آمریت کا جن

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 15 دسمبر 2012

یہ صدیوں پرانی بات ہے جاپان کے شہرکیوٹو میں ایک نہایت خطرناک جن آتا تھا جس کی وجہ سے پورے شہر کے لوگ خوف زدہ رہتے تھے، اسی زمانے میں کیوٹو ہی میں ایک جنرل رہتا تھا جس کا نام رائیکو تھا، اس نے کچھ ہی عرصے پہلے اوئیاما پر حملہ کرکے بڑا نام پیدا کیا تھا۔

اوئیاما میں جنوں کا ایک غول رہتا تھا، جنرل رائیکو نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر حملہ کیا، اس نے تمام جنوں کو ہلاک کردیا اور ان کے سربراہ کا سر کاٹ کر لے آیا، اس کارنامے کی وجہ سے اس کا نام دور دور تک بہادری کی وجہ سے مشہور ہوچکا تھا، ایک شام رائیکو اپنے پانچ ساتھیوں سمیت ایک دعوت میں بیٹھا تھا، اس کا ایک ساتھی جس کا نام ہوجو تھا کہنے لگا کیا تم نے سنا ہے کہ ہر شام سورج غروب ہونے کے بعد رشومن گیٹ کے پاس ایک آدم خور جن آتا ہے اور جو شخص بھی وہاں سے گزرتا ہے وہ اسے اپنا شکار بنالیتا ہے۔

جیسے ہی اس نے یہ کہا تو دوسرا ساتھی جس کا نام واتا نابے تھا، بولا ’’بے وقوفی کی باتیں مت کرو کیا تمھیں معلوم نہیں جنرل رائیکو نے تمام جنوں کو ہلاک کردیا تھا، اس لیے یہ بات ممکن نہیں ہوسکتی۔‘‘ ہوجو نے کہا ’’اگر یہ بات ہے تو میری بات سچ یا جھوٹ ثابت کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، تم خود وہاں جائو اور جا کر دیکھو کہ حقیقت کیا ہے۔‘‘ یہ سن کر واتا نابے  نے اپنی لمبی تلوار لی زرہ پہنی اور سر پر خود پہن کر کھڑا ہوگیا، جب وہ جانے لگا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا مجھے کوئی ایسی چیز دو جس سے میں یہ ثابت کرسکوں کہ میں وہاں گیا تھا، بعد میں تم لوگ یہ نہ کہوکہ میں وہاں پہنچا ہی نہیں تھا۔ اس کے اتنا کہنے پر اس کے ایک ساتھی نے کاغذ، روشنائی اور برش لیا پھر چاروں ساتھیوں نے اس کاغذ پر اپنے نام لکھے اور کہا یہ کاغذ رشومن گیٹ پر لگا دینا ہمیں یقین ہو جائے گا کہ تم وہاں گئے تھے۔

واتا نابے آخرکار سفر طے کر تا ہوا رشومن گیٹ کے پاس پہنچ گیا، اس نے وہاں اندھیرے میں ادھر ادھر جھانکنے کی کوشش کی لیکن اسے کسی جن کا نشان نہ ملا، پھر بھی اس نے وہ کاغذ گیٹ پر چسپاں کردیا اور پھر گھوڑے کا منہ اپنے گھر کی طرف پھیرا تاکہ واپس چلے مگر عین اس وقت اسے احساس ہوا کہ کوئی شخص اس کے پیچھے ہے جس نے بلند آواز میں کہا ’’ٹھہرو‘‘  اور کسی نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا۔ واتا نابے نے بڑی بے خوفی سے پوچھا تم کون ہو یہ کہہ کر اس نے اپنے ارد گرد اندھیرے میں ہاتھ گھمائے تاکہ معلوم کر ے کہ کس نے اس کو پکڑا ہے جب اس نے ایسا کیا تو اس کے ہاتھ کو کوئی چیز چھوئی، یہ کسی کی کلائی تھی جس پر گھنے بال تھے، واتا نابے کوفوراً اندازہ ہوگیا کہ یہ جن کی کلائی ہے، لہٰذا اس نے جلدی سے اپنی تلوار نکالی اور بجلی کی سی تیزی سے وار کرکے کلائی کاٹ دی۔ کلائی کا کٹنا تھا کہ جن نے درد و کرب سے چیخنا چلانا شروع کردیا۔

وہ بلند اور خوفناک آواز میں چینختا ہوا واتا نابے کے سامنے آگیا اور جیسے ہی اس نے جن کو دیکھا اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جن اس بلند و بالا گیٹ سے بھی اونچا تھا، اس کی آنکھیں اندھیرے میں یوں چمک رہی تھیں جیسے سورج کی روشنی میں آئینہ چمکتا ہے، جن کا خیال تھا کہ اس طرح اس کا دشمن خوف زدہ ہو جائے گا مگر واتا نابے نہ تو ڈرا اور نہ ہی اپنی جگہ سے ایک قدم پیچھے ہٹا بلکہ اس نے اپنی پوری طاقت سے جن پر حملہ کر دیا۔ جن نے اندازہ کیا کہ واتا نابے کو نہ تو خوف زدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے شکست دی جاسکتی ہے، یہی سوچ کر اس نے فرار ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ جن کے بھاگنے کے بعد اس نے جن کی کٹی ہوئی کلائی اٹھائی اور اسے اپنی فتح کی نشانی کے طور پر ساتھ لے کر واپس چل دیا۔

جن کی کلائی دیکھ کر اس کے ساتھیوں نے واتا نابے کو اپنا ہیرو تسلیم کرلیا۔ کیوٹو شہر اور اس کے اردگرد کے لوگ جوق در جوق اس کے پاس آنے لگے تاکہ جن کی کلائی دیکھ سکیں۔ چنانچہ اس نے لکڑی کا ایک مضبوط صندوق تیارکیا اور اس پر لوہے کی پتریاں لگا کر اس کی مضبوطی کو یقینی بنایا پھر جن کی کلائی اس میں بند کر  کے سیل لگا دی تاکہ کوئی کھول نہ سکے ۔ ایک رات واتا نابے اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا کسی نے گھر کے دروازے پر دستک دی، اس نے اپنے ملازم سے کہا دیکھو باہر کون ہے؟ ملازم نے جب دروازہ کھولا تو باہر ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی ملازم نے بڑے ادب سے پوچھا آپ کو کس سے ملنا ہے؟ جواب میں اس نے کہا میں تمھارے مالک سے ملنا چاہتی ہوں، جب وہ چھوٹا تھا تو میں اس کی نرس تھی۔ ملازم سنتے ہی بھا گا بھا گا گیا اور اپنے آقا سے کہا آپ کے بچپن کی نرس آئی ہے اور اندر آنے کی اجازت طلب کر رہی ہے۔

واتا نابے نے اس سے کہا جائو اسے اندر لے آئو۔ چند ہی لمحوں کے بعد بڑھیا اس کے سامنے کھڑی تھی، بیٹھنے اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے کہا کہ آپ نے جو جن سے بہادرانہ جنگ لڑی ہے اس کی بچہ بچہ تعریف کر رہا ہے، کیا واقعی آپ نے جن کی کلائی کاٹ دی ہے؟ واتا نابے نے جواب میں کہا مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں جن کو گرفتار نہ کرسکا، صرف اس کی ایک کلائی کاٹنے میں کامیاب ہوسکا ہوں۔ بڑھیا نے اس کے جواب میں کہا میری یہ انتہائی تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار وہ کلائی میں دیکھوں۔ وہ اسے اس خاص کمرے میں لے گیا جہاں ایک کونے میں وہ صندوق رکھا تھا جس میں کلائی بند تھی۔ واتا نابے نے صندوق کا ڈھکنا کھولا اور بڑھیا سے کہا میرے قریب آئو اور کلائی دیکھ لو میں اسے صندوق سے باہر نہیں نکال سکتا۔

اوہ یہ کیسی ہے ذرا مجھے قریب سے دیکھنے دو بڑھیا نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اور اسی کے ساتھ ہی وہ صندوق کی طرف بڑھنے لگی، اس کے چہرے پر انتہائی خوشی جھلک رہی تھی، وہ کھلے ہوئے صندوق کے بالکل پاس جا کر کھڑی ہوگئی پھر یکایک اس نے صندوق میں ہاتھ ڈال کر کلائی باہر نکال لی اور خوفناک بلند آواز میں چیخنے لگی مجھے اپنی کلائی مل گئی مجھے اپنی کلائی مل گئی۔ اس کے ساتھ ہی پلک جھپکتے میں وہ بڑھیا خوفناک جن کا روپ دھار گئی تھی۔ واتا نابے ہکا بکا کھڑا دیکھ رہا تھا، جیسے اس میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی ہو، اس کے سامنے رشومن گیٹ کا وہی جن کھڑا تھا۔ یکایک جن چھت کی طرف اچھلا اور چھت پھاڑ کر اوپر نکل گیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ دھند اور بادلوں میں غائب ہو چکا تھا۔

کیوٹو کی طرح پاکستان پر بھی 35 سال تک آمریت کا جن مسلط رہا اس جن نے ملک کے اداروں اور عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا لیکن اس جن کا پاکستان کے عوام نے واتا نابے کی طرح بڑی دلیری، جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور جمہوریت کی طرف اپنا سفر جاری رکھا، اس سفر میں انھوں نے کوڑے برداشت کیے، جیلوں کی سختیاں جھیلیں، پھانسی چڑھ گئے لیکن ہمت نہیں ہاری اور اپنا سفر بدستور جاری رکھا اور بالآخر عوام فاتح قرار پائے۔ آج ملک میں کامیابی کے ساتھ جمہوریت کا سفر جاری و ساری ہے۔ اسی جمہوریت کی وجہ سے آج عوام بااختیار ہیں، پارلیمنٹ بااختیار ہے، میڈیا آزاد ہے، عدلیہ آزاد ہے، اداروں کو استحکام حاصل ہورہا ہے لیکن ابھی منزل بہت دور ہے۔ یہ سب شروعات ہے ابھی بہت مشکلات باقی ہیں، ابھی اور جدوجہد کرنی ہے۔

اصل مسئلہ جو سب سے اہم ہے وہ ہے عوام کی ترقی، خوشحالی، انتہا پسندی و دہشتگردی کا مکمل خاتمہ۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت مشکلات کا شکار رہی ہے اور اسے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تمام قوتوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس لیے تمام سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ جڑنا ہوگا۔ دوسری طرف آمریت کے اتحادی اور ساتھی مختلف روپ دھار دھار کر جمہوریت اور عوام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں جس کے لیے عوام کو بہت زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات سب کو اچھے طریقے سے سمجھ لینی چاہیے کہ میڈیا، عدلیہ اور اداروں کی آزادی ملک کا استحکام و ترقی، یہ سب جمہوریت کی ہی وجہ سے ممکن ہوا ہے، ہمیں جمہوریت کے تسلسل کے لیے اور زیادہ متحد اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ایک بار پھر آمریت کا جن کوئی اور روپ دھار کر عوام کے اقتدار پر قابض ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔