- محمود خان اچکزئی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل
- پنجاب میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اموات 26 تک پہنچ گئیں
- عوامی ردعمل پر شکار پور سے کراچی بھیجے گئے پولیس اہلکاروں کو شوکاز نوٹس جاری
- لاہور میں فائرنگ کے واقعات میں سب انسپکٹر سمیت تین شہری جاں بحق
- کراچی میں ڈکیتی مزاحمت پر سیکیورٹی گارڈ جاں بحق، سال 2024 میں اب تک 67 شہری قتل
- پانچواں ٹی 20: پاکستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دیکر سیریز برابر کردی
- یوراج سنگھ نے ٹی 20 ورلڈ کپ کی سیمی فائنلسٹ ٹیموں کی پیش گوئی کردی
- سیکیورٹی فورسز کی ہرنائی میں بروقت کارروائی، ایک دہشت گرد ہلاک
- بھارت؛ منی پور میں مبینہ علیحدگی پسندوں کے حملے میں دو سیکیورٹی اہلکار ہلاک
- پی ٹی آئی میں اختلافات، شبلی فراز اور شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے
- بابر اعظم نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- بابر اعظم نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی کی فیکلٹی انفارمیشن اینڈ کمپیوٹنگ کی گلبرگ ٹاؤن منتقلی کیلئے معاہدہ
- ججز کو کسی کا اثر رسوخ لینے کے بجائے قانون پر چلنا چاہئے، جسٹس اطہر من اللہ
- امیر خسروؒ کا عرس: بھارت میں پاکستانی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک
- جنگ بندی کی تجویز پر اسرائیل کا جواب موصول ہوگیا ہے، حماس
- فواد چودھری کی پی ٹی آئی میں واپسی کا امکان
- اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات، پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد
- سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر کے گاڑی نذر آتش کردی
- سبزیجاتی اشیاء پر انتباہ کو واضح درج کرنے پر زور
غیرقانونی تارکین کیلیے پاکستانی پاسپورٹ کا حصول آسان ہوگیا
کراچی: مقامی حکومتوں، نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے مابین تعاون کے فقدان اور متصادم محکمہ جاتی قوانین کے سبب غیرقانونی تارکین وطن کیلیے پاکستان جنت بن گیا ہے۔
ہزاروں تارکین وطن ہر سال صرف چند ہزار روپے کے عوض باآسانی پاکستانی شہریت اور سفری دستاویزات حاصل کرتے ہیں، اداروں میں تعینات کرپٹ افسران اور عملہ محکمہ جاتی قوانین کا سہارا لے کر ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
فارن ایکٹ کے تحت درجنوں مقدمات ذمے داروں کا تعین نہ کیے جانے کے سبب کئی سال سے التوا کا شکار ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال بنگلہ دیش، ایران، برما اور افغانستان کے شہری ہزاروں کی تعداد میں غیرقانونی طور پر پاکستانی شہریت اور سفری دستاویزات حاصل کرتے ہیں اور ان دستاویزات کی بنیاد پر وہ نہ صرف پاکستان میں سکونت اختیار کرلیتے ہیں بلکہ پاکستانی پاسپورٹ کی بنیاد پر بڑی تعداد میں غیرقانونی تارکین وطن ایمپلائمنٹ اور وزٹ ویزوں پر بیرون ملک جانے میںبھی کامیاب ہوجاتے ہیں اور وہاں غیرقانونی سرگرمیوںمیں ملوث ہوکر پاکستان کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کے سربراہ اشفاق عالم خان نے بتایا کہ ان کے سرکل میں فارن ایکٹ کے درجنوں مقدمات کئی سال سے التوا کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ متعلقہ اداروں کی جانب سے تفتیش میں تعاون نہ کیا جانا اور غیرقانونی دستاویزات کی تیاری کا سارا ملبہ دوسرے اداروں پر ڈالنا ہے۔ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ محکمہ جاتی مروجہ قوانین کے مطابق پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ ہر اس شہری کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کرنے کا پابند ہے جس کے پاس پاکستانی شہریت یا قومی شناختی کارڈ موجود ہے، نادرا کے متعلقہ افسران یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کے مروجہ محکمہ جاتی قوانین کے مطابق وہ ہر اس شخص کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے پابند ہیں جس کے پاس یونین کونسل کی جانب سے جاری کردہ پیدائشی سرٹیفیکیٹ اور دیگر دستاویزات موجود ہوں اور شناختی کارڈ اسی وقت جاری کیا جاتا ہے جب کوئی بھی گزیٹڈ سرکاری افسر اس کے فارم کی تصدیق کرتا ہے۔
ایف آئی اے حکام جب یونین کونسل اور فارم کی تصدیق کرنے والے افسر سے رجوع کرتے ہیں تواکثر اوقات تصدیق کرنے والا افسر اس شخص کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے اور یونین کونسل کے نچلے درجے کے ملازمین پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ اور نادرا کی طرز پر حیلے بہانے اختیار کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ نادرا اور پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈپارٹمنٹ سے متعلق بڑی تعداد میں شہری یہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول میں انھیں بلا ضرورت تنگ کیا جاتا ہے اور بلاجواز اعتراضات لگا کر شہریوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ایجنٹوں کی مدد سے اپنی درخواست جمع کرائیں۔ دوسری جانب یہ ادارے غیرقانی تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو باآسانی پاکستانی شہریت اورسفری دستاویزات فراہم کردیتے ہیں جو انتہائی حیران کن امر ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔