ہم بھی گھر کے ہی شیر ہیں

سلیم خالق  منگل 10 جنوری 2017
انڈر 16 ،19 لیول کے کرکٹرز کو متواتر انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بھیجیں وہ یقیناً کچھ نہ کچھ سیکھیں گے۔ فوٹو: فائل

انڈر 16 ،19 لیول کے کرکٹرز کو متواتر انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بھیجیں وہ یقیناً کچھ نہ کچھ سیکھیں گے۔ فوٹو: فائل

’’کلین سوئپ ہو گیا تو کون سی بڑی بات ہے، پہلے کتنی سیریز جیت  لیں آسٹریلیا میں؟ میں تو بچپن سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں ہمیشہ ہی ہم وہاں ہارتے ہیں، شور مچانا چھوڑو اور انتظارکرو،دیکھنا ہم بھی اگلی سیریز میں ویسٹ انڈیزکو  آسانی سے ہرائیں گے‘‘

جب میچ ختم ہوتے ہی ایک صاحب نے مجھ سے یہ بات کہی تو میں نے چپ سادھ لینے میں عافیت سمجھی کیونکہ ان سے بحث کرنا یا دیوار  سے سر پیٹنا دونوں ہی ایک جیسی باتیں تھیںاور میں قطعاً  ایسا  نہیں چاہتا تھا، البتہ جب کپتان مصباح الحق نے پریس کانفرنس میں یہ جملہ کہا  کہ ’’آسٹریلیا میں تو 1999میں سپراسٹارز پر مشتمل ٹیم بھی ہار گئی تھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ ہمارا مائنڈ سیٹ بن چکا کہ آسٹریلیا میں نہیں جیت سکتے، ایسے میں تو بورڈ کو چاہیے کہ ٹیم کووہاں بھیجے ہی نہیں بس یو اے ای بلا کر ہرا کر خوش رہیں، ویسے جس طرح کی پرفارمنس ہے اس پر یہ خارج از امکان نہیں  کہ آسٹریلیا خود ہی پاکستانی ٹیم کو مدعو کرنا چھوڑ دے ، سابق کرکٹر چیپل کااس حوالے سے بیان بھی سامنے آ  چکا ہے۔

سب مثالیں دیتے ہیں کہ  دیگر ممالک بھی اپنے ملک میں ہراتے اور غیرموزوں کنڈیشنز میں ڈھیر ہو جاتے ہیں مگر کیا آپ نے کہیں ایسا لکھا دیکھاکہ ورلڈ چیمپئنز (ایشیا اونلی) یقیناً ایسا  نہیں ہوتا، آپ کو نمبر ون بننے کیلیے دنیا بھر میں جیتنا پڑتا ہے، پہلے ہم بھارت کو کہا کرتے تھے مگر افسوس ہم بھی بس گھر کے شیر ہیں، یو اے ای سے باہر جا کر مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، انگلینڈ میں بمشکل سیریز برابر کی،نیوزی لینڈ میں دونوں پھر آسٹریلیا میں تینوں ٹیسٹ ہار گئے، ایسی شکستوں کے بعد پھر اچانک سب کو یاد آتا ہے کہ ہماری ڈومیسٹک پچز ایسی ہیں، پلیئرز کو انگلش اور آسٹریلوی کنڈیشنز میں کھیلنے کا تجربہ نہیں وغیرہ وغیرہ، پھر دبئی میں جیت کر سب بھول جاتے ہیں،شکست کی اصل وجوہات کا پتا ہے مگر مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا، لوگ ابھی سے ورلڈکپ کی تیاریاں کر رہے ہوں گے ہم 6 ماہ قبل ایسا کریں گے، ہمیں آفیشلز کے بجائے کھلاڑیوں کو ٹورز پر بھیجنا چاہیے۔

انڈر 16 ،19 لیول کے کرکٹرز کو متواتر انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بھیجیں وہ یقیناً کچھ نہ کچھ سیکھیں گے، پھر جب ٹاپ لیول کی کرکٹ میں آئیں گے تو انھیں ہر قسم کی کنڈیشنز کا اندازہ ہو گا،رہی بات 1999 کی تو میں نے ابھی اسکور کارڈز دیکھ کر یادیں تازہ کیں،یقیناً اس ٹیم میں سعید انور، انضمام الحق، وسیم اکرم، شعیب اختر، مشتاق احمد، معین خان،وقار یونس اور ثقلین مشتاق جیسے اسٹارز موجود تھے، مگر آسٹریلوی اسکواڈ میں بھی رکی پونٹنگ، وا برادرز، گلین میک گرا، شین وارن، ایڈم گلرسٹ، ڈیمین فلیمنگ وغیرہ سب ایک سے بڑھ کر ایک بڑا کھلاڑی تھے، اب تو اتنی کمزور ٹیم ہے جسے حال ہی میں جنوبی افریقہ نے گھر میں آ کر ہرایا، اسٹیون اسمتھ اور  مچل اسٹارک کے سوا اور کون سا بڑا پلیئر ہے؟

ڈیوڈ وارنر بھی ٹیسٹ میں آؤٹ آف فارم تھے مگر پاکستانی ٹیم فارم میں لے آئی، ہم نے کئی نئے پلیئرز کو اسٹار بنانے کی روایت بھی برقرار رکھی،دراصل اس بار  کاغذ پر پاکستانی ٹیم زیادہ مضبوط لگتی تھی ، کمزور آسٹریلوی ٹیم کو اس کی سرزمین پر ہرانے کا اس سے اچھا کوئی موقع مل ہی نہیں سکتا تھا مگر افسوس  جب مصباح الحق اور یونس خان جیسے بڑے پلیئرز  نہ چلے تو نئے کھلاڑیوں سے کیا  گلہ کریں، یونس اب صرف اپنے دس ہزار رنز کیلیے کھیل رہے ہیں، کارکردگی میں تسلسل  نہیں رہا، البتہ  جب ٹیم میں جگہ خطرے میں ہو تو رنز بنا کر اگلی سیریز کیلیے جگہ پکی کر لیتے ہیں جیسا انگلینڈ اور آسٹریلیا میں ہوا، مصباح اچھی کپتانی نہ کر سکے جبکہ بیٹنگ میں بھی بدترین انداز میں ناکام ہوئے جس کے بعد سب کی توپوں کا رخ ان کی جانب ہو گیا  لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اکیلے کپتان شکست کے ذمہ دار نہ تھے، جب بیٹنگ لائن کچھ نہ کرے، بولرز بھی ناکام ہوں تو  کپتان کیا کر سکتا ہے، ہم ہر سیریز کے بعد قربانی کا بکرا ڈھونڈتے تھے اس بار مصباح کو بنا دیا گیا ۔

یقیناً42 سال کی عمر میں انھیں ریٹائرمنٹ کا سوچنا چاہیے  مگر ان کی خدمات کو نظر انداز نہ کریں،باعزت رخصتی کا  موقع دیں،شاہد آفریدی کے ساتھ بھی ایسا ہونا چاہیے، آسٹریلیا سے ہی کچھ سیکھیں جس نے سڈنی ٹیسٹ میں ریٹائرڈ شین واٹسن کو فیملی کے ساتھ بلا کر عزت افزائی کی،  یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مصباح نے کچھ عرصے قبل ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا تھا، یہ بات خود چیئرمین شہریارخان نے مجھے بتائی کہ انھوں نے کہا تھا کہ وہ مزید کچھ عرصے   قیادت کریں، اب چیئرمین کو بھی سینئر بیٹسمین سے مل کر مستقبل کے حوالے سے کوئی حکمت عملی بنانا ہوگی،البتہ دوسرا ٹیسٹ ہارنے کے بعد جس طرح مصباح نے ریٹائرمنٹ کا عندیہ دیا پھر تیسرے ٹیسٹ سے قبل اسے بدل دیا۔

اس قسم کے یوٹرن لینے سے ان کی پوزیشن خراب ہوگی، اظہر علی بطور بیٹسمین تو کامیاب ہیں امید ہے کہ ٹیسٹ میں قیادت ملنے پر بھی نئی ٹیم تشکیل دینے میں کردار ادا کریں گے، اسی کے ساتھ بابر اعظم اور سمیع اسلم جیسے نوجوانوں کو مزید مواقع دیں، یقیناً وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر دیار غیر میں بھی عمدہ پرفارم کرنا لگیں گے، البتہ سلیکشن کمیٹی کو نئے پیسرز اور اسپنرز تلاش کرنا ہوں گے، اس وقت یاسر شاہ کو بولنگ مشین کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پرفارمنس میں فرق آنا لازمی ہے۔

ڈومیسٹک میچز میں سلیکٹرز سارے دن اسٹیڈیم میں رہے لیکن ایک بھی نیا کھلاڑی ون ڈے اسکواڈ میں نہیں لیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب ڈھونگ تھا،ٹیسٹ اسکواڈ میں محمد اصغر اور محمد نواز کو شامل کیا مگر دونوں آسٹریلیا کی سیر کر کے واپس آ گئے، انضمام الحق اپنے دور قیادت میں جتنے دبنگ تھے اب بالکل تبدیل شدہ شخصیت بن چکے ہیں، اظہر علی اور آرتھر تک ان کے فیصلے تبدیل کرا لیتے ہیں جیسے حفیظ اسکواڈ میں شامل نہ تھے مگر ٹیم مینجمنٹ نے زور لگا کر آسٹریلیا بلوا لیا،  نجانے  ماضی کا انضمام کہاں کھو گیا، اسی طرح بورڈ کو اب ٹورز میں فیملیز ساتھ بھیجنے کی پالیسی بھی ترک کرنا ہوگی، کھلاڑی  ان کیلیے حلال کھانے کا انتظام کرنے اور سیروتفریح کرانے میں مگن ہو جاتے ہیں جس سے کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔

آخر میں کچھ گورننگ بورڈ کا ذکر کر دوں،  میں نے اپنے کالم میں مراعات کے حوالے سے جو انکشاف کیا تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ تجویز مسترد ہوگئی، بورڈ کی ایک اعلیٰ شخصیت نے بھی ازرائے مذاق مجھ سے کہا کہ ’’ گورننگ بورڈ والے تم سے بڑے ناراض ہیں،ان کا پورا پلان ناکام بنا دیا‘‘ اس سے  ایک بات کی خوشی بھی ہوئی کہ اب بھی میڈیا کی کچھ تو سنی جاتی ہے، البتہ یہ بھی پتا ہے کچھ عرصے بعد خاموشی سے اس پر عمل درآمد ہو ہی جائے گا، خیر ہمارا (میڈیا) کا کام تو غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہی ہے  وہ کرتے رہیں گے، عمل درآمد کرانے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔