تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں با لآخر دوریاں بڑھنے لگیں

شاہد حمید  بدھ 25 اپريل 2018
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان تلخیاں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں فوٹوفائل

تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان تلخیاں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں فوٹوفائل

پشاور: تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان تلخیاں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ عموماًمخلوط حکومتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے  حتٰی کہ متحدہ مجلس عمل کی حکومت بنیادی طور پر مخلوط حکومت نہیں تھی بلکہ انتخابات سے قبل بننے والے اتحاد کے تحت ایک ہی نشان پر امیدوار الیکشن  جیت کر آئے تھے تاہم حکومت کے آخری سال، چھ مہینوں میں جو کچھ ہوا  وہ سب تاریخ کا حصہ ہے کہ جب جماعت اسلامی اور جے یوآئی کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی اور ایک دوسرے پر جو کیچڑ اچھالا شاید اگر آج بھی ان پرانی داستانوں کے تذکرے چھڑ جائیں تو اب دوبارہ فعال ہونے والا ایم ایم اے بحال نہ رہ سکے۔

یہی صورت حال اب تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان بھی ہے کیونکہ تحریک انصاف ساری کشتیاں جلا کر الیکشن کے میدان میں اترنا چاہتی ہے جس نے اپنے ارکان کے خلاف کاروائی بھی اسی وجہ سے کی اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے جماعت اسلامی سے بھی دامن چھڑانا چاہتی ہے کیونکہ بہرکیف جماعت اسلامی عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی مخالف پارٹی کے روپ میں میدان میں موجود ہوگی۔

اس وقت پیدا ہونے والا تنازعہ امیر جماعت اسلامی کے منصورہ میں خطاب کے بعد شروع ہوا جس میں چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے حوالے سے اوپر سے ملنے والی ہدایات کا ذکر بھی کیا گیا اور پورے کے پورے اصطبل بک جانے کی بات بھی ہوئی جس کے بعد لازمی طور پر تحریک انصاف کی جانب سے اس سلسلے میں ردعمل آنا ضروری تھا، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی تنظیم کی جانب سے بھی فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا گیا اور ساتھ ہی خیبرپختونخوا  کے وزیراعلیٰ کے ترجمان نے بھی جماعت اسلامی کے وزراء کو ’’آستین کا سانپ‘‘قرار دیتے ہوئے حساب برابر کرنے کی کوشش کی کیونکہ تحریک انصاف نے نہ تو بجٹ پیش کرنا  ہے اور نہ ہی بقایا دنوں میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوتا ہوا نظر آرہا ہے لہٰذا پی ٹی آئی اپنی کشتی سے سارا بوجھ اتارنے کے چکروں میں ہے اسی وجہ سے وزیراعلیٰ پرویزخٹک بھی جے یوآئی کے ساتھ مل کر ایم ایم اے بحال کرنے کے حوالے سے ایک سے زائد مرتبہ جماعت اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں لیکن جماعت اسلامی تہیہ کیے ہوئے ہے کہ اس نے آخری وقت تک کے پی حکومت کا حصہ رہنا ہے۔

بعض حلقے جماعت اسلامی کے اس فیصلے کو اس کی مجبوری سے تعبیر کررہے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اس معاہدے کا پاس کر رہی ہے جو شراکت اقتدار کے حوالے سے تحریک انصاف کے ساتھ طے پایا تھا، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کی پوری کوشش ہے کہ تحریک انصاف اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو پیش کرے کیونکہ خزانے کا قلمدان بھی جماعت اسلامی کے پاس ہے اور جماعت اسلامی آئندہ مالی سال کے حوالے سے بھی ’’فائدے ‘‘میں رہنا چاہتی ہے۔

اگرچہ جماعت اسلامی کے اندر بھی اس بات پر مشاورت ضرورہو رہی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کا آخری مہینہ حکومت میں ہی رہتے ہوئے گزارا جائے یا پھر اپوزیشن کا حصہ بن کر؟ لیکن دوسری جانب پی ٹی آئی والے بھی اس بارے میں ضرور سوچ رہے ہیں کہ اس سے پہلے کہ جماعت اسلامی انھیں دھچکا پہنچائے کیوں نہ ان کے ساتھ اسی طرز کا کھیل کھیلا جائے جو پی ٹی آئی اس سے پہلے ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ قومی وطن پارٹی کے ساتھ کھیل چکی ہے اور اس بات کی اطلاعات جماعت اسلامی کو بھی ہیں جس کی وجہ سے ان میں تشویش پائی جاتی ہے۔

یہ چاہ تحریک انصاف کی بھی ہوگی کہ وہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش بھی کرے اور آئندہ مالی سال کے لیے بھی اپنے حلقوں کو فائدہ پہنچایاجائے اسی وجہ سے وزیراعلیٰ کی منظوری سے بجٹ کی تیاری بھی شروع ہوئی اوربجٹ پیش کرنے کے لیے5مئی کی تاریخ بھی مقرر کی گئی تاہم تحریک انصاف کی قیادت اس وقت سیاسی فائدہ لینے کی خواہاں ہے یہی وجہ ہے کہ شوکازنوٹس جاری کیے بغیر ہی سینٹ انتخابات میں ووٹ بیچنے کے الزامات کے تحت 20 ارکان کو رگڑا لگا دیا اور ساتھ ہی بجٹ پیش نہ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا جس کا وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے اعادہ بھی کیا۔

تاہم اس کے باوجود جماعت اسلامی کے وزراء اس کوشش میں ہیں کہ صوبائی حکومت آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کرے جس کے لیے وہ اپوزیشن سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ حکومت اپنے ارکان کی بغاوت کے باوجود بجٹ منظورکرانے میں کامیاب رہے تاہم ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ تحریک انصاف کے لیے اپنے اتنے بڑے فیصلے سے یوٹرن لینا بھی آسان نہیں ہوگا اور پھر دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں کیونکر بجٹ کومتفقہ طور پرمنظورکرانے میں ساتھ دینگی جبکہ انھیں پانچ سالوں کے دوران مسلسل یہ شکوہ رہا کہ انھیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور ان کے حلقوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ  بجٹ کے حوالے سے پی ٹی آئی کا فیصلہ حتمی ہے اوریہ بات واضح ہے کہ خیبرپختونخوا کے لیے آئندہ مالی سال کا بجٹ موجودہ حکومت پیش نہیں کرے گی۔ تاہم جہاں تک سیاسی فائدہ لینے کے لیے سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے حوالے سے ارکان کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے بھلے اس سے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر فائدہ ملے یا نہ ملے لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس سلسلے میں جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے وہ تکنیکی اعتبار سے کسی بھی طور درست نہیں کیونکہ سیاسی پارٹیوں کی سطح پر ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر پارٹیوں کے اندر ہی شوکازنوٹس پہلے جاری کیا جاتا ہے تاکہ وہ رکن اسمبلی یا پارٹی عہدیدار جس پر الزام عائد کیا جا رہا ہے اس کا اس حوالے سے موقف کیا ہے، اگر تو اس کا موقف ایسا ہو کہ جس سے الزامات دھل جائیں تو بات پارٹی کے اندر ہی واضح ہوجاتی ہے تاہم اگر موقف پارٹی قیادت کو مطمئن نہ کرسکے یا ان کے لیے قابل قبول نہ ہو تو اس صورت میں کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور ایسے نام منظر عام پر لائے جاتے ہیں لیکن یہاں ناموں کا اعلان پہلے کردیا گیا اور شوکازنوٹس بعد میں جاری کیے گئے۔

جن ارکان کے نام تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں لیے ان میں معراج ہمایوں اور وجیہہ الزمان کے نام بھی شامل ہیں، ان کے نام کیوں لیے گئے ؟ اور اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟ان پر بحث کیے بغیر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ان اٹھارہ ارکان کا مستقبل ڈانواڈول ہوتا ہوا نظر آرہا ہے جن کے ناموں کا اعلان کیا گیا حالانکہ اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ ان اٹھارہ ارکان میں سے کچھ شوکازنوٹس کا جواب دینے کے بعد کلیئر ہوجائیں تاہم اگر وہ کلیئر ہو بھی جائیں تو جو بدنامی ان کے حصے میں آگئی ہے اس کا ازالہ کیسے ہوگا؟ پی ٹی آئی نے یہ کاروائی تو کرنی تھی اور پھر خصوصاً اس صورت حال میں کہ جبکہ پی ٹی آئی حکومت بجٹ بھی پیش نہیں کر رہی تاہم کاروائی کا طریقہ کار ہرگز درست نہیں۔ میں پارٹیوں کی جانب سے اندرونی طور پرکاروائی پوری کرنے کے بعد ہی ارکان کے نام منظر عام پر لائے جاتے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔