آسان نسخہ

شہلا اعجاز  بدھ 1 اپريل 2015
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

وہ پچھتر سے اسی کے لگ بھگ کی نظر آ رہی تھی، کمزور ناتواں جسم، سفید اور سرمئی بال کاٹن کے بڑے سے دوپٹے سے اچھی طرح ڈھانپنے کی کوشش کی گئی تھی۔

شکن آلود کپڑے، چہرے پر افسردگی اور کچھ سختی بھی نمایاں تھی، خاموش چپ چاپ اپنی سیٹ پر پیر سمیٹے بیٹھی تھی، ٹرین دھیمے دھیمے ہچکولے لیتی آگے بڑھ رہی تھی، شام کی خوبصورت سی خنکی اب رات کے ساتھ ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھی، فضا میں افسردگی سی شامل تھی، خاتون اپنے اندر ہی کہیں گم تھی، کچھ دیر ہی گزری کہ اس نے اپنا سامان کھولنا شروع کیا جیسے کوئی بہت ضروری چیز کی تلاش ہو اور تھوڑی ہی دیر میں اسے وہ ضروری چیز مل گئی ۔

جسے اس نے پھرتی سے اپنی ضعیف کمزور انگلیوں میں داب لیا، لیکن جب کچھ دیر میں ہی اس کی انگلیوں میں دبی ماچس کی تیلی سے شعلہ سا لپکا اور سگریٹ کا سرا سرخ ہوا تو لمحہ بھر کو وہ خاصی پر اسرار سی نظر آئی اور دوسرے ہی لمحے دھوئیں کے مرغولے میں اس کے کمزور چہرہ اضطراب و حجاب کی تصویر بنا ابھرا جیسے اسے سگریٹ کا کش لینے میں نہایت عجلت ہو اس عمر کی خاتون کے ہونٹوں میں دبی سگریٹ کا تاثر نہایت عجیب تھا اس کے چہرے پر ایک مسرور کن طمانیت در آئی تھی۔

اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو رہی تھیں وہ پہلی بار اتنی بزرگ خاتون خاص کر مشرقی خاتون کو یوں کھلے عام سگریٹ کے کش لگاتے دیکھ رہی تھی، آخر اس سے رہا نہ گیا وہ خاتون سگریٹ کا دم لگانے کے بعد دوبارہ سیٹ سے سر لگائے آنکھیں موندے غالباً سونے کی کوشش میں مصروف تھی۔ ’’اماں جی! ایک بات کہوں آپ برا تو نہیں مانیں گی۔‘‘

اس نے بزرگ خاتون کے شانے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے پوچھا، بزرگ خاتون نے ذرا حیران ہو کر اس کی جانب دیکھا پھر دھیمے سے مسکرا دی۔ ’’آپ سگریٹ کیوں پیتی ہیں؟‘‘

میرے پیٹ میں درد سا ہوتا ہے ناں اس لیے۔ میرے بھائی کا بیٹا فوت ہو گیا ہے، جوان کاکا، اس کی فوتگی میں گئی تھی مجھے بہت غم ہے اس بچے کا۔ دل بڑا دکھی ہے میرا۔ انھوں نے اپنے چہرے پر دنیا جہاں کا دکھ سمیٹنے کی کوشش کی تھی۔

وہ تو ٹھیک ہے اماں جی! یہ تو ہم سب انسانوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے اماں جی! آج زندہ ہیں کل کا کیا پتہ، زندگی تو ایسے ہی ہوتی ہے، یہ تو پروردگار کی طرف سے ایک نعمت ہے۔

اس طرح سگریٹ پینے سے تو غم کم نہیں ہو جاتا ناں، اس کا سوال ہنوز برقرار رکھا ’’دراصل پہلے میں حقہ پیا کرتی تھی، اس کی عادت پڑ گئی تھی تو اب اگر حقہ نہ ہوں تو طبیعت خراب ہو جاتی ہے اس لیے حقے کی جگہ سگریٹ پینے لگتی ہوں‘‘

یہ ان کا دوسرا جواز تھا، آپ نے حقہ پینا کیوں شروع کیا، حلقے میں تو تمباکو ڈالتے ہیں۔ یہ تو نشہ ہوا ناں اماں جی! آپ نے نشے کی عادت کیوں اختیار کی، ہمارے یہاں خواتین کہاں کرتی ہیں یہ سب؟

’’میں نے بتایا ناں، میرے پیٹ میں درد سا ہونے لگتا ہے اگر نہ پیوں، بیمار تھی ناں تو مجھے حقہ پینے کو کہا، تب سے میں پینے لگی اب اگر نہ پیوں تو درد ہونے لگتا ہے۔ اپھار سا اٹھتا ہے۔ ’’اماں معذرت کے ساتھ یہ سب عذر ہے، آپ اگر کہتی ہیں کہ اگر یہ نشہ نہ کروں تو پیٹ میں درد سا ہوتا ہے اپھار سا اٹھتا ہے دراصل یہ آپ کی سوچ ہے شیطان آپ کو احساس دلاتا ہے کہ حقہ پیو، سگریٹ پیو ورنہ تمہارے پیٹ میں درد ہو گا آپ ایک بار اس احساس سے نکل کر تو دیکھیں۔

ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، لڑنا گریبان پکڑنا آسان ہوتا ہے لیکن اپنے آپ سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اﷲ کے لیے ایک بار اپنے آپ سے لڑکر دیکھیں۔ نہیں کر سکتی تو اﷲ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی اس لڑائی میں مدد کرے۔ ایک بار اﷲ پر یقین کر کے تو دیکھیں۔ وہ مدد کرتے ہیں، جب انسان ان کی مدد نہیں چاہتا ہے۔ اب اگر انسان ہی برے دائرے سے نکلنا نہ چاہے نجات حاصل کرنا نہ چاہے تو پھر اﷲ کیسے مدد کر سکتا ہے۔

وہ خاصی دیر تک انھیں سمجھاتی رہی اور بزرگ خاتون جو پہلی بار اکیلے سفر کر رہی تھیں بڑی دلچسپی سے اس نوجوان لڑکی کی باتیں سنتی رہی، ٹرین چھوٹے چھوٹے اسٹیشن کراس کرتی حیدرآباد اسٹیشن پر رکھی، خاتون سر چادر میں چھپائے بیٹھی تھی، اسٹیشن پر مسافروں کا شور، سامان کی اتھل پتھل بھی ان کو ڈسٹرب نہ کر سکی۔

شاید وہ سو چکی تھی، ٹرین اپنے سفر پر پھر سے گامزن ہو گئی رات خاصی بیت چکی تھی، خاتون کسمسا کر اٹھیں انھیں پھر طلب محسوس ہو رہی تھی انھوں نے پھر اپنے سامان سے سگریٹ نکالی اور سلگا کر اپنے ہونٹوں تلے دبائی، سگریٹ کا دھواں ان کے دانتوں سے بھی عجیب انداز سے نکل رہا تھا نوجوان لڑکی کے دل سے ایک آہ سی نکلی۔ اس نے کوشش تو کی تھی لیکن بے سود، سامنے دور ایک اور بزرگ خاتون سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔

یہ کوئی افسانہ نہ تھا بلکہ حقیقت ہے ہمارے معاشرے میں بہت خوبیاں ہیں لیکن کچھ ایسی برائیاں بھی ہیں جو بظاہر ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتی لیکن در حقیقت وہ بہت بڑی برائی ہوتی ہے جس کی شاخ سے چھوٹی چھوٹی جڑیں ہمارے معاشرے میں ناسور بن کر پھیلتی ہیں، ہمارے دیہاتوں میں حقہ پینے کا رجحان پہلے کی نسبت اب ذرا کم ہے۔

حقے کی جگہ ماڈرن سگریٹ نے لے لی ہے اسے کچھ کچھ جدت کی جانب لے جائیں تو کم نشہ ہلکے پھلکے نشے سے چرس اور افیون کی جانب کا سفر کرتا ہے، یہ بری عادات ہمارے معاشرے کے کتنے خاندان برباد کر چکی ہیں، کتنی کہانیاں اب بھی سڑکوں کے کنارے، نالوں، کچروں کے ڈھیر پر اور ایسی ایسی جگہ سانس لے رہی ہیں جہاں سانس بھی لینے کا ہم تصور نہ کر سکیں، نشہ نشہ ہی ہے۔

یہ ہماری تہذیب و اقدار کا حصہ ہرگز نہیں ہے، پرانے زمانے میں حکما چلم میں بھر کر خاص قسم کی دوائیاں بھی پینے کا مشورہ دیتے تھے لیکن اس کا تعلق نشے سے نہیں بلکہ بیماری سے ہوتا تھا۔ دوسری اہم بات مذہب سے نا آشنائی، اکثر ہم بہت سے لوگوں کو بڑے جذب سے یہ کہتے دیکھتے ہیں ہم تو بہت گناہ گار ہیں جیسے یہ بہت بڑے مقام کی بات ہے یہ اقرار کر کے ہم در اصل اپنے آپ کو مطمئن کرتے ہیں اپنے نفس کو تھپک تھپک کر سلاتے ہیں کہ خیر ہے جی ہم تو ہیں ہی گناہ گار پھر اچھے اور نیک لوگ کہاں ہوتے ہیں، کیا وہ اس زمین پر نہیں بستے۔

ایک بری عادت سے چھٹکارا حاصل کر کے ہم کس کو نفع پہنچاتے ہیں، اپنے آپ کو، اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کو جو نہایت خوبصورت رشتوں سے آپ سے جڑے ہیں۔ اپنے ماحول کو اور اپنے پورے معاشرے کو اس طرح ہم اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں لیکن اس تمام عمل میں اپنے آپ سے لڑائی کو جتنا بہت اہم ہے۔

اس اچھے کام میں اگر آپ کا کوئی مددگار ہے تو وہ آپ کا پروردگار ہے اس کے لیے آپ کو دونوں ہاتھ پھیلا کر رب العزت سے مدد طلب کرنے کی ضرورت ہے یہ ایک نہایت آسان، پر اسرار لیکن خوبصورت عمل ہے بس آزمائش ضروری ہے اس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کے الفاظ کے اتار چڑھاؤ میں بہت جوش و جذبے کی نہیں بس سادگی سے دل کی صداقت بھی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔