ہم اور ہمارا ’’بے حس معاشرہ‘‘

مبین مرزا  اتوار 18 جون 2017
ہمیں شعوری سطح پر اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم اپنی دشمن قوتوں کا آلۂ کار نہ بنیں۔ فوٹو : فائل

ہمیں شعوری سطح پر اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم اپنی دشمن قوتوں کا آلۂ کار نہ بنیں۔ فوٹو : فائل

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں، وہ کیسا ہے؟ نہیں کیا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ایسا کوئی مرحلہ پیش ہی نہیں آیا اور ایسا کوئی تجربہ ہی نہیں ہوا جو آپ کو مجبور کرتا کہ آپ ذرا اپنے معاشرے کے بارے میں سوچیں، اس کی صورتِ حال کا جائزہ لیں اور اس کے رویوں پر غور کریں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ یہ ساری کھکھیڑ اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ معاشرے سے بے پروا ہیں، یا پھر آپ خود مکتفی آدمی ہیں اور معاشرے کے رشتے سے آزاد۔ وجہ کچھ بھی ہو، خلاصہ یہ ہے کہ آپ معاشرے سے اپنے رشتے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اس لیے اس کے بارے میں سوچنا اور رائے قائم کرنا آپ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

چلیے خیر، ذاتی رائے نہ سہی، معاشرے کے بارے میں دوسروں کے خیالات اور آرا کا تو آپ کو ضرور اندازہ ہوگا۔ ظاہر ہے، آپ ٹی وی دیکھتے اور اخبار پڑھتے ہوں گے۔ ان دونوں ذرائع سے آپ کو کسی قدر یہ اندازہ تو یقیناً ہوگا کہ جس معاشرے میں آپ جی رہے ہیں، وہ اچھا نہیں ہے۔ اُس میں جینا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اس لیے کہ یہ معاشرہ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے۔

مذہبی، اخلاقی، تہذیبی، معاشی، سیاسی، تعلیمی چاہے جس زاویے سے دیکھ لیجیے، یہاں تو بس ابتری کا منظرنامہ سامنے ہے۔ اس ضمن میں جس رائے کا اظہار سب سے زیادہ کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بے حس ہوچکا ہے اور یہ بے حسی روز بہ روز مزید سے مزید تر بڑھتی چلی جارہی ہے۔ یہ تذکرہ ہمارے سامنے روز ہوتا ہے اور کسی بھی لحاظ یا مصلحت سے قطعِ نظر بالکل صاف اور کھلے لفظوں میں کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم آئے دن اس طرح کی باتیں سنتے ہیں تو اس کے بعد معاشرے کو براہِ راست اور بہت کھلے لفظوں میں چاہے ہم خود برا نہ بھی کہیں، لیکن اس کے بارے میں ہماری رائے اچھی تو ہرگز نہیں ہوگی، بھلا ہو بھی کیسے سکتی ہے۔

کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ہم تھوڑا سا وقت نکال کر ذرا خود بھی اس معاشرے، اس کے رویوں اور صورتِ حال پر نگاہ ڈالیں۔ اس کے معاملات، مسائل اور رویوں کا اپنے طور پر تجزیہ کرکے رائے قائم کریں۔ تو چلیے آئیے آج یہ کام آپ اور ہم مل کر کیے لیتے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ چل رہا ہے۔ اللہ کی رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کا خاص مہینہ۔ اسی مبارک مہینے میں ہمارے یہاں ذخیرہ اندوز اور منافع خور لوگوں کی خوب بن آتی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی قیمت کو تو ہمارے یہاں جیسے اس مہینے میں آگ لگ جاتی ہے۔

حال یہ ہوجاتا ہے کہ کم آمدنی والے اور پس ماندہ حال لوگ بے چارے پھل کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پھر عید آتی ہے۔ عام آدمی اپنے لیے چاہے کچھ نہ کرے، لیکن بچوں کے لیے تو ضرور کپڑے خریدنا چاہتا ہے، اور کپڑوں کی قیمتیں ہیں کہ آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بازاروں میں بچوں کے کپڑوں، جوتوں کی قیمتیں بڑوں سے بھی زیادہ نظر آتی ہیں۔ غریب آدمی کیا کرے، کہاں جائے اور کیسے پورا کرے؟

سچ پوچھیے تو ایک رمضان ہی پر کیا موقوف کہ آدمی اُس کا رونا لے کر بیٹھ جائے۔ کیا سال کے باقی گیارہ مہینے ہمارے یہاں ہن برستا ہے؟ ہرگز نہیں۔ باقی گیارہ مہینوں کا حال بھی کوئی ڈھکا چھپا تھوڑی ہے کہ کچھ اندازہ ہی نہ ہو۔ یہاں تو یہی ہے کہ ساون ہرے نہ بھادوں سوکھے۔ یہی حالاتِ حاضرہ ہیں۔ اور دلاور فگار مرحوم نے کہا تھا:

حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہوگئے

عام آدمی اور اُس کو درپیش معاملات و مسائل کے زاویے سے دیکھا جائے تو ہمارے یہاں تو اصل میں حالاتِ حاضرہ نام ہے رنج، کلفت، افسوس، جھنجھلاہٹ، غصے، مایوسی اور افسردگی کا، اور برسوں سے یہ حالات جیسے ہمارے یہاں آکر ٹھہر گئے ہیں، جانے کا، بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ محاورہ ہے کہ بارہ برس میں تو گھورے کے دن بھی پھر جاتے ہیں۔ اچھا صاحب، تو گھورے کے پھر جاتے ہوں گے، پر ہمارے تو نہیں پھرے، حالاںکہ اس عرصے میں راج سنگھاسن پر بھانت بھانت کا تماشا چلتے دیکھا۔ ڈکٹیٹر آیا، جمہوریت آئی، پھر اس سے زیادہ بڑے نعروں اور دعووں کے ساتھ دوبارہ جمہوریت آئی، لیکن نہ بہار آئی، شاید نہ بہار آئے۔

کہا جاتا ہے، کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ یہاں تو دن رات کا چلن یکساں ہے۔ دن ہیں تو تھکا دینے والے گرمی کے دن اور راتیں ہیں تو اماوس کی اُداس راتیں۔ دنیا ترقی کرتی ہے، حالات بہتر ہوتے ہیں، امن و اماں، کارِ معاش، طرزِ حیات میں امید جاگتی ہے، حوصلے کا در کھلتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قومیں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئیں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئیں اور ایک ہم ہیں کہ روز بہ روز کچھ اور ڈھئے جاتے ہیں۔ حضرت علامہ ٹھیک ہی تو کہہ گئے ہیں:

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر

سیاسی رہنماؤں کو دیکھیے تو اقتدار کے سوا اس دنیا میں انھیں کسی اور شے سے کوئی سروکار ہی نظر نہیں آتا۔ جو اس وقت اقتدار میں ہیں، وہ اِس سے آخری سانس تک چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ باقی سب اس کے لیے یوں ہاتھ پاؤں مارتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر انھیں اقتدار نہ ملا تو گویا زندگی اکارت چلی گئی۔ کہتے ہیں، اقتدار تو ہوس داروں کی دوڑ ہے، تو چلیے اسے ہٹائیے ایک طرف، دین داروں کو دیکھ لیجیے۔ یاخدا! یہاں کون سا مختلف منظر ہے، سو کیا دیکھے آدمی اور کیا کہے۔ یہاں بھی ایک سے بڑا ایک مسئلہ ہے۔

دین کے نام پر فرقہ واریت کا فروغ عام ہے۔ ہر گروہ خود کو حق کا نمائندہ اور دوسرے کو باطل کی علامت گردانتا ہے۔ دین انسانوں کو بھلائی سکھانے کے لیے آیا تھا، آج صورتِ حال برعکس ہے۔ اچھا چھوڑیے، ڈاکٹرز کو دیکھ لیجیے، کبھی اس پیشے میں مسیحا نفس لوگ ہوتے تھے، اب اکثریت ان کی ہے جنھیں ڈاکو کہیے۔ تعلیم کو دیکھ لیجیے، تہذیب و علم کی جیتی جاگتی تصویریں اس شعبے میں نظر آتی تھیں، لیکن آج اس میدان میں کاروباری ذہنیت کے حامل لوگ اور جہلا زیادہ تعداد میں ہیں۔ وکلا کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔ انھیں اب انصاف سے غرض ہے اور نہ ہی سچائی کی پیروی سے۔ وہ تو جیسے بھی ممکن ہو، مؤکل کو نچوڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ شعبے تو کتنے ہی اور ہیں، لیکن آدمی کیا کیا گنے اور کیا کیا گنائے۔ غرضے کہ جس شعبے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھیے، افسردہ کردینے والی صورتِ حال سامنے آتی ہے۔ ایک مایوسی بہرگام ہوئی جاتی ہے۔

حالات واقعی افسردہ کیے دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو جیسے سارے رویے بدل گئے، سوچ بدل گئی، زندگی گزارنے کا پورا چلن ہی بدل گیا۔ جو نقشہ پیش کیا گیا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔ جو دکھائی دے رہا ہے، اُسے جھٹلایا نہیں جاسکتا، لیکن (اور یہ لیکن بہت بڑا اور بہت اہم ہے، اس لیے اس پر ذرا تحمل سے غور کرنے کی ضرورت ہے) جو کچھ بھی سطورِ گزشتہ میں ہم نے دیکھا ہے، وہ ہمارے معاشرے کی تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر تصویر میں سیاہ و سفید یا دھوپ چھاؤں کا امتزاج ہوتا ہے۔ کوئی تصویر مکمل سفید یا مکمل سیاہ نہیں ہوسکتی۔ اس اصول کا اطلاق انسانی معاشرے پر بھی ہوتا ہے۔ اس میں بھی روشنی اور تاریکی کا امتزاج ہوتا ہے۔ واقعہ اصل میں یہ ہے کہ انسانی فطرت بیک وقت خیر و شر سے سروکار رکھتی ہے۔ ازل سے نفسِ انسانی میں دونوں کی مسلسل ایک پیکار سی چلتی رہتی ہے۔

شیطان کا شیطان فرشتے کا فرشتہ
انسان  کی  یہ  بوالعجبی یاد  رہے  گی

ہم اپنے معاشرے کی خرابیوں کی بہت شکایت کرتے ہیں۔ کوئی مضائقہ نہیں، کرنی بھی چاہیے۔ تکلیف اور مسائل ہوں گے تو لازمی ہے کہ شکایت بھی ہوگی۔ جب شکایت ہوگی تبھی تو اصلاح کی صورت بنے گی۔ یہ ٹھیک ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس شکایت میں حقائق کا پورا تناظر نگاہ سے اوجھل نہ ہو۔ مثال کے طور پر ذرا اس پہلو سے بھی تو غور کرنے اور دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اور جس کی بے حسی کا رونا روتے ہیں، یہ وہی معاشرہ ہے جس نے اپنے زندہ، بیدار، حساس اور باضمیر ہونے کا ثبوت بار بار اور سو طرح پیش کیا ہے۔

دیکھیے یہ وہی معاشرہ ہے ناں، جس نے اپنی مدد آپ کے تحت چیریٹی کے بڑے بڑے ادارے بنانے میں دل کھول کر حصہ لیا ہے۔ یہ حصہ صرف امیر لوگوں نے نہیں لیا، بلکہ ہر طبقے کے افراد نے اپنی بساط کے مطابق اس کام میں شرکت کی ہے۔ آج ہمارے یہاں SIUT، شوکت خانم اسپتال، سول اسپتال، المصطفیٰ اسپتال، کڈنی سینٹر، انڈس اسپتال، سہارا فاؤنڈیشن، زکوٰۃ فاؤنڈیشن جیسے دو چار نہیں درجنوں ادارے ہیں جن کو چلانے میں عوامی جذبہ اور تعاون غیر معمولی سطح پر اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں نہیں، سیکڑوں نہیں، ہزاروں مدرسے، دینی ادارے اور درسگاہیں ہیں جو عوام کی مدد سے اس معاشرے میں اپنا کام کارآمد سطح پر اور مسلسل سرانجام دے رہے ہیں۔

یہی بے حس معاشرہ ہے جس میں دو چار نہیں ہزاروں افراد ایسے ہیں جو زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کی مد میں خطیر رقم بڑی پابندی اور ذمے داری کے ساتھ غربا، مساکین، یتیموں، بیواؤں اور بیماروں پر خرچ کرتے ہیں۔ اُن سے یہ رقم کوئی ڈنڈے کے زور پر لینے نہیں آتا اور نہ کوئی اُن سے اِس مد میں مال دینے کی فرمائش کرتا ہے۔ یہ سب کام بڑے خشوع و خضوع سے اور رضاکارانہ طور پر کیے جاتے ہیں۔ یہی بے حس معاشرہ ہے جس میں جب کبھی زلزلے یا سیلاب کی آفت آتی ہے تو لوگ ایک آواز پر اپنے عطیات لے کر نکل آتے ہیں۔

یہی بے حس معاشرہ ہے جس کے افراد صرف اپنی مٹی اور اپنے ہم وطنوں کے لیے ایثار و محبت کا مظاہرہ نہیں کرتے، بلکہ جب بھی ضرورت پڑتی اور حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں تو یہاں کے امیر غریب سب فلسطین، کشمیر، بوسنیا، صومالیہ، ایتھوپیا لیبیا، مصر اور شام کے لوگوں کے لیے بھی حتی الوسع امداد اور فلاح کے کاموں میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ جی ہاں، یہی بے حس معاشرہ ہے جس میں غریب لڑکیوں کی شادی اور بے سہارا بچوں کی تعلیم کے کام لوگ خاموشی کے ساتھ مسلسل اسی طرح کرتے ہیں جیسے یہ اُن کا فرضِ عین ہے۔

یہی بے حس معاشرہ ہے جس میں ہوٹلوں کے باہر بیٹھے ہوئے لاکھوں افراد کو ہر روز لوگ چپ چاپ کھانے کھلانے کے پیسے دے کر چلے جاتے ہیں۔ یہی بے حس معاشرہ ہے جس کے شہروں میں رمضان کے ان دنوں میں ہم روز دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ اشیاے خوردنی بانٹتے اور راستے میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے سڑکوں پر اور چوراہوں پر افطار کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔

دیکھ لیجیے اور اس پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ یہ اُس بے حس معاشرے کی تصویر کا دوسرا رُخ ہے، جس کے بارے میں آپ اور ہم آئے دن منفی باتیں سنتے ہیں، سنتے ہی نہیں، ان باتوں میں ہم بھی اپنی اپنی حیثیت اور مزاج کے مطابق حصہ ادا کرتے ہیں۔ معمول بن چکا ہے کہ ہم سبھی سب اپنے معاشرے کی برائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایسے مواقع ہم خود اہتمام سے پیدا کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے، ہم یہ بات بالکل بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ کوئی ایبسرڈ شے نہیں ہے۔

یہ بڑا حقیقی وجود ہے اور اس وجود کی تشکیل و تعمیر میں اوروں کے ساتھ ساتھ خود ہم بھی تو شامل ہیں۔ معاشرہ تو قلعے کی دیوار کی طرح ہوتا ہے کہ اُس کی ہر اینٹ اہم ہوتی ہے۔ اگر ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائے یا نکل جائے یا اس میں رخنہ پیدا ہوجائے تو دشمن کے مقاصد کی تکمیل میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ اچھے برے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے میں بھی ہوں گے، لیکن برائی کا تناسب ہمارے یہاں اب بھی کم ہے اور آگے چل کر مزید کم ہوجائے گا، ان شاء اللہ۔ اس لیے کہ ہم فطری اور تہذیبی طور پر خیر پسند لوگ ہیں۔

علاوہ ازیں ہمارے یہاں تعلیم اور احتساب کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ ابھی یہ عمل کسی نمایاں سطح پر اور بڑے تناسب کے ساتھ نظر نہیں آرہا، لیکن شروع بہرحال ہوچکا ہے۔ یہ عمل اب رُکے گا نہیں۔ معاشرے اور تہذیب میں تطہیر کا کام جب ایک بار شروع ہوجاتا ہے تو وہ اپنے منطقی مراحل طے کیے بغیر ختم نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں چوںکہ ابھی بہت معمولی سطح پر اس کا آغاز ہوا ہے، اس لیے، اس کام میں کچھ وقت ضرور لگے گا، لیکن ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اب اسے ہوکر رہنا ہے۔ اسے روکا نہیں جاسکتا۔

ہمارا مسئلہ معاشرتی خرابیاں اور مسائل تو بے شک ہیں، لیکن ان سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان خرابیوں اور مسائل کو ہمارے یہاں اُچھالا بہت جاتا ہے، اس حد تک کہ جو لوگ امید اور حوصلے سے کام لینا چاہتے ہیں، وہ بھی نہ چاہتے ہوئے حوصلہ شکن باتوں کا اثر لینے لگتے ہیں۔ اصل میں ان ساری منفی اور سنی سنائی باتوں کی تشہیر باقاعدہ اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح کوئی پروپیگنڈا مہم چلائی جاتی ہے۔ اس مہم میں آپ، ہم سب شعوری، لاشعوری طور پر شامل ہوتے اور اسے بڑھاوا دیتے ہیں۔ جی ہاں، واقعی ایسا ہوتا ہے۔

اب سوچیے کہ آخر ایسا کب ہوتا ہے؟ اس وقت جب ہم منفی باتوں کو ان کی حقیقت اور تفصیل جانے بغیر آگے بڑھا دیتے ہیں۔ ہم اُن کی تحقیق نہیں کرتے۔ ٹھیک ہے، برائیوںکو چھپاکر انھیں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں سامنے لایا جائے اور ان کا سامنا کیا جائے تاکہ اُن کے سدِ باب کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔ تاہم دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ جب برائیوں کا بہت زیادہ چرچا کیا جاتا تو وہ بدی، شر، ظلم، ناانصافی اور زیادتی کے جراثیم کو پھیلانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ بیمار ذہنیت کے حامل لوگوں کے لیے ترغیب کا باعث بنتا ہے۔

یہی نہیں، وہ معاشرے کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور اسے کم زور کرتا ہے۔ ہمارے اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔ اس کی قوت کو زائل کرتا ہے۔ ہمارے اندر تشکیک کا رویہ پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ ہم اُن باتوں، کاموں، لوگوں اور معاملات کو بھی شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، جن میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔ اُن کے بارے میں بھی تشویش اور تردّد کا اظہار کرنے لگتے ہیں جن کے بارے میں ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔ بس اس طرح آگے چل کر پھر ہمارا ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ باہمی اعتماد کی فضا مجروح ہوتی ہے۔

معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور کسی بھی معاشرے کے افراد کے مابین ایثار استحکام کے جذبے اور اجتماعی قوت کے فروغ میں سب سے اہم کردار اعتبار و اعتماد کا ہوتا ہے۔ افراد کا ایک دوسرے پر اعتبار اور اپنی تہذیبی و سماجی قدروں پر اعتماد۔ جن معاشروں میں اعتبار و اعتماد کی صورتِ حال بدلنے لگتی ہے، ان کا معاشرتی نظام بدلنے لگتا ہے۔ اِس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اُس تہذیب اور معاشرے کی دشمن قوتیں اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتی ہیں اور معاشرتی انہدام کی راہ ہموارکرنے لگتی ہیں۔

ہمیں شعوری سطح پر اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم اپنی دشمن قوتوں کا آلۂ کار نہ بنیں۔ ہمیں اپنی تہذیب، معاشرے اور اپنی قوت کی حفاظت کرنی ہے، جو صرف اور صرف اعتبار و اعتماد کی فضا ہی میں ممکن ہے اور یہی ہماری آئندہ نسلوں کی بقا اور حفاظت کا واحد راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔