دل خون کے آنسو روتا ہے

محمد رضوان  پير 30 مارچ 2015
افسوس تو یہ ہے کہ عامر خان کو بھی بچوں کے بچپن کا خیال تب آیا جب وہ خود پچپن کے قریب ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس ٹریبون

افسوس تو یہ ہے کہ عامر خان کو بھی بچوں کے بچپن کا خیال تب آیا جب وہ خود پچپن کے قریب ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس ٹریبون

فلم ایک ایسی دنیا ہے جس میں انسان تصوراتی دنیا کی وسعتوں کو چھوتا ہے، خواہ وہ رومانوی خیالات کا اظہار ہو یا پھر کسی اور سیارے کی مخلوقوں کے بارے میں قیاس آرائی ہو۔

فلمی دنیا میں آگے بڑھنے کی کوئی حد مقرر نہیں۔ لیکن جہاں ایک طرف فلموں کے ذریعے انسان نے اپنے خوشنما احساسات کو حقیقت کا رنگ دیا، وہیں دوسری طرف تزین و آرائش کی آڑ میں انسان فحاشی کی راہ  پر گامزن ہو گیا، اور اب تو یہ حال ہے کہ انسان فیملی کے ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھ نہیں سکتا۔

اس بات کا اعتراف بالی ووڈ کے مشہور و معروف اداکار عامر خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ بالی ووڈ کی اکثر فلمیں بچوں کے دیکھنے کے قابل نہیں۔ عامر خان، جن کی بچوں کے بارے میں خصوصی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ کافی کامیاب ہوئی تھی، بالی ووڈ کے پہلے ہیرو ہیں جنہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا اور میں اس سلسلے میں عامر خان کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس اٹل حقیقت کو جاننے میں عامر خان نے زیادہ دیر نہیں کردی؟

بالی ووڈ میں ماضی قریب میں معنی خیز فلموں میں کام کے لئے مانے جانے والے عامر خان پچھلے 30 سالوں سے فلموں میں کام کر رہے ہیں، لیکن ان کو بچوں کے بچپن کا خیال تب آیا جب وہ خود پچپن کے قریب ہیں۔

اسی مہینے اپنی پچاسویں سالگرہ منانے والے عامر خان  کی حالیہ فلم ’’پی کے‘‘ نے کامیابیوں کی بلندیاں چھوئیں، جس کی وجہ فلم میں مذاہب کی خامیوں پر مزاح کی صورت میں تنقید تھی لیکن کیا عامر خان یہ بتاسکتے ہیں کہ فلم کی ابتداء میں انکا برہنہ دکھائے جانے والا سین یا  ڈانسنگ کار کا سین بچوں کے ساتھ دیکھنے کے قابل تھا؟

بالی ووڈ فلموں کے ائٹم نمبر ہوں، بیہودہ زبان کا استعمال ہو یا بولڈ سین، بچے تو دور کی بات ایک شریف انسان بھی ایسی فلمیں دیکھنا گوارہ نہیں سمجھے گا۔ لیکن افسوس اس بات کا نہیں کہ بالی ووڈ میں یہ سب کچھ ہورہا ہے، افسوس اس بات کا ہے اب اس سب کے بغیر فلم کو ناممکن سمجھا جارہا ہے اور ان سب کو فلم کی کامیابی کے لیے کلیدی جز کا درجہ دیا جارہا ہے۔ حالانکہ اسی فلم انڈسٹری کو بامقصد فلمیں بنانے میں استعمال کرکے معاشرے سے کئی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ ٹیلی ویژن اور سلور اسکرین ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے انسانی سوچ وفکر کو کسی بھی ڈھال میں ڈھالا جاسکتا ہے خواہ وہ جرائم کے خلاف ذہن سازی ہو یا پھر کسی ملک  کے خلاف جذبات کو بھڑکانا ہو۔

فلم دیکھنے  کے شوقین افراد کو آپ جو بھی چیز دکھائیں گے وہ اسے فیشن سمجھ کر پسند کرنے لگ جائیں گے، لیکن اس کے اثرات کی ذمہ داری تو عامر خان جیسے بڑے اداکاروں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے ماضی میں ہر قسم کی فلم، ہر قسم کے سین کے لئے حامی بھری۔ حال ہی میں ہندوستان میں زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات بھارتی سینسر بورڈ کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے، کہ کیا وہ اس کلچر کو عام کرنے میں کردار تو ادا نہیں کررہے؟ کیا معاشرے میں عریانی اور عریانیت کے حصول کے لئے کیے جانے والےجرائم عریانی کو فروغ دینے والے بالی ووڈ کے سبب تو نہیں؟

دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی ووڈ کو ہی دیکھ لیں وہاں کی بہترین فلموں میں تو کوئی آئٹم نمبر نہیں ہوتا؟ لیکن پھر بھی  وہ مقبول ہو جاتی ہیں۔ ’’تارے زمین پر‘‘ جیسی فلمیں بالی ووڈ میں اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں اور اس کا انجام یہ ہے کہ آج کل کی فلمیں دیکھنے کے بعد تو بچوں کی معصومیت کا جنازہ تو نکل ہی جاتا ہے اور ساتھ ہی ان کا نا پختہ ذہن معاشرے کے منفی پہلوؤں پر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ جہاں بھارتی ہیروز اپنے بالی ووڈ کے منفی کردار پر فکر مند ہیں، وہیں پاکستان کے اکثر چینلز اسی بالی ووڈ کے گن گانے میں مصروف ہیں۔ بالی ووڈ کی خبریں دیتے ہوئے نیوز اینکرز کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیا ان کو احساس نہیں کہ یہ لوگ ایک ایسے کینسر کی تشہیر کر رہے ہیں  جو ہماری آنے والی نسلوں ادب، اخلاق، تہذیب و تمدن سب کچھ ختم کردے گا، مگر کون ہے جو یہ سوچے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فلم کی کامیابی کے لیے آئٹم سانگ اور فحش مناظر ضروری ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔