ایک دفعہ کا ذکر ہے

فرحان احمد خان  اتوار 5 فروری 2017
کچھ واقعات ایسے ہیں جو اپنے مضمون اوربنیادی خیال کے اعتبار سے ہر زمانے میں تازہ اور مربوط رہتے ہیں۔ فوٹو : فائل

کچھ واقعات ایسے ہیں جو اپنے مضمون اوربنیادی خیال کے اعتبار سے ہر زمانے میں تازہ اور مربوط رہتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ہماری تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات بکھرے پڑے ہیں جن میں سیکھنے کا بہت سامان ہے ۔ ان میں سے کچھ واقعات ایسے ہیں جو اپنے مضمون اوربنیادی خیال کے اعتبار سے ہر زمانے میں تازہ اور مربوط رہتے ہیں۔ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے‘‘ کے تحت ایسے ہی چنیدہ ودلچسپ واقعات پیش کیے جائیں گے۔ امید ہے قارئین اس سلسلے کو دلچسپ پائیں گے (مرتب)

 مزاراقبال کی تعمیر کی دلچسپ کہانی

1977ء سے پیشتر ہی علامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت منانے کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ بھٹو حکومت نے اس مقصد کے لئے نیشنل اقبال کمیٹی قائم کی جس کے ممبروں میں مولانا کوثر نیازی‘ حفیظ پیرزادہ دیگر لوگوں کے علاوہ میں بھی شامل تھا۔ کمیٹی کے دو ایک اجلاس لاہور گورنر ہاؤس میں ہوئے جن کی صدارت بھٹو نے کی۔ دیگر تجاویز کے علاوہ دو باتیں خصوصی طور پر قابل غور تھیں۔

ایک کا تعلق تو ’’جاوید منزل‘‘ کو مجھ سے خرید کر ’’اقبال میوزیم‘‘ میں تبدیل کرنا تھا اور دوسری تجویز کے مطابق علامہ اقبال کے مزار کی تعمیر نو حافظ و سعدی کے مزارات کی صورت میں کرنا تھی۔ یہ تجویز غالباً بھٹو کی تھی۔ میں نے کمیٹی کے اجلاس میں اس کی مخالفت کی ۔ میرا مؤقف تھا کہ مزار مسلمانوں کے چندے سے تعمیر ہوا ہے اور اس کی موجودہ طرز تعمیر کی قبولیت کے پیچھے بڑی دلچسپ روداد ہے۔ اقبال مزار کمیٹی نے مزار کے نقشے کے لئے ظاہر شاہ (افغانستان کے بادشاہ) اور نظام حیدر آباد سے استدعا کی کہ اس سلسلے میں کمیٹی کی مدد کریں۔

افغانستان کے سرکاری اطالوی ماہر تعمیرات نے جو نقشہ بھیجا اس میں اطالوی انداز میں تربت پر علامہ اقبال کا مجسمہ ہاتھ باندھے لٹایا گیا تھا۔ دوسری طرف حیدر آباد دکن سے جو نقشہ آیا وہ وہ کچھ ایسا تھا‘ گویا کسی بلبل کو نہایت باریک اور خوبصورت پنجرے میں بند کر دیا ہو۔ کمیٹی نے اطالوی ماہر کا نقشہ تو غیر موزوں سمجھ کر مسترد کر دیا‘ مگر حیدر آباد دکن کے ماہر تعمیرات زین یار جنگ کو لاہور آنے کی دعوت دی گئی۔ جب وہ لاہور آئے تو چودھری محمد حسین صدر اقبال مزار کمیٹی انہیں اپنے ساتھ موقع پر لے گئے۔

بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں پر انہیں بٹھا کر فرمایا: ’’دیکھئے! ایک طرف قلعہ لاہور کا صدر دروازہ ہے جو مسلمانوں کی ریاستی شوکت کا نشان ہے اور دوسری طرف بادشاہی مسجد میں داخل ہونے کے لئے صدر دروازہ ہے جو ان کی روحانی عظمت کا نشان ہے۔ علامہ اقبال اسلام کی ریاستی شوکت اور دینی عظمت کے علمبردار تھے۔

ان کا تعلق گل و بلبل کی شاعری سے نہ تھا بلکہ وہ فقر و سادگی‘ عزم و ہمت‘ تگ و دو اور عمل پیہم کے شاعر تھے۔ اس لئے ان کے مزار کی عمارت اس طرز کی ہونی چاہئے جو ان اقدار کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد کی مشرقی دیوار سے‘ جس کے زیر سایہ ان کی تربت ہے‘ بلند نہ ہونے پائے۔ زین یار جنگ چودھری محمد حسین کی بات سمجھ گئے اور انہوں نے واپس جا کر نیا نقشہ بنایا اور کمیٹی کو بھجوایا جو پسند کیا گیا۔ مزار کی موجودہ عمارت اسی نقشے کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔

یہ کنول کے پھول کے اندر ایک طرح کا مضبوط و مستحکم مصری ’’ٹیلہ‘‘ (پیرامڈ)ہے جسے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہے تاکہ مسجد کی دیوار سے عمارت سر نہ نکالے۔ مزار کے اندر چھت پر اور باہر جو اشعار کندہ ہیں وہ علامہ اقبال کے دست راست چودھری محمد حسین نے ان کے بنیادی تصورات کو ذہن میں رکھتے ہوئے منتخب کئے تھے۔ کتبہ اور تعویذ ظاہر شاہ کی طرف سے ہدیہ ہیں اور پتھر میں کندہ اشعار کی خوشخطی اس زمانے کے معروف کاتب ابن پرویں رقم کی ہے۔ نئی عمارت تعمیر کرنے کے لئے یہ سب کچھ مسمار کرنا پڑے گا۔اس لئے تاریخ کا لحاظ کرتے ہوئے مزار کی موجودہ صورت کو من و عن اسی طرح رہنے دیا جائے۔

میری رائے مان لی گئی‘ مگر مزید کہا گیا کہ کم از کم مزار کے باہر کے دالان کو وسیع کر دیا جائے اور چاروں طرف گارڈز کے کھڑے ہونے کے لئے چبوترے تعمیر کر دیئے جائیں۔ میں اس تجویز کے بھی خلاف تھا کیونکہ علامہ اقبال ایک درویش تھے۔ ان کی آرام گاہ پر گارڈز کی ضرورت نہ تھی‘ لیکن میری اس بات سے اتفاق نہ کیا گیا۔ بھٹو کی رائے تھی کہ پاکستان اقبال کا خواب تھا۔

وہ مصور پاکستان تھے۔ ان کے مزار کی زیارت کے لئے دنیا بھر کے ملکوں کے سربراہان آتے ہیں‘ لہٰذا ان کا تعلق پاکستان کی ’’نیشن سٹیٹ‘‘ سے بھی ہے۔ سوریاست کے بانی کے طور پران کے مزار پر گارڈز اور معمول کے مطابق گارڈز کی تبدیلی کانظام ضروری ہے۔ اس تجویز کے مطابق مزار کے باہر دالان کو وسعت دے دی گئی اور گارڈز کے لئے چبوترے بھی تعمیر ہو گئے۔
(جسٹس(ر) جاوید اقبال مرحوم کی خود نوشت سوانح’’اپنا گریبان چاک‘‘ سے اقتباس)

……

’’جب بھی تاریخ کو ٹکڑے کر کے پڑھایا جائے گا تو اس سے تاریخی شعور مجروح ہوگا‘‘
پاکستان تقسیم کے بعد بہت سے سیاسی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ کبھی یہاں جمہوریت رہی تو ایک طویل عرصے تک فوجی آمروں نے غاصبانہ قبضہ کر کے اس کو اپنے تسلط میں رکھا۔

مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو ایک نیا پاکستان وجود میں آیا۔ جب سیاسی حکومتیں ناکام ہوئیں عوام کے مسائل بڑھتے چلے گئے، غربت و افلاس نے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو مذہبی بنیاد پرستی اور راسخ العقیدگی کو فروغ ملا۔ ہندوستان جو پہلے سے ہی ‘‘دشمن‘‘ تھا، بگڑتے حالات میں اس کے خلاف ذرائع ابلاغ اور نصاب کی کتابوں کے ذریعے اور زیادہ نفرت کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ ان سب کے نتیجے میں پاکستان میں تاریخ کا نصاب متاثر ہوا۔ 1961 میں تاریخ کا مضمون ختم ہوا اور اس کی جگہ معاشرتی علوم نے لے لی کہ جس میں تاریخ بھی بطور ایک حصہ کے اس میں شامل ہو۔

نصاب کی کتابیں لکھنے والوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور واقعات کا ایسا انتخاب کیا کہ جو سیاسی حالات کے مطابق ہو۔ جب بھی تاریخ کو ٹکڑے کر کے پڑھایا جائے گا اور واقعات کا انتخاب ہوگا تو اس سے تاریخی شعور مجروح ہوگا۔ مائیکل۔ ڈبلیو۔ ایپل نے لکھا ہے کہ:

’’انتخاب کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ جب ماضی و حال کے واقعات کے انبار سے اپنی پسند کی باتیں چن لی جائیں، جو واقعات پسند کے خلاف ہوں انہیں نظر انداز کر دیا جائے، یا ان واقعات کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ تسلط شدہ کلچر کی حمایت کرتے ہوں، تو اس صورت میں تاریخ کے اثرات منفی ہوتے ہیں۔‘‘

نصاب کی کتابوں کے ساتھ دشواری یہ ہے کہ ان کے مضامین، واقعات، اور متن سیاسی حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ جب جمہوری حکومت آتی ہے تو فوجی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جب فوجی برسرِ اقتدار آتے ہیں تو ساری خرابیوں کا الزام سیاستدانوں کو دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں، اگر جمہوری دور میں دو مختلف سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو وہ مخالف جماعت پر الزامات کی بوچھاڑ کردیتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہر آنے والی حکومت چاہے وہ فوجی ہو یا جمہوری وہ ماضی، یا سابقہ حکومت کو تمام بدعنوانیوں اور کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرا کر خود پاک و صاف بن جاتی ہے۔ بقول جارج آرول کے ہر بار تاریخ کی سلیٹ کو دھو کر پاک و صاف کردیا جاتا ہے تاکہ نیا آنے والا اس پر اپنے کارنامے تحریر کرے۔

تاریخ کو جب بھی توڑا جاتا ہے ماضی کو بار بار حال کے تقاضوں کے تحت بااقتدار طبقوں کے مفادات کی روشنی میں بدلا جاتا ہے، تو اس صورت میں معاشرے کا تاریخی شعور پختہ نہیں ہو پاتا ہے اور تاریخ ان کے لیے رہنمائی کا باعث نہیں رہتی ہے، بلکہ ان کی سوچ اور فکر کو خراب کرتی ہے۔ کیونکہ جب تک پورے تاریخی حقائق سامنے نہ ہوں تاریخی عمل کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخی شعور کی نا پختگی کے سبب قوم تاریخ کو بار بار دہراتی رہتی ہے۔

(ڈاکٹر مبارک علی کی ’’کتاب تاریخ کی تلاش‘‘ سے اقتباس)

……

’’انسان کی نیکی ایک شعلہ ہے جسے چھپایا جا سکتا ہے مگر بجھایا نہیں جا سکتا‘‘
جرأت کے معنی جدوجہد میں شامل ان ساتھیوں ہی سے میں نے جرأت کے معنی سیکھے ہیں۔ بارہا میں نے مرد اور عورتیں دیکھے ہیں جو ایک نظریہ کی خاطر اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے اور نثار کر دیتے ہیں۔ میں نے انسانوں کو ابتلاء و اذیت کا مقابلہ ٹوٹے بغیر کرتے اور ایسی قوت اور ثابت قدمی دکھاتے دیکھا ہے جو انسانی تصور سے بالا ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ یہ جرأت خوف سے چھٹکارا پانا نہیں بلکہ اس پر غلبہ پانا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ خود میں نے کتنی بار خوف محسوس کیا تھا لیکن ہر بار میں نے اسے دلیری کے نقاب کے نیچے چھپا لیا تھا۔ بہادر آدمی وہ نہیں جو خوف محسوس نہیں کرتا بلکہ بہادر وہ ہے جو اس پر فتح پا لے۔

نیکی ایک شعلہ میں نے کبھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا کہ یہ تبدیلی عمل میں آئے گی… صرف عظیم ہیروؤں کی وجہ سے نہیں بلکہ میرے ملک کے عام مردوں اور عورتوں کے حوصلے کی وجہ سے۔ میں ہمیشہ جانتا تھا کہ ہر انسانی دل کی گہرائی میں رحم اور کشادہ دلی پنہاں ہوتی ہے۔

کوئی بھی دوسرے شخص کی کھال کے رنگ یا اس کے پس منظر یا اس کے مذہب کی وجہ سے اس سے نفرت کرتا پیدا نہیں ہوتا۔ لوگ نفرت کرنا سیکھتے ہیں اور اگر وہ نفرت کرنا سیکھتے ہیں تو انھیں محبت کرنا بھی سکھا سکتے ہیں کیونکہ محبت نفرت کے مقابلے میں زیادہ فطری طور پر آتی ہے۔

جیل کے مشکل ترین اوقات میں بھی جب مجھے اور میرے ساتھیوں کو تنہائیوں میں ڈالا گیا تھا میں ایک گارڈ میں شاید ایک سیکنڈ ہی کے لیے سہی انسانیت کی رمق دیکھ پاتا تھا لیکن وہ مجھے یقین دلانے اور زندگی کے معمولات جاری رکھنے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ انسان کی نیکی ایک شعلہ ہے جسے چھپایا جا سکتا ہے مگر بجھایا نہیں جا سکتا۔

راستہ آسان نہیں تھا ہم نے کھلی آنکھوں کے ساتھ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا تھا اور ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں تھی کہ راستہ آسان ہو گا۔ ایک نوجوان کے حیثیت سے جب میں نے افریقن نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی‘ میں نے اپنے ساتھیوں کو اپنے نظریات کی قیمت ادا کرتے دیکھا تھا اور وہ بہت زیادہ تھی۔

جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے جہدوجہد آزادی سے اپنی وابستگی پر کبھی افسوس ظاہر نہیں کیا اور میں ہمیشہ سختیوں کا سامنا کرنے کو تیار رہا جنھوں نے ذاتی طور پر مجھے متاثر کیا۔ لیکن میرے خاندان کو میری اس وابستگی کی خوفناک قیمت ادا کرنی پڑی‘ یہ قیمت بہت گراں تھی۔

زندگی میں ہر انسان کے جڑواں فرائض ہوتے ہیں… اپنے خاندان‘ اپنے والدین‘ اپنی بیوی اور بچوں کی طرف سے… اور اس پر اس کے عوام‘ اس کے معاشرے اور اس کے ملک کی طرف سے بھی فرض عائد ہوتا ہے۔ ایک مہذب اور ہمدرد معاشرے میں ہر شخص اپنے رجحانات اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق ان فرائض کو ادا کر سکتا ہے۔

لیکن جنوبی افریقا جیسے ملک میں میری پیدائش اور رنگ کے شخص کے لیے ان دونوں قسم کے فرائض کی ادائیگی تقریباً ناممکن تھی۔ جنوبی افریقا میں رنگ دار شخص اگر انسان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی اور تنہائی میں ڈال دیا جاتا تھا۔

جنوبی افریقا میں کوئی شخص اپنی قوم کی طرف سے عائد شدہ فرض ادا کرنا چاہتا تو لازماً اسے اس کے خاندان اور اس کے گھر سے جدا کر دیا جاتا اور ایک الگ تھلگ زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا جہاں وہ پوشیدگی اور بغاوت کے دھندلکوں میں سسکتا رہتا۔ میں نے شروع ہی میں یہ راستہ نہیں چنا تھا کہ اپنی قوم کو اپنے خاندان پر ترجیح دوں گا مگر اپنی قوم کی خدمت کرنے کی کوشش میں پتا چلا کہ مجھے ایک بیٹے‘ ایک بھائی‘ ایک باپ اور ایک خاوند کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے سے روکا جا رہا ہے۔

آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے اپنی قوم‘ لاکھوں ‘ کروڑوں‘ جنوبی افریقیوں سے میری وابستگی جنھیں میں کبھی نہیں جانتا تھا یا جن سے کبھی نہیں ملا تھا‘ ان لوگوں کی قیمت پر استوار تھی جنھیں میں سب سے اچھی طرح جانتا تھا یا جن سے سب سے زیادہ محبت کرتا تھا۔
(نیلسن منڈیلا کی آپ بیتی ’’لانگ واک ٹو فریڈم‘‘ سے اقتباس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔