وادی سوات کے بدلتے حالات

شیرین زادہ  جمعرات 16 نومبر 2017
کوئی کہتا ہے کہ سوات کو دو حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے، تو کوئی اس کی مخالفت کررہا ہے۔ عوام وادی سوات کی تقسیم پر الجھے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کوئی کہتا ہے کہ سوات کو دو حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے، تو کوئی اس کی مخالفت کررہا ہے۔ عوام وادی سوات کی تقسیم پر الجھے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

وادی سوات کا شمار پاکستان کے قدرتی حسن سے مالامال پُرفضا مقامات میں ہوتا ہے۔ دریائے سوات کی سرد لہریں، برفیلے اور بلند و بالا پہاڑ، گھنے جنگلات، سرسبز اور کھلے میدان، ہر طرف ہریالی، پھلوں کے باغات، چشمے اور شفاف ندیاں، بلند آبشاریں، طلسماتی جھیلیں، گلیشئئر اور گرمیوں میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اس کے مو سم اور خوبصورتی میں مزید اضا فہ کردیتی ہیں۔

سوات جہاں اپنی خوبصورتی اور رعنائی کے لحاظ سے پوری دنیا میں مشہور ہے وہیں یہ ماضی میں آزاد اور خودمختار ریاست کے ساتھ ساتھ ہزاروں سال پرانی تہذیب بھی اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے۔ ہر سال آثارِقدیمہ کو دیکھنے کےلیے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد سوات کا رخ کرتی ہے۔ یہا ں 2200 کے قریب تاریخی مقامات موجود ہیں۔ وادی سوات زمانہ قدیم سے اپنی خوبصورتی اور زرخیزی کی وجہ سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی یہ خوبصورتی خود اس کےلیے وبال جان بنتی رہی ہے۔ مختلف ادوار میں بیرونی حملہ آور اس پر دھاوا بولتے رہے ہیں۔ کبھی ایرانیوں نے تو کبھی یونانیوں نے حملے کیے۔ کبھی یہ وادی بدھ مت کے پیروکاروں کا مقدس مقام رہی۔

وادی سوات کی تاریخ پر بحث کی جائے تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ بہت اتار چڑھاؤ کے بعد 1917 میں میاں گل عبدالودود نے یہاں ایک منظم اور جدید فلاحی ریاست قائم کی جس میں انصاف کی فراہمی، صحت، مواصلات کا بہترین نظام اور سب سے بڑھ کر تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بنتے چلے گئے جن کی تعداد 1576 تک جاپہنچی۔ یہی وجہ ہے کہ سوات کے عوام آج بھی ان کی حکومت کی مثال دیتے نہیں تھکتے۔

ملکہ الزبتھ بھی دو مرتبہ ریاست سوات کا دورہ کرچکی ہیں۔ غرض یہ ایک تاریخی ریاست تھی جسے بجا طور پر مشرق کا سوئٹزرلینڈ قرار دیا گیا۔ پھر 1969 میں ایوب خان کے دور میں باہمی رضامندی سے سوات کا ادغا م پاکستان میں کردیا گیا۔ آج وادی سوات کی آبادی 23 لاکھ سے متجاوز ہے۔ پشاور اور مردان کے بعد یہ خیبر پختونخواہ کا تیسرا بڑا ضلع ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے سوات کی تقسیم سے متعلق مختلف خبریں گردش کررہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سوات کو دو حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے، تو کوئی اس کی مخالفت کررہا ہے۔ عوام وادی سوات کی تقسیم پر الجھے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے مدین کے جلسے سے خطاب میں اپر سوات ضلع بنانے کا زبانی اعلان کرکے نوٹیفیکیشن جلد جاری کرنے کا یقین دلایا تھا، تاہم اس فیصلے سے سوات کی سیاسی جماعتوں، تاجر برادری اور عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کے اعلان کو مسترد کردیا ہے جبکہ تاجر برادری نے بھرپور مزاحمت کا اشارہ بھی دیا ہے۔ ضلع کی تقسیم پر صوبائی حکومت کے ممبران اسمبلی اور سیاسی جماعتیں بھی دو حصوں میں بٹ گئی ہیں۔ ضلع سوات آبادی کے لحاظ سے اس وقت خیبرپختونخوا کے تیسرے بڑے ضلعے اور ملاکنڈ ڈویژن کے سب سے بڑے ضلعے کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اس کی سات تحصیلیں ہیں: تحصیل بابوزئی، تحصیل بریکوٹ، تحصیل کبل، تحصیل چار باغ، تحصیل بحرین، تحصیل مٹہ اور تحصیل خوازہ خیلہ۔ صوبائی حکومت جن تحصیلوں پر مشتمل دوسرا ضلع بنانا چاہتی ہے اُن میں تحصیل مٹہ، تحصیل بحرین، تحصیل خوازہ خیلہ اور تحصیل چار باغ شامل ہیں جبکہ باقی تین تحصیلوں یعنی تحصیل بابوزئی، تحصیل بریکو ٹ اور تحصیل کبل کو لوئر سوات کے نام سے ضلع بنائے جانے کا امکان ہے۔

عوامی حلقوں اور تاجر و سیاسی برادری کا خیال ہے کہ ماضی میں سوات کی جن تین تحصیلوں کو آج ضلع بونیر، ضلع شانگلہ اور ضلع کوہستان کا درجہ دیا گیا ہے اب وہاں پر وسائل موجود نہیں۔ اگر اضلاع شانگلہ، کوہستان اور بونیر میں تعلیم کی بات کی جائے تو بونیر کا (جو 1991 میں سوات سے جدا کرکے الگ ضلع بنادیا گیا تھا) دارومدار آج بھی سوات ہی پر ہے۔ اسی طرح 1994ء میں ضلعے کی حیثیت پانے والے ضلع شانگلہ کی 80 فیصد آبادی کا انحصار بھی آج تک سوات ہی پر ہے۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ 26 سال بعد بھی جب ضلع بونیر اور شانگلہ کو وہ سہولیات حاصل نہیں جو ایک ضلعے کے عوام کےلیے ضروری ہوتی ہیں تو سوات کو بھی دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا تو کسی بڑے فائدے کا امکان نہیں۔ اس سے وہاں عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔

ضلع سوات سے الگ ہونے والے اُن اضلاع کا جائزہ لینا چاہیے کہ سوات سے علیحدہ ہونے کے بعد اُن کو کیا ملا؟ کیا صرف انتظامی اُمور کےلیے چند دفاتر اور افسران کی تعیناتی کو ہم ترقی کہہ سکتے ہیں؟ عوام کی نظروں میں یہ ترقی ہرگز نہیں۔ اُن کی ترقی سے محرومی کے ذمہ دار اُن کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ہیں کیونکہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم ضلعے کی سطح پر نہیں بلکہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے حلقوں کی سطح پر ہوتی ہے۔ منتخب ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں کی ترقی کےلیے نہ صرف اپنے فنڈز صوبائی حکومت سے وصول کرتے ہیں اور وہاں پر ترقیاتی کام کرتے ہیں، بلکہ سینیٹرز سے بھی اُن کے فنڈز لے کر اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کروائے جاتے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ والئ سوات کے بعد کسی امیدوار نے بھی ان حلقوں میں عوام کا معیار زندگی بہتر کرنے کےلیے کچھ نہیں کیا؛ اور اب یہ ممبران اسمبلی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کےلیے ضلعے کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔

سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم نے اس حوالے سے کہا کہ سوات کو دوحصوں میں تقسیم کرنا سوات کے عوام کے درمیان نفرتوں کے بیچ بونے کی مذموم سازش ہے جس کی وہ شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ 18 کلومیٹر کے محدود علاقے میں دوسرا ضلع بنانے سے ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ تقسیم سے ترقی کا خواب پورا کرنے کےلیے سب سے پہلے سوات کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں جن میں تعلیم، صحت کی سہولیات، سوات سینٹرل جیل کی تعمیر، جنگلات سے رعایتی قیمتوں پر لکڑی کا کوٹہ، بجلی، سوئی گیس، دریائے سوات کے پانی سے زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کےلیے پشتے تعمیر کرانے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے واٹر فلٹریشن پلانٹ وغیرہ شامل ہیں۔ صوبائی حکومت سوات کو تقسیم کرنے کے بجائے بنیادی سہولیات بہم پہنچانے پر توجہ دے کیونکہ ضلع سوات کے عوام نے 6 ایم پی ایز اور 2 ایم این ایز کے ذریعے بھاری مینڈیٹ دے کر انہیں حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سیدو شریف کا اسپتال ایم ایم اے دورِحکومت میں بنا لیکن فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے تاحال اس میں علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ اس دوران دو حکومتیں ختم ہوئیں اور اب تحریک انصاف کی حکومت بھی اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے لیکن اسپتال کا معاملہ جوں کا توں لٹکا ہوا ہے۔

سوات کی ترقی کےلیے زمرد کی کانوں، معدنیات اور جنگلات کی رائیلٹی سے حاصل ہونے والی رقم ان علاقوں کی ترقی کےلیے استعمال کی جائے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی سوات سے زیادتی کا سلسلہ ختم نہ ہوسکا۔ وزیراعلیٰ کے پی کے کو ضلع سوات سے اتنی ہی محبت اور ہمدردی ہے تو صوبائی وزارتِ جنگلات کی ذمہ داری ایم پی ایز محمود خان یا محب اللہ خان میں سے کسی کو دے دی جاتی کیونکہ یہ دونوں صاحبان ہی جنگلات کے تحفظ کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بجائے سوات سے ان منتخب نمائندگان کو غیر اہم یعنی کھیل وثقافت، مشیر لائیو اسٹاک اور مشیر اینٹی کرپشن کے عہدوں پر ٹرخا دیا گیا جبکہ ایم پی اے ڈاکٹر حیدر علی اور ڈاکٹر امجدعلی میں سے کسی ایک کو بھی وزارت صحت کا قلمدان دینا موزوں نہیں سمجھا گیا۔ ایم پی اے عزیزاللہ گران اور فضل حکیم میں سے کسی ایک کو زراعت کی وزارت کیوں نہیں دی گئی؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وزارت جنگلات جس کو دی گئی ہے ان کے علاقے میں گوبھی اور چقندر بکثرت ہوتی ہے۔ وزیر جنگلات موصوف کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جنگلات میں کتنے اقسام کے درخت ہوتے ہیں؟

اب صورتحال یہ ہے کہ اگر ممکنہ طور پر اپرسوات الگ ضلع بن بھی گیا تو ڈپٹی کمشنر مٹہ میں تعینات ہوگا، جبکہ ڈی پی او خوازہ خیلہ میں تعینات کیا جائے گا جس کی وجہ سے لوگ گیمن پل کا طواف کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس حوالے سے ہمارے تحفظات واضح ہیں کہ اگر ترقی کا راز تقسیم میں پوشیدہ ہے تو پہلے 95 یونین کونسلز پر مشتمل ضلع پشاور کا حق بنتا ہے کہ اسے تین ضلعوں میں تقسیم کیا جائے؛ پھر 75 یونین کونسلز پر مشتمل ضلع مردان کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اگر کامیابی کا یہ تجربہ درست ثابت ہوا تو ضلع سوات کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ اگر منصوبہ ساز اپنی ضد پر قائم رہے تو پھر ہمارا مطالبہ ہوگا کہ ملاکنڈ ڈویژن اور ضلع کوہستان کو الگ صوبہ ملاکنڈ بنادیا جائے یا پھر سوات، شانگلہ، بونیر اور ضلع کوہستان پر مشتمل سوات ڈویژن بنادیا جائے۔ اس صورت میں ہم اپر سوات کی مشروط حمایت کرسکتے ہیں۔

سوات کی ترقی کےلیے مشترکہ کوششیں کی جائیں، یہاں روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں، سوات کو تعلیمی ترقی سے ہمکنار کرنے کےلیے داخلوں میں سہولیات فراہم کی جائیں۔ جنگلات، تعلیم، بلدیات، خزانہ اور صحت و زراعت کی وزارتیں دے کر سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر منصوبہ سازوں کی یہ ضد ہے تو ہمارامطالبہ ہے کہ منتخب ڈسٹرکٹ کونسلز ممبران کے ذریعے ریفرنڈم کرایا جائے۔

قومی وطن پارٹی کے ڈویژنل چیئرمین فضل رحمان نونو کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے ایسے وقت میں سوات کو دو اضلاع میں تقسیم اور اپر ضلعے کا اعلان کیا جب حکومت کے چند ماہ باقی ہیں۔ ان چند ماہ کے دوران اس اعلان کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر حکومت اپر ضلعے کےلیے فنڈز منظور بھی کرتی ہے تو وہ سوات کے اس موجودہ ضلعے کے فنڈز سے کٹوتی کرکے وہاں خرچ کرے گی جو موجودہ ضلعے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

ضلعی ناظم سوات محمد علی شاہ نے بھی فیصلے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کے اس فیصلے کے خلاف بھرپور مزاحمت اور اس فیصلے کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ سوات کو کسی صورت تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ سوات کو چونکہ ملاکنڈ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے حکومت کے اس فیصلے سے نہ صرف سوات کی تاریخی حیثیت ختم ہوجائے گی بلکہ ملاکنڈ ڈویژن کی ہیڈکوارٹر کی حیثیت بھی جاتی رہے گی ۔

جے یو آئی کے ضلعی جنرل سیکریٹری اسحاق زاہد نے کہا کہ ہم اس فیصلے کی سختی سے مخالفت کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ اعلان پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں، یہاں اسپتالوں اور تعلیم کے جو مسائل ہیں وہ حل کیے جائیں اور ان فضولیات پر ضلع سوات کے عوام کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

شوکت سلیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ضلع بنانے سے مسا ئل حل نہیں ہوتے بلکہ نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام بھی اب ضلعی سطح پر نہیں بلکہ تحصیل سطح پر ہے اور سوات کی تمام سات تحصیلو ں میں ڈسٹرکٹ سیشن جج تعینات ہیں اور عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف مل رہا ہے۔

سوات کی متوقع تقسیم کے حوالے سے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ایم این اے سلیم الرحمان، ایم پی ایز ڈاکٹر حیدر اور محمود خان نے اپر سوات ضلع بنانے کےلیے وزیراعلیٰ کو اپنی رائے سے آگاہ کردیا ہے جبکہ ایم این اے مراد سعید، ایم پی ایز محب اللہ، ڈاکٹر امجد اورعزیزاللہ گران نے اپر سوات ضلع کی شدید الفاظ میں مخالفت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے مذکورہ اعلان واپس لینے کےلیے رابطے کئے ہیں۔ صوبائی و قومی اسمبلی کے پی ٹی آئی کے اراکین کی دو متضاد رائے سے وزیراعلیٰ بھی مشکل میں پھنس چکے ہیں۔

سوات کے عوام وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ سے ایک سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ نے تو مدین کے گراؤنڈ میں چند ہزار افراد پر مشتمل اجتماع سے (جس میں صرف اپر سوات کے ایک حلقے سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے) اپر سوات ضلع بنانے کے حوالے سے ہاتھ اُٹھا کر رائے مانگی تھی جبکہ جو جلسہ گراسی گراونڈ میں منعقد ہوا تھا (جہاں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور دیگر سرکردہ عہدیداران، ممبران صوبائی و قومی اسمبلی اور کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی) آپ نے اُس جلسے میں موجود 40 ہزارسے زائد لوگوں سے اپر سوات ضلع بنانے کے بارے میں ہاتھ اُٹھا کر رائے لینے کی کوشش کی تھی۔ تب اپر سوات ضلع بنانے کے بارے جلسے میں موجود 40 ہزارسے زائد شرکاء میں سے محض چند سو لوگوں نے اپرسوات ضلع بنانے کے حق میں رائے دی جبکہ اکثریت نے ضلع بنانے کے اس فیصلے کو مسترد کیا۔

وزیراعلیٰ صاحب! عوام یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ گراسی گراؤنڈ میں اپر سوات ضلعے سے متعلق لوگوں کی رائے ایک ریفرنڈم تھی جس میں ضلع بھر کی تمام تحصیلوں اور حلقوں کے کارکنان شریک تھے، آپ نے اُن کے اُس ریفرنڈم سے کیوں صرفِ نظر کیا اور مدین میں اپرسوات ضلعے کےلیے چند ہزار لوگوں کی رائے پر اپرسوات ضلع بنانے کا اعلان کیوں کیا؟ وزیراعلیٰ صاحب اگر آپ کوضلعے بنانے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے پشاور کو چار اضلاع اور مردان کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کےلیے اعلانات کیجیے کیونکہ اگر اضلاع کی تقسیم ہی سے ترقی ہونی ہے تو آپ خیر کا یہ کام صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور ضلع سے کیجیے۔ اس کے بعد مردان کو بھی دو اضلاع میں تقسیم کرنے کےلیے اقدام اُٹھائیے اور یہ فائدے پشاور اور مردان کے عوام کو بھی پہنچائیے تاکہ اُن اضلاع کے لوگ بھی اس کارِ خیر سے مستفید ہوسکیں۔

وزیر اعلیٰ نے مدین کے جلسے میں اپر سوات ضلع بنانے کی یقین دہانی کرائی تو سوات کے باسی اس فیصلے پر خاموش نہ رہ سکے۔ سوات کے بالائی علاقوں کے لوگ تقسیم کے حق میں ہیں تو اکثریت کا مؤقف ہے کہ یہ سوات کی تاریخی حیثیت مسخ کرنے کی سازش ہے۔ اگر نئے اضلاع بنانے سے ترقی آتی ہے تو وزیراعلیٰ پہلے مردان اور پشاور کو تقسیم کرکے ترقی کا آغاز کیوں نہیں کرتے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شیرین زادہ

شیرین زادہ

بلاگر ایکسپریس ٹی وی میں رپورٹر کے فرائض انجام دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی سیاحت اور فوٹوگرافی پسندیدہ مشغلہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔