- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
- میئر کراچی کا وزیراعظم کو خط، کراچی کے ٹریفک مسائل پر کردار ادا کرنے کی درخواست
- رانا ثنا اللہ وزیراعظم کے مشیر تعینات، صدر مملکت نے منظوری دے دی
- شرارتی بلیوں کی مضحکہ خیز تصویری جھلکیاں
- چیف جسٹس مداخلت کاروں کی خاموش سرپرستی کے بجائے تمام تجاویز سامنے لائیں، پی ٹی آئی کا مطالبہ
- کراچی پولیس کا اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ
- ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز سامنے آگئیں
- آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل
- پاکستان کا تاریخی لونر مشن جمعے کو خلاء میں لانچ کیا جائے گا
- سعودی عرب میں عالمی رہنماؤں سے باہمی تعاون، سرمایہ کاری کے فروغ پر پیشرفت ہوئی، وزیراعظم
- جنگ بندی ہو یا نہ ہو، رفح پر حملہ کریں گے؛ نیتن یاہو کی ڈھٹائی
- امریکا میں ملزم کی پولیس پر فائرنگ؛ 4 افسران ہلاک اور 4 زخمی
- مریم نواز کا صوبے میں شادی کی تقریبات میں ون ڈش پرسختی سے عملدرآمد کا حکم
- اسرائیل مخالف مظاہرہ؛امریکی پولیس نے خواتین کا زبردستی اسکارف اتار دیا
- غذاؤں کا انتخاب دماغ کی صحت پر اثرات سے تعلق رکھتا ہے، تحقیق
- گھریلو اشیاء میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کے متعلق خوفناک انکشاف
- اسٹاک ایکسچینج میں مندی، انڈیکس میں 592.49 پوائنٹس کی کمی
- بلوچستان میں ٹرانسپورٹرز کا پہیہ جام ہڑتال کا اعلان
- جامعہ کراچی میں فلسطین اور امریکی طلبہ سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج
- ایل پی جی کی قیمت میں 11 روپے 88 پیسے کمی
اس گاؤں میں ہر شخص کو نام کی بجائے مخصوص گانے سے پہچانا جاتا ہے
نئی دھلی: بھارتی ریاست مگھلاوا میں واقع کونگ تھونگ ایک عرصے سے عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہاں ہر بچے کا ایک اصل نام رکھا جاتا ہے اور ماں اسے ایک گیت یا گانے کے نام سے پکارتی ہے اور وہ بھی اس کا نام پڑ جاتا ہے۔
تاہم یہ گیت بھی الفاظ کی بجائے سیٹیوں کی صورت میں ہوتا ہے جو صدیوں پرانی روایت کا ایک حصہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب گاؤں میں لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں تو وادی میں سیٹیوں جیسی آواز گونجتی ہے جو کانوں کو بھلی لگتی ہے۔
اپنی مہمان نوازی، خوبصورتی، اور قدرتی مناظر کی وجہ سے اقوامِ متحدہ نے بھی اس گاؤں کو بہترین سیاحتی مقام قرار دیا ہے۔ کونگ تھونگ کی کل آبادی 650 سے زائد ہے۔ یہاں لوگوں کا ایک باضابطہ اور آفیشل نام ہے تو دوسری جانب گنگناہٹ پر مبنی ایک اور نام بھی موجود ہے۔
جب کوئی بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو والدہ سے کہا جاتا ہے کہ جو بھی گانا اس کے دل میں آرہا ہے وہ گنگنائے۔ اس طرح وہ نغمہ بچے کا نام بھی ہوجاتا ہے۔ گانے کے بول ایک جانب سیٹی کی آواز میں ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں کو سیٹیوں کا دیہات بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ حیرت انگیز عمل ہے کہ والدہ بچے کا گیت خود ہی وضع کرتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہاں رہنے والے تین قبائلی سینکڑوں سال قبل جنگلات میں شکار کا ہانکا لگانے یا پھر آسیب بھگانے کے لیے سیٹیاں بجاتے تھے جو تبدیل ہوکر انسانوں کے نام رکھنے کی وجہ بھی بنا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیٹی نما ناموں کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو بہت دور سے بھی پکارسکتے ہیں۔ گیت والا ایک نام دس سے بیس سیکنڈ تک طویل ہوسکتا ہے۔ تاہم اب نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے لئے دوسرے مقامات تک جارہے ہیں اور یوں گاؤں کی آبادی کم ہوچکی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔