔
4، باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہو، اس کے اہل و عیال سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
5، یہودی اور مسلمانوں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
6، کوئی فریق اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔
7، مظلوموں اور ستم رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو، مدد کی جائے گی۔
8، یہود پر جو بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازم ہوگی۔
9، یہودیوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
10، مسلمانوں میں سے جو شخص ظلم و زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزا دیں گے۔
11، یہودیوں اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئے گا تو اس کا فیصلہ رسول اﷲ ﷺ کریں گے۔
12، یہ عہد نامہ کبھی کسی ظالم یا خطاکار کی جانب داری نہیں کرے گا۔
آپ ان شقوں کو بغور پڑھیں۔ اس معاہدے میں کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے ہیں۔
سرکار دو عالم ﷺ اس معاہدے کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے، لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی مدد کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ خلاف رہے۔
آپﷺ کا عیسائیوں کے ساتھ حسنِ سلوک
عیسائیوں کے ساتھ بھی حضور اکرم ﷺ نے مثالی رواداری برتی، نجران کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹہرایا۔ عیسائیوں کی ساتھ اس موقع پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا۔ معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں۔
1 ، ان کی جان محفوظ رہے گی۔
2، ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہیں کی جائے گی، مذہبی عہدے دار اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
3، ان کی زمین، جائیداد اور مال وغیرہ انہی کے قبضے میں رہے گا۔
4، ان کی کسی چیز پر قبضہ نہیں کیا جائے گا۔
5، ان کے ملک میں فوج کو نہیں بھیجا جائے گا۔
6، انہیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
7، ان کے معاملات اور مقدمات میں پورا انصاف کیا جائے گا۔
8، ان پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔
9، ان سے فوجی خدمات نہیں لی جائیں گی۔
10، پیداوار کا عشر نہیں لیا جائے گا۔
11، سود خوری کی اجازت نہیں ہوگی۔
12، کسی کو ناکردہ گناہ اور کسی مجرم کے بدلے میں نہیں پکڑا جائے گا۔
13، کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔
جو حقوق اسلام نے غیر مسلموں کو دیے ہیں ان کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ جو غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہیں، ان کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی پناہ میں ہیں۔ اسی لیے ان کو ذمّی کہا جاتا ہے، جو غیر مسلم (ذمی) مسلمانوں کی ذمے داری میں ہیں، ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہو تو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔
٭آپﷺ کا منافقین کے ساتھ حسنِ سلوک
مدینہ منورہ کے منافقین مسلمانوں کے ساتھ سخت کینہ اور بغض رکھتے تھے اور ان کا سربراہ ایک بااثر شخص عبد اﷲ بن ابی بن سلول تھا۔ حضور ﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے لوگ اس کو حکم ران بنانے کی تیاری کر رہے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی ہجرت کے بعد اس کی آرزو خاک میں مل گئی اور وہ خود کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود منافق ہی رہا۔ منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تمام تر کوششیں کیں، آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیں، کافروں اور یہودیوں سے مل کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے تیار کیے۔ ان سب شرارتوں، حرکتوں اور عداوتوں کے باوجود حضور ﷺ اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ بھی حسنِ اخلاق اور رواداری ہی کا معاملہ فرمایا اور جب عبداﷲ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کی نماز ِجنازہ بھی آپ ﷺ نے پڑھائی اور عبداﷲ بن ابی کے بیٹے کی درخواست پر اپنا جبہ مبارک اس کے کفن کے لیے مرحمت فرمایا۔
اسلام کا قانون ہے کہ جو شخص اس غیر مسلم کو قتل کرے گا جس سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ وہ جنّت کی خوش بو بھی نہیں سونگھ پائے گا۔ اﷲ رب العالمین نے جہاد کی اجازت بھی مشروط اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے دی ہے۔
٭ اسلام میں وطن سے محبت
یہ حقیقت ہے کہ جس زمین سے آدمی کا خمیر اٹھا ہو، جہاں وہ پیدا ہوا اور زندگی بسر کررہا ہو، اس سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔ اسی لیے عربی کا مقولہ ہے، انسان کی پیدائشی سرزمین اس کی دودھ پلانے والی ماں ہے۔ وطن سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ جب ہجرت فرمانے لگے تو فرمایا: اے مکہ! تُو خدا کا شہر ہے، تُو مجھے کس قدر محبوب ہے، اے کاش! تیرے باشندے مجھے نکالنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تجھ کو نہ چھوڑتا۔
جب سرکار دو عالم ﷺ نے مدینہ منورہ کو وطن بنالیا تو بارگاہ رب میں دعا فرمایا کرتے تھے: اے اﷲ! ہمارے اندر مدینے کی اتنی محبت پیدا کردے، جتنی تو نے مکہ کی محبت دی ہے، اے اﷲ! مدینے کی آب و ہوا درست فرمادے اور اس میں برکتیں عطا فرما۔
اس حدیث مبارکہ سے وطن عزیز کی محبت کا بخوبی پتہ چلتا ہے
٭اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے
دہشت گردی کسی بھی انسانی معاشرے میں جنم لے سکتی ہے۔ اس کا کوئی دین، مذہب، ملت اور وطن نہیں ہوتا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کہیں اپنے ملک و ملت، رنگ و نسل، قوم، قبیلے اور زبان و ثقافت کی برتری کا خود ساختہ تصور انسان کو دیگر اقوام کے خلاف دہشت گردی پر اُکساتا رہا، اور کہیں اپنے عقائد و ادیان اور افکار و نظریات کو دوسروں پر بہ زور مسلط کر نے کا جنون اس کا باعث بنتا رہا۔ اسلام نے انسانوں کے باہمی حقوق و فرائض کا ایک جامع نظام اسی لیے وضع کیا ہے تاکہ انسان اپنے جذبات سے مغلوب ہوکر ان حقوق و فرائض کی بجا آوری میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہ ہو اور بے انصافی و بے اعتدالی کی راہ پر نہ چل پڑے۔ اسلامی تعلیمات اپنے حقوق کے حصول کے لیے استحصالی قوتوں سے نبردآزما مسلمانوں کو بھی اپنی جدوجہد انسانیت کی حدود کے اندر رکھنے کا پابند بناتی ہے اور انہیں یہ اجازت ہرگز نہیں دیتی کہ وہ شرعی جدوجہد میں بھی معصوم اور نہتے لوگوں کی جانیں لیں، دہشت گردی کریں، عوام کی املاک کو نقصان پہنچائیں اور ان میں خوف و ہراس پھیلا کر اﷲ کی کائنات میں فتنہ فساد اور تباہی و بربادی کا موجب بنیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے '' اور زمین پر فساد مت پھیلاؤ ، بے شک اﷲ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
اسلام کسی ایک شخص کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے اور کسی ایک شخص کی ہلاکت کو پوری انسانیت کی ہلاکت سے تشبیہ دے کر ایک طرف احترام انسانیت، تحفظ انسانیت ِاور بقائے انسانیت کے ضمن میں اپنی تعلیمات پیش کرتا ہے تو دوسری طرف انسانوں کے باہمی معاملات میں کسی بھی طرح کی انسانیت کش سوچ اور سفاکانہ رویے کو انتہائی واضح الفاظ میں مسترد کرتا ہے۔