DNA فنگر پرنٹ تکنیک سے کوئی مجرم شناخت سے بچ نہیں سکتا

ٹیسٹ سے انسان کی نسل بھی معلوم کی جاسکتی ہے،ہرانسان کا ڈی این اے دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔


Tufail Ahmed January 24, 2018
20 سال قبل تکنیک امریکا میں متعارف کرائی گئی،سندھ میں موجود نہیں،CMHراولپنڈی میں بھی ہے۔ فوٹو: فائل

ڈی این اے فنگر پرنٹ تکنیک سے کوئی بھی مجرم اپنی شناخت سے بچ نہیں سکتا۔

طبی نکتہ نگاہ سے مذکورہ تکنیک کسی بھی جاندارکی شناخت کیلیے حتمی سمجھی جاتی ہے، قدرتی طورپر ہر انسان کا ڈی این اے (Deoxyribo Nucleic Acid )ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے جس طرح سے کسی بھی فردکی انگلیوں کے نشانات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ہر انسان کا ڈی این اے اسٹرکچر(بنیادی ڈھانچہ) دوسرے انسان سے علیحدہ ہوتا ہے۔

کسی بھی انسان کو تلاش یا سراغ لگانے کیلیے اس سے حاصل ہونے والا ڈی این اے اس کے استعمال کی جانے والی اشیا تولیہ،کپڑے، تھوک، کٹے ہوئے بال، ناخن سمیت ہر وہ اشیا جو اس کے استعمال میں ہو، ڈی این اے حاصل کیاجاسکتا ہے، دوسری جانب متاثرہ افراد یا زیادتی کا نشانہ یا قتل کیے جانے والی لڑکی کا بھی ڈی این اے حاصل کیاجاتا ہے۔

ڈی این اے خون کے نمونے سے بھی لیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں افرادکے ڈی این اے کا موازنہ کیا جاتا ہے اورفنگر پرنٹ تکنیک کے ذریعے یہ معلوم کیاجاتا ہے کہ زیادتی کرنے والا شخص کا ڈی این اے میچ کررہا ہے یا نہیں، اس تیکنیک سے تصدیق کی جاتی ہے، مذکورہ تیکنیک کسی بھی جاندارکی شناخت کیلیے حتمی سمجھی جاتی ہے۔

ڈی این اے تیکنیک کے ذریعے یہ بھی معلوم کیاجاسکتا ہے کہ مجرم کی نسل کیا ہے، اسے تکنیکی اعتبار سے Short Tendem Repcat کہا جاتا ہے،ڈی این اے کے (STR ) ہر انسان سے مختلف ہوتے ہیں اس کی شناخت اور (STR ) کی فنگرپرنٹ کسی بھی انسان کی شناخت کے لیے حتمی سمجھی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں اس تیکنیک نے شعبہ طب میں انقلاب برپاکردیا ،اس تیکنیک سے کوئی بھی مجرم اپنی شناخت سے چھپا نہیں سکتا تاہم یہ تیکنیک صرف پنجاب میں موجود ہے لیکن سندھ میں اس تیکنیک سے محکمہ صحت محروم ہے البتہ 5سال قبل سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے حیدرآباد جامشورومیں لمس میڈیکل یونیورسٹی میں ایک ادھوری لیب کوڈی این اے ٹیسٹ کے لیے ڈیکلرقرار دیاتھا لیکن اس لیب میں فنگرپرنٹ تیکینک سمیت دیگرسہولتیں میسر نہیں جبکہ یہ لیبارٹری بھی اب غیر فعال ہوگئی۔

دریں اثنا ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر ایس شمسی نے ایکسپریس کوبتایاکہ زنیب کی لاش اور اس کے جسم اورکپٹروں سے حاصل کیا جانے والا ڈی این اے لیاگیا جوگرفتارکیے جانے کے شخص سے میچ کرگیا اس تیکنیک کے ذریعے مجرم کے کپڑے ، پکڑنے یا جسم کو ہاتھ لگانے سے مجرم کا ڈی این اے کپٹروں یا جسم میں لگ جاتا ہے، اسی تیکنیک سے گمشدہ کوئی بھی مجرم یا جھلس کرجاں بحق ہونے والے کی بھی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر طاہر ایس شمسی کاکہنا تھا کہ اس تیکنیک میںکسی بھی غلطی کا امکان نہیں ہوتا یہ تیکنیک شعبہ طب میں حتمی اورمستند سمجھی جاتی ہے، ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ یہ تیکنیک 20سال قبل امریکا میں متعارف کرائی گئی تھی ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تیکینک ملٹری کمبائنڈ اسپتال پنڈی میں بھی موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں