ظاہر میں قلم اور باطن میں ہیں شمشیریں

عامر بھٹی  جمعرات 16 مارچ 2017
صحافی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے باآسانی مل لیتے ہیں جیسے کہ حکومتی، فوجی اور سفارتی اعلیٰ شخصیات سے رابطہ و ملاقات اُن کے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

صحافی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے باآسانی مل لیتے ہیں جیسے کہ حکومتی، فوجی اور سفارتی اعلیٰ شخصیات سے رابطہ و ملاقات اُن کے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کسی بھی قوم کے لکھاری چاہے شاعر ہوں یا افسانہ نگار، کالم نویس ہوں یا مذہبی قلم کار، ناول لکھنے والے ہوں یا ادبی اسکالر، یہ سب ذہین، اہم اور زمانہ ساز افراد ہوتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کی سمت تعین کرنے میں اور مخصوص نظریات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اِسی طرح معلومات تک رسائی اور عوامی پہنچ کی بنیاد پر صحافی ایک جُداگانہ مقام رکھتے ہیں۔

کسی بھی دشمن ملک کے انٹیلیجنس ادارے اپنے مطلب کی معلومات تک رسائی چاہتے ہیں۔ مثلاً کسی دفاعی ٹیکنالوجی سے متعلق، سائنسدانوں اور انجینئروں کی تعداد و قابلیت کے حوالے سے اور مخالف حکومت کی سوچ و پالیسیوں کی بابت معلومات کا حصول جوابی حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں دشمن ملک کی حکومت و عوام میں اپنے من پسند نظریات کا فروغ، اپنے حامی بیانیے کی ترویج، جھوٹی و غلط خبروں کا پھیلاؤ اور پراپیگنڈہ مہم کے ذریعے مخالف قوم کو افراتفری اور اُلجھن کا شکار کرنا حساس اداروں کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔

دوسری طرف اپنے ملک کی حکومت کو اپنا بیانیہ ترتیب دینے کے ساتھ عوام کی تائید و حمایت درکار ہوتی ہے۔ عوام اور قوم کی رہنمائی کے لئے حکومتی پیغام و بیانیہ کا فروغ اور پھیلاؤ مطمع نظر ہوتا ہے۔

صحافی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے باآسانی مل لیتے ہیں جیسے کہ حکومتی، فوجی اور سفارتی اعلیٰ شخصیات سے رابطہ و ملاقات اُن کے پیشہ ورانہ فرائض میں شامل ہوتا ہے، اور اُن کے کام کی نوعیت کی بناء پر اُنہیں بہت اہم معلومات تک رسائی بھی ہوجاتی ہے۔ جبکہ یہ اپنے مخصوص نظریات کا پرچار کرنے میں بھی کسی حد تک آزاد ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر عوام اُن پر کم از کم سیاستدانوں کی بہ نسبت زیادہ اعتبار و اعتماد کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حکومتیں اور اُن کے متعلقہ حکمت عملی کے ذمہ دار ادارے اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لئے صحافی برادری کو آلہِ کار بنانے سے گریز نہیں کرتے بلکہ اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔ اِس میں اپنے ملک و حکومت یا مخالف دشمن ملک و حکومت کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

اگرچہ امریکہ، روس اور برطانیہ کے حوالے سے حساس اداروں اور صحافت کے مابین تعلق پر تحقیق کے ساتھ اِس تعلق کے جائز و خلافِ اصول ہونے پر باقاعدہ بحث و مباحثہ بھی ہوا ہے، پھر بھی اِس ضمن میں بہت زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں اور زیادہ تر معلومات جنگِ عظیم دوم اور سرد جنگ کے ادوار پر محیط ہیں۔ خصوصاً باقی دیگر ممالک کے بارے میں کوئی خاص مواد موجود نہیں ہے۔ آخر خفیہ اداروں کا کام ایسے ہی تو ’خفیہ‘ نہیں ہے، لیکن جو حقائق دستیاب ہیں وہ بہت مضبوط اور کسی حد تک نا قابلِ تردید ہیں۔

اگرچہ اوپر بیان کردہ ممالک کے حساس اداروں نے اپنے تئیں صحافیوں کے استعمال میں مہارت حاصل کی مگر اِس کو نقطہِ عروج پر پہنچانے کا سہرا بہرحال سوویت یونین کے اداروں کے سر باندھا جاتا ہے۔ سنہ 1941ء میں تقریباً 73 کے قریب ایسے ہائی پروفائل امریکی شہری تھے جو اپنے ملک کے خلاف یو ایس ایس آر (USSR) کے خفیہ و حساس اداروں سے تعاون کررہے تھے۔ اِن میں 49 انجنیئر، 22 صحافی، 8 پروفیسر اور 4 ماہرِ اقتصادیات شامل ہیں۔ یعنی سائنسدانوں اور انجینئروں کے بعد دوسرا بڑا طبقہ صحافی برادری میں موجود تھا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بعد ازاں اُن کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا جبکہ برطانیہ و دیگر اتحادی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد اِس کے علاوہ ہیں۔

صحافت، جاسوسی، برطانیہ اور سوویت یونین کا ذکر، گائے برگس (Guy Burgess) کے بغیر ادھورا و نا مکمل رہتا ہے۔ یہ بہت ہی مشہور و معروف ’’کیمبرج کے جاسوس‘‘ گروپ کا حصہ تھے جو کہ 5 افراد پر مشتمل گروپ تھا اور بعض اوقات ’’کیمبرج فائیو‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ اُن کے حوالے سے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کے علاوہ کافی مواد دستیاب ہے۔

گائے برگس 1911ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، بی بی سی کے ساتھ منسلک ہوئے، جنگِ عظیم دوم کے دوران بطور پراپیگنڈہ ماہر برطانیہ کے حساس ادارے میں خدمات سر انجام دیں، وزیر خارجہ کے معاون تعینات رہے، واشنگٹن ایمبیسی میں کچھ وقت گزارا، 1951ء میں سوویت یونین فرار ہوئے اور 1963ء میں وہیں وفات پائی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے یونیورسٹی کے دور ہی سے سوویت یونین کے لئے کام کرنا شروع کردیا تھا اور اُن میں لوگوں کو قائل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔

ایک زمانے میں امریکہ کا ٹائم میگزین جاسوسوں کا گڑھ تھا۔ وہیں کے ایک مدیر جو کہ شاعر، لکھاری اور مترجم تھے امریکہ مخالف کام کرتے رہے۔ اُن کا نام وٹ ٹیکر چیمبرز (Whittaker Chambers) ہے۔ انہوں نے خود اعتراف کرلیا تھا کہ وہ سوویت یونین کے لئے جاسوسی کرتے رہے ہیں اور بعد میں اپنی وفاداری تبدیل کرکے وعدہ معاف گواہ بن کر امریکی حکومت سے تعاون کیا۔ اُن کی گواہی کی بدولت ایک اور امریکی حکومتی عہدیدار Alger Hiss کو سزا ہوئی۔ وٹ ٹیکر چیمبرز کو 1984ء میں امریکی صدارتی تمغہ برائے آزادی سے نوازا گیا جبکہ اُن کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ اُن کو سوویت یونین نے بھی 1937ء میں خدمات کے اعتراف میں کسی اعزاز سے نوازا تھا۔

امریکی صحافی ونسٹن برڈٹ (Winston Burdett) جو کہ سی بی ایس ریڈیو اور ٹی وی کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ وہ سوویت یونین کے خفیہ اداروں سے تعاون کرتے رہے ہیں۔ یہ نیویارک میں پیدا ہوئے اور امریکہ میں ہی فوت ہوئے۔

والٹر لپمین (Walter Lippman) ایک مشہور اور قابل امریکی صحافی تھے۔ اُن کو بیسویں صدی کا طاقتور ترین صحافی اور جدید صحافت کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ اُن کو دو دفعہ پولیٹزر انعام (Pulitzer Prize) سے نوازا گیا۔ امریکی صدارتی تمغہ برائے آزادی کے حقدار ٹھہرے اور صدر ولسن کے باضابطہ اور تقریباً تین دیگر امریکی صدور کے غیر رسمی مشیر رہے۔ یہ براہِ راست تو سوویت یونین کے ہاتھ نہ آئے مگر اُن کی اہمیت کی وجہ سے کے جی بی (KGB) نے اُن کی سیکریٹری کے طور پر اپنی ایک جاسوس کو تعینات کروایا اور یوں بہت ہی بیش قیمت معلومات حاصل کرتے رہے۔

اُن کے علاوہ امریکی صحافی آئی ایف اسٹون اور ارنیسٹ ہیمنگ وے (Ernest Hemingway) بھی سوویت یونین کے لئے جاسوسی اور تعاون کرنے کے الزامات کی زد میں آئے ہیں۔ گوکہ ابھی کُلی طور پہ یہ ثابت ہونا باقی ہے۔

دنیا میں ایسے صحافیوں کی بھی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے ملک کے خفیہ اداروں کے لئے صحافت کا استعمال کیا اور دشمن ملک کے خلاف جاسوسی کے ساتھ ساتھ رائے عامہ ہموار کی۔

اِن کرداروں میں سب سے بڑا نام برطانیہ کے گراہم گرین کا ہے جن پر سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور اُس کے حلیف ملکوں کے خلاف معلومات حاصل کرنے اور پھر ملکی خفیہ اداروں کو مہیا کرنے کا الزام ہے۔ اُن کی بہن باقاعدہ طور پر برطانیہ کے حساس ادارے ایم آئی سکس (MI6) کے اہم عہدے پر تعینات رہیں۔

امریکی صحافی پیٹر میتھیسن (Peter Mathessen) اپنے ملکی ادارے سی آئی اے کے لئے کام کرتے رہے۔ اِسی طرح برطانوی صحافی سینڈی گال کی مرحوم ضیاء الحق سے دوستی رہی اور اُن کو 1985ء میں ستارہ پاکستان سے بھی نوازا گیا۔ اُن پر بھی خفیہ اداروں سے روابط کا الزام لگتا رہا ہے۔

صحافت کا جاسوسی اور خفیہ اداروں کے لئے استعمال ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں امریکہ کے جید صحافی کارل برن اسٹین نے صحافت اور سی آئی اے کے گٹھ جوڑ پر ناصرف تنقید کی ہے، بلکہ اُس کو بے نقاب بھی کیا ہے۔ ایسے عظیم صحافیوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ اقدار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اداروں کے آلہ کار بننے سے اجتناب کیا۔ یہ افراد نہ صرف لائق تحسین ہیں بلکہ باعثِ تقلید بھی ہیں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
عامر بھٹی

عامر بھٹی

بلاگر پیشے کے اعتبار سے ایک الیکٹریکل انجینیئر ہیں۔ برطانیہ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ پڑھنے سے رغبت اور لکھنے کا شوق ہے۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔ @AmirBhatti_PK

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔