آرمی چیف کے حق میں بینرز لگانے والی جماعت ’’مووآن‘‘ کے سربراہ گرفتار

ویب ڈیسک  بدھ 20 جولائی 2016
محمد کامران کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی۔ فوٹو؛ فائل

محمد کامران کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی۔ فوٹو؛ فائل

 اسلام آباد: ملک کے مختلف شہروں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حق میں بینرز لگانے کے الزام میں غیر معروف جماعت ’’مووآن‘‘ کے سربراہ محمد کامران کو گرفتار کرلیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان کی غیر معروف جماعت ’’مووآن‘‘ کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر والے پوسٹر لگائے گئے تھے جس میں فوج کے حق میں نعرے درج تھے اور مبہم الفاظ میں فوج سے ملک میں ٹیک اوور کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پیپلزپارٹی نے آرمی چیف کے حق میں بینز لگانے کا الزام حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ اقدام حکومت نے نہیں کیا تو اس اقدام کے کرنے والے کو گرفتار کیا جائے جس پر آج ’’مووآن‘‘ کے سربراہ محمد کامران کو اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں واقع گیسٹ ہاؤس سے گرفتار کرلیا گیا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ فوج کا آرمی چیف کی تصویر والے پوسٹرز سے کوئی تعلق نہیں، آئی ایس پی آر

دوسری جانب محمد کامران کو گرفتار کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی ہے جس میں آئی جی اسلام آباد اور ایس ایچ او سیکریٹریٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں وکیل کی جانب سے کہا گیا ہےکہ ان کے موکل محمد کامران 22 جولائی تک حفاظتی ضمانت پر تھے لیکن پولیس نے غیر قانونی طور پر انہیں اسلام آباد سے گرفتارکیا جوعدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ اعتزاز احسن کا مووآن تحریک کے سربراہ کو گرفتار کرنے کا مطالبہ

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر آئی جی اسلام آباد اور ایس ایچ او سیکریٹریٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے اور انہیں حکم جاری کیا جائے کہ وہ محمد کامران کو فاضل عدالت کے سامنے پیش کریں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ “جانے کی باتیں جانے دو” لاڑکانہ میں بھی آرمی چیف کے بینرز لگ گئے

واضح رہےکہ  ’’مووآن‘‘ کے سربراہ محمد کامران کے خلاف موجودہ حکومت کے خلاف لوگوں کو بغاوت پراکسانے کا مقدمہ درج ہے جس کی قانون میں سزا عمر قید ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔