اگلے بیس برس اردو فکشن کا نشاۃ ثانیہ ثابت ہوں گے

اقبال خورشید  جمعرات 3 نومبر 2016
کراچی کے بگڑتے حالات کی وجہ سے شعرا کی ایک نسل سامنے ہی نہیں آسکی۔ فوٹو: فائل

کراچی کے بگڑتے حالات کی وجہ سے شعرا کی ایک نسل سامنے ہی نہیں آسکی۔ فوٹو: فائل

میں جو چپ تھا، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مرے منہ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

شعری سفر اُن کا پانچ عشروں پر محیط۔ سن 80 میں مجموعہ لانے کا ارادہ باندھا، مگر پھر ایک سانحہ ہوا۔ والدہ داغ مفارقت دے گئیں۔ صدمے سے سنبھلنے میں کئی برس لگے۔ اب جو مجموعے پر نظر ڈالی، تو احساس ہوا، کتنی ہی غزلیں دل سے اتر چکی ہیں۔ جی کڑا کیا، کلام وہ دریا برد کر دیا۔ طویل انتظار کے بعد 98ء میں اُن کا مجموعہ ’’خوابوں سے تراشے ہوئے دن‘‘ شایع ہوا، جس میں تازگی کروٹیں لیتی تھی۔

یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا
یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی گئے

یہ کتاب اکادمی ادبیات کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ کی حق دار ٹھہری۔ جب 2009 میں تنقیدی مجموعہ ’’نقد امروز‘‘ شایع ہوا، تو اسے اردو تنقید میں ایک توانا آواز کی دستک قرار دیا گیا، جس نے مکالمے کے در وا کیے۔ 2012 میں افسانوی مجموعہ ’’آنکھیں اور تصویریں‘‘ آیا، تو ناقدین نے ان کی کہانی اور اسلوب؛ دونوں ہی کو طاقت ور ٹھہرایا، تنوع اور تہ داری کا تذکرہ کیا۔ ہمارے ممدوح کا شمار کراچی کے سینئر شعرا میں ہوتا ہے۔ فکشن اور تنقید کا بھی مستند نام۔ بات ہورہی ہے جناب عباس رضوی کی، جو اوروں کے برعکس اردو فکشن سے متعلق خاصے پُرامید ہیں۔ موقف دل چسپ ہے۔

بہ قول ان کے،’’اردو افسانے کے ساتھ کچھ حادثات ہوئے۔ 60 کی دہائی میں تجریدیت آگئی، کہانی غائب ہو گئی، پلاٹ کے بغیر افسانہ لکھا گیا، مگر اب افسانہ اپنی پٹری پر واپس آچکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، اگلے بیس برس اردو فکشن کا نشاۃ ثانیہ ثابت ہوں گے۔ ناول میں ہمارے ہاں ’آگ کا دریا‘ اور ’اداس نسلیں‘ کا نام لیا جاتا ہے، میں اس میں ’شام اودھ‘ کو بھی شامل کروں گا۔ آج ناول بھی بڑے حوصلے سے لکھا جارہا ہے۔ میری ساری امیدیں نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔‘‘ اس ضمن میں البتہ ایک شکایت بھی ہے۔ ’’میں الحمرا کی دوکانفرنسوں میں شریک ہوا، جہاں اردو افسانے کے سو برس پر بات ہوئی، مقالات پڑھے گئے۔

اس بحث میں تمام قابل ذکر افسانہ نگاروں کے نام آنے چاہییں، مگر کہیں ضمیر الدین احمد کا نام نہیں لیا جاتا۔ افسوس، انھیں نظرانداز کر دیا گیا۔ اُن کے بغیر اردو افسانے کا باب نامکمل ہے۔ جس تکنیک سے وہ چیزوں کو بیان کر جاتے ہیں، اس طرح شاید ہی کسی اور نے بیان کیا ہو۔ اگر مجھے اردو کے سیکڑوں افسانوں میں سے کوئی ایک نام لینا ہو، تو میں ان کے افسانے ’سوکھے ساون‘ کا نام لوں گا۔ ضمیر الدین احمد ایک تہ دار اور بانکے افسانہ نگار تھے، جن کا ذکر ضروری ہے۔‘‘

آج کل شخصی مضامین کے مجموعے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے ہاں خاکہ نگاری میں برتی جانے والی تکنیک سے کچھ مختلف ہیں۔ تھوڑے تفصیلی بھی ہیں۔ پھر ایسی شخصیات پر قلم اٹھایا ہے، جن پر بہت کم لکھا گیا، مثلاً محب عارفی اور محبوب خزاں۔ چند خاکے مختلف جراید میں شایع ہو کر پزیرائی سمیٹ چکے ہیں۔

اب توجہ ان کے حالات زندگی پر مرکوز کرتے ہیں:

عباس رضوی 1944 میں علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، مولانا سید شبیر حسین رضوی خطیب تھے۔ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ والد کو وہ شفقت کا نمونہ ٹھہراتے ہیں۔ سن 50 میں یہ خاندان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ گولی مار میں تاحد نظر جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں تھیں۔ بس، اُن ہی کا مکان پکا تھا۔ والد نے اچھے دنوں میں کچھ رقم پس انداز کی تھی، وہی کام آئی۔ خود کو ایسے بچے کے طور پر یاد کرتے ہیں، جو شرمیلا اور کم گو تھا۔ کبھی اچھے طالب علم نہیں رہے۔ البتہ اچھے اساتذہ ضرور میسر آئے۔

کھیلوں میں کرکٹ کا تجربہ کیا۔ گورنمنٹ اسکول، لیاقت آباد نمبر چار سے، آرٹس سے میٹرک کیا۔ والد کی خواہش انجینئرنگ کے شعبے میں لے گئی، مگر جلد اُوب گئے۔ اُسی زمانے میں اسٹیٹ بینک میں 189 روپے ماہ وار پر گریڈ ٹو کے کلرک ہوئے۔ مختصر سی تن خواہ میں بھی بڑی برکت تھی۔ ملازمت ہی کے دوران بی اے، ایل ایل بی کا مرحلہ طے ہوا۔ معاشیات میں ایم اے کیا۔ ترقی کے زینے طے کرتے گئے۔ ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں تو نہیں پڑے، مگر ادبی محاذ پر خاصے فعال رہے۔ وہاں ادبی تنظیم بنائی۔ مشاعرے منعقد کیے۔ اسٹیٹ بینک گورنرز کرکٹ ٹورنامینٹ بھی ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ۔ عباس رضوی اس کے بانی تھے۔ 2003 میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

مطالعے کی لت بچپن میں پڑی۔ گھر میں کتابیں میسر تھیں۔ شاعری خون میں تھی۔ پہلے پہل پیروڈی لکھی۔ جلد سنجیدگی غالب آگئی کہ دیوان غالب ہاتھ آگیا تھا، جو دھیرے دھیرے اندر اتر رہا تھا۔ دیگر شعرا کو بھی پڑھا۔ چچا، تبسم برنی پختہ شاعر تھے۔ ان کی صحبت ملی۔ مشاعروں میں آنے جانے لگے۔ 64ء میں مشاعرے پڑھنے شروع کیے۔ جنگ ستمبر کے اگلے ماہ ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’’کلام شاعر بہ زبان شاعر‘‘ میں شریک ہوئے، تو سب سے جونیئر شاعر تھے۔ یاور عباس کی صدارت میں ہونے والا وہ پہلا بڑا مشاعرہ یاد، جہاں سامعین کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ نظامت کا فریضہ اعجاز رحمانی نے ادا کیا۔

ایک عرصے تک وہ غزل کے ٹرانس میں رہے، مگر سن 70 کے بعد خود کو نظم کے قریب محسوس کیا۔ ادبی جراید میں چھپنے بھی لگے تھے۔ وزیر آغا کے پرچے ’’اوراق‘‘ میں برابر جگہ پائی۔ ادبی حلقوں سے زیادہ تعلق نہیں رہا کہ پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمے داریوں کے بعد جو وقت میسر آتا، لکھنے پڑھنے میں گزرتا۔ البتہ رضی اختر شوق اور محب عارفی کے دولت خانے جانا ہوتا۔ مشفق خواجہ کی صحبت بھی میسر آئی۔ کہتے ہیں،’’اب میرے لیے اردو شاعری صرف دو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ ایک سراج اورنگ آبادی کا مصرع ہے: مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی۔ اور دوسرا مصرع میر صاحب کا ہے: اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے۔‘‘

تخلیقی سفر جاری رہا۔ شعری مجموعے کا چرچا تو ہوا، مگر جب اکادمی کا ایوارڈ ملا، تب کراچی کے چند حلقوں نے اعتراض اٹھایا۔ لابنگ کا الزام عاید کیا گیا۔ عباس رضوی ہنس دیے، اور چپ رہے۔ اگلا شعری مجموعہ تیار ہے۔ عنوان ہے: ’’روشنی میرا زاد سفر ہے!‘‘

یہ فکشن میں دل چسپی تھی، جس نے انھیں قلم اٹھانے، کہانی کہنے پر اُکسایا۔ پہلا افسانہ 79ء میں ’’نئی قدریں‘‘ میں شایع ہوا۔ بعد میں بھی لکھا، مگر وقفے آتے رہے۔ بہ قول اُن کے،’’غزل تو چلتے پھرتے ہوجاتی ہے، مگر فکشن بڑی سنجیدہ اور جان لیوا چیز ہے۔ فکشن کے لیے میرے پاس وقت ذرا کم تھا۔ سال میں بہ مشکل ایک افسانہ ہی لکھ پاتا۔ 85ء کے بعد اس میں تسلسل آتا گیا۔‘‘ آج کل افسانوں کے اگلے مجموعے پر کام کر رہے ہیں۔

تنقید کے سمت آنے کا ایک سبب تو دل چسپی ٹھہری، پھر کچھ کردار ’’اوراق‘‘ نے بھی ادا کیا۔ کہتے ہیں،’’وزیر آغا کے اثرات بھی رہے ہوں گے۔ میرے ہاں تنقید کا مسئلہ کچھ مختلف تھا۔ میں نے دیکھا، ہمارے نقاد بڑے پڑھے لکھے لوگ ہیں، مگر ان کے ہاں دیانت ذرا کم ہے۔ مجھے بہت شکایت تھی نقادوں سے، اور اب بھی ہے۔ کوشش تھی کہ سچی بات لکھوں، اور نقادوں کو بتاؤں کہ کہاں آپ نے ڈنڈی ماری ہے۔‘‘ تنقیدی مضامین میں وارث علوی، ساقی فاروقی، وزیر آغا، محمد حسن عسکری اور رضی اختر شوق جیسی شخصیات پر قلم اٹھایا۔ ممتاز نقاد، شمس الرحمان فاروقی پر بھی لکھا۔ کہنے لگے،’’برصغیر میں وہ نقد و نظر کے بادشاہ ہیں۔

ان کے علم و فضل اور کمالات کا معترف ہوتے ہوئے جہاں جہاں مجھے لگا کہ اُنھوں نے دیانت داری نہیں برتی، سچائی سے انحراف کیا، وہاں میں نے سوال اٹھایا۔ پھر ایسے لوگوں پر لکھا، جن پر لکھنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ اہم ترین مثال ساقی فاروقی ہیں۔ ان کا خوف اتنا تھا کہ کوئی لکھنے کی ہامی نہیں بھرتا تھا۔ میں نے مبین مرزا کے کہنے پر ہامی بھری، اور بنا کسی رو رعایت ساقی پر تنقید کی۔ لوگوں نے کہا؛ ساقی گرجے برسے گا، مگر میں نے کہا؛ دیکھا جائے گا۔ کتاب میں شامل تفصیلی مضمون میں مَیں نے ساقی کی 115 نظموں کا انفرادی جائزہ لیا، اُس کے کردارپر بحث کی، اور اپنی رائے دی۔ ‘‘

ساقی سے جڑے تنازعات پر بھی بات نکلی۔ اُن کی نظم ’’قرطبہ کا محاصرہ‘‘ کا ذکر آیا۔ عباس رضوی کہنے لگے،’’قرطبہ کا محاصرہ میں ساقی نے اقبال کو گستاخانہ انداز میں مخاطب کیا تھا۔ اس کو چھپے بھی بیس برس ہوچکے تھے۔ کسی نے جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔ میں پہلا آدمی تھا، جس نے ساقی کو بتایا کہ آپ نے اقبال کی شان میں گستاخی کی ہے، جب کہ ماضی میں آپ اقبال کی شان میں رطب اللسان بھی رہے ہیں۔ میں ساقی کو بڑا شاعر سمجھتا ہوں۔ نظم کے تو اچھے شاعر ہیں ہی، غزل بھی اچھی لکھتے ہیں، مگر ان کے مزاج میں تھوڑی شرارت ہے۔‘‘ ساقی کی آپ بیتی پر بات نکلی، تو کہنے لگے؛ وہ آزاد مزاج آدمی ہیں، اُنھیں کسی بات کے بیان کرنے میں، لکھنے میں کوئی عار نہیں ہوتا، انھیں یہ خوف نہیں کہ اپنی آنے والی نسل کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔

کچھ حلقوں کا خیال کہ تقسیم کے بعد کراچی میں اچھے شعرا پیدا ہوئے، مگر فکشن کا تاج لاہور کے پاس رہا۔ کہنے لگے،’’جی ہاں، یہ بات کہی جاتی ہے۔ البتہ کراچی میں اسد محمد خاں جیسا بڑا نام ہے۔ ان کے کام کی مقدار شاید کم ہے، مگر معیار بہت اعلیٰ ہے۔ حسن منظر بھی ہیں۔ میرے نزدیک کراچی کو ادبی حوالے سے بہت آگے ہونا تھا، مگر سن 85 کے بعد سیاسی اور سماجی حالات نے کراچی کو بہت متاثر کیا۔ حالات کی وجہ سے شعرا کی ایک نسل سامنے ہی نہیں آسکی۔‘‘

ہم نے پوچھا، اردو تنقید نئی کروٹیں لے رہی ہے، ادبی تھیوریز زیر بحث، فلسفیانہ رنگ غالب، جو شاید تفہیم کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ ان کے بہ قول،’’ادبی تھیوریز اور ان سے جڑے مباحث ٹھیک ہیں۔ ان کی اپنی اہمیت، مگر سوال یہ ہے کہ ان کی بنیاد کیا ہے؟ بنیاد ہے، تخلیق۔ تخلیق پہلے پیدا ہوتی ہے، تنقید بعد میں آتی ہے۔ نقاد کا اصل زور تخلیق پر ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں افسانہ کیسا لکھا جارہا ہے، شاعری کیسی ہورہی ہے، یہ سوال اہم ہے۔ یہ درست ہے کہ جدید تنقید کو گنجلک تصور کیا جاتا ہے، مگر جو دل چسپی رکھتے ہیں، وہ پڑھتے ہیں۔ میرا موقف ہے، اگر کچھ لکھا جائے، تو نقاد اپنا لکھیں۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے، جب کئی کئی صفحات حوالوں اور اقتباسات پر مشتمل ہوتے ہیں۔‘‘

پسندیدہ شعرا کی بات نکلی، تو پہلے غالب اور مومن کا نام لیا، پھر یگانہ کا تذکرہ آیا۔ آگے بڑھے، تو ثروت حسین پر بات ہوئی۔ فکشن میں قرۃ العین حیدر اور ممتاز مفتی کا نام لیتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ یہی قصہ خوراک کا۔ ہر موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ منا ڈے کی آواز بھائی۔ فلمیں کم ہی دیکھیں۔

70ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹے، تین بیٹیوں سے نوازا۔ بچوں کے حوالے سے بہت مطمئن ہیں۔ بڑی بیٹی لیکچرار ہے، دوسری بیٹی کاپی رائٹر۔ بیٹا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے، اور چھوٹی بیٹی، جس نے جناح یونیورسٹی سے ایم اے صحافت میں گولڈ میڈل لیا، الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہے۔ اولاد کی کام یابیاں خوشیاں لاتی ہیں۔ اپنوں کی جدائی سے دُکھ بھری یادیں وابستہ۔ 72 برس کے ہوگئے ہیں، مگر خاصے فٹ ہیں کہ ایک عرصے باقاعدگی سے ورزش کی۔ کرکٹ بھی کھیلتے رہے۔ عام طور سے ادیبوں کو رائیگانی کا احساس ستاتا ہے، مگر ان کا یہ معاملہ نہیں۔ کہتے ہیں،’’جو ٹوٹی پھوٹی کوشش کرسکتا تھا، میں نے کی۔ اپنے کام سے مطمئن ہوں۔‘‘

٭ غزل اور عصری بوجھ!

عام خیال ہے کہ غزل عصری تقاضوں کا بوجھ نہیں ڈھو سکتی، مگر وہ اس سے متفق نہیں۔ بولے؛ اس بات کا انحصار تو شاعر کی قوت پر ہے، ورنہ غزل ہر مسئلہ بیان کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ ’’یہ بڑی خوب صورت صنف ہے۔ اس کا ماضی بھی تاب ناک تھا، مستقبل بھی تاب ناک ہے۔ غزل ایک ایسا پیمانہ ہے، جس پر زمانے کا اثر نہیں ہوتا۔ غالب کے دور میں بھی یہی غزل تھی، آج بھی یہی ہے۔ ہر دور میں غزل کے اچھے شعرا آتے رہے۔ آج بھی نوجوان اچھی غزل لکھ رہے ہیں۔‘‘

٭ نثری نظم کا کیا جواز؟

نثری نظم کو ایک طاقت ور صنف گردانتے ہیں۔ البتہ قمر جمیل کی سربراہی میں جو تحریک شروع ہوئی تھی، اس پر کچھ تحفظات ہیں۔ کہنے لگے،’’میں قمر بھائی کے بہت قریب رہا ہوں۔ ان کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جو شاید تخلیقی طور پر اتنے زرخیز نہیں تھے، مگر یہ صنف بہت بڑا پیمانہ ہے۔ شاعر پر ایک ایسا وقت آتا ہے، جب اُسے جو کچھ لکھنا ہوتا ہے، وہ کسی طور لکھ نہیں پاتا۔ نہ تو خیال کو نظم سمیٹ سکتی ہے، نہ ہی غزل۔ تب نثری نظم ہی کام آتی ہے۔ ہمارے ہاں اس صنف میں مادھو جیسے شعرا آئے۔ نوجوانوں میں سید کاشف رضا اور سعید احمد ہیں۔

٭ کراچی کی چند روشن مثالیں

کچھ ناقدین کا خیال کہ کراچی کی نئی نسل جون ایلیا کے اثر سے باہر نہیں نکل سکی، ان کے موضوعات، انداز تکلم، یہاں تک کہ ان کا حلیہ بھی اپنایا گیا۔ اس بابت عباس رضوی کہتے ہیں،’’سو برس پہلے جب اساتذہ کا حلقہ ہوا کرتا تھا، تب شاگرد ان ہی کے انداز اور حلیے کو Follow کرتے تھے۔ جون کے علاوہ بھی کراچی میں ایسے لوگ گزرے، جیسے عبید اللہ علیم کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ رضی اختر شوق اپنے زمانے میں پسندیدہ شاعر رہے۔ شاید آج نوجوانوں میں جون زیادہ مقبول ہوں۔ البتہ میں نے اپنے دور میں نئی نسل کو جن شخصیات کی تقلید کرتے دیکھا، ان میں عزیز حامد مدنی نمایاں تھے۔ ان کے بعد جو حضرات اثر رکھتے تھے، ان میں سلیم احمد صاحب کا بہت بڑا حلقہ تھا۔ قمر جمیل کا نوجوانوں کا حلقہ تھا، جس نے نثری نظم کا بیڑا اٹھایا۔ محشر صاحب کے ساتھ آٹھ دس شعرا ہوتے تھے۔‘‘

٭ اگر منشی نول کشور نہ ہوتے۔۔۔

تسلیم کرتے ہیںکہ ہمارے ادیب اور شعرا کو اپنی کتابوں کی اشاعت کا خود اہتمام کرنا پڑتا ہے، حکومت یا ناشروں کی جانب سے مدد نہیں ملتی۔ ’’اسی سلسلے میں رائٹرز گلڈ بنی، کچھ اور تنظیمیں بھی قائم ہوئیں، مگر بات نہیں بنی۔ اکادمی ادبیات کو اس ضمن میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ بک سیلر یہ دیکھتا ہے کہ کون سی کتاب بکتی ہے۔ پروین شاکر اور احمد فراز کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں، تو وہ شایع کی جاتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، اجتماعی بنیادوں پر ایک انجمن بنائی جائے، جس کی اپنی ایک بک شاپ ہو۔ یہی ایک امکان ہے۔‘‘Uncle Tom’s Cabin ان کتابوں میں سے ایک، جو نوجوانی میں پڑھیں، اور ذہن پر نقش ہوگئیں۔ اس کو ہماری موجودہ ادبی صورت حال سے جوڑتے ہوئے کہا،’’1857 میں ہمارے ہاں جنگ آزادی آئی، یہ کتاب 1852 میں امریکا میں شایع ہوئی تھی، اور اس کی اشاعت پانچ ملین تھی۔ ہمارے ہاں اگر منشی نول کشور نہ آتے، تو چھاپے خانے کا رواج ہی نہیں پڑتا۔ غالب کی زندگی میں پانچ مرتبہ ان کا دیوان چھپا، اور آج ہمیں پتا ہے کہ انھیں کتنی مشکلات برداشت کرنی پڑی تھیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔