دروازہ کبھی کھلنے والا نہیں
یہ ہی کہانی ستر سالوں سے اسی طرح سے جاری و ساری ہے یہ ہی کہانی ہم سے پہلے والے ہمارے ہاتھوں میں دے کر گئے۔
MILAN:
کافکا نزع کے عالم میں تھا، اس کا دوست کلوپٹک کسی غرض سے اٹھ کر ایک طرف جانے لگا توکافکا نے کہا
''مجھے چھوڑکر مت جاؤ۔'' دوست نے جواب دیا ''میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جا رہا ہوں'' کافکا نے گہری آواز میںکہا ''لیکن میں تمہیں چھوڑکر جا رہا ہوں'' یہ کافکا کے آخری الفاظ تھے۔کافکا چلا گیا لیکن اپنی تحریریں اپنے ساتھ نہ لے جاسکا۔
آئیں! کافکا کی لکھی ہوئی کہانی ''قانون کی دہلیز پر'' پڑھتے ہیں ''قانون کے آگے ایک دربان کھڑا ہوا ہے ا س دربان کے پاس ایک دیہاتی شخص آتا ہے اور اندر جانے کی اجازت طلب کرتا ہے دربان اسے بتاتاہے کہ اس وقت وہ اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا وہ آدمی اس جواب پر غورکرتا ہے اور پوچھتا ہے''کیا بعد میں اسے اجازت مل سکتی ہے'' ''ہاں ایسا ممکن ہے لیکن اس وقت نہیں'' دربان اسے جواب دیتا ہے چونکہ حسب معمول دروازہ کھلا رہتا ہے اور دربان ایک جانب کھڑاہوجاتا ہے ۔
وہ شخص آگے جھک کر دروازے سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا ہے یہ دیکھ کر دربان قہقہہ لگاتا اورکہتا ہے ''اگر تم اتنے ہی بے چین ہو تو میری اجازت کے بغیر اندر جانے کی کوشش کرو لیکن یاد رکھو کہ میں طاقتور ہوں لیکن تمام دربانوں میں کمترین ہوں آگے ہر ہال کے باہر ایک دربان کھڑا ہے ہر دربان پہلے سے زیادہ طاقتور۔ تیسرا دربان توایسا خوفناک ہے کہ مجھ میں بھی اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں''۔ یہ ایسی مشکلات ہیں جن کے بارے میں اس دیہاتی نے یہاں آنے سے پیشتر کبھی نہیں سوچا۔ وہ سوچتا ہے کہ قانون ہر فرد کے لیے اور ہر وقت قابل حصول ہونا چاہیے لیکن اب وہ سمورکی کھال والے کوٹ میں ملبوس بڑی نوکدار ناک اور تاتاریوں جیسی لمبی پتلی سیاہ داڑھی والے دربان کو غور سے دیکھتا ہے تو فیصلہ کرتا ہے کہ یہ ہی بہتر ہے کہ وہ اجازت ملنے تک یہاں انتظارکرے دربان اسے ایک پیٹرھی دیتا اور اسے دروازے کے ایک جانب بیٹھنے کو کہتا ہے۔
وہاں وہ دنوں اور سالوں تک وہاں بیٹھا، انتظارکھینچتا ہے وہ اجازت حاصل کرنے کی کئی کوششیں کرتا ہے اور اپنے مسلسل اصرار سے دربان کو بیزار کیے رکھتا ہے وہ شخص جس نے سفرکے لیے بہت سا زاد راہ ہمراہ باندھ رکھا ہے، وہ سب کا سب چاہے وہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو رشوت کے طورپر دربان کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے دربان ہر رشوت قبول کرلیتا ہے لیکن ہمیشہ اس حجت کے ساتھ کہ ''میں یہ سب کچھ محض اس لیے لے رہا ہوں تاکہ تم یہ نہ سوچو کہ تم سے کوئی کسر باقی رہ گئی تھی''۔
ان تمام سالوں میں وہ دیہاتی اپنی توجہ تقریباً مکمل طورپر اسی دربان پر مرکوز رکھتا ہے حتیٰ کہ دیگر دربانوں کا خیال اس کے ذہن سے محو ہوجاتا ہے یہ ہی پہلا دربان اسے لگتا ہے کہ قانون تک پہنچنے میں واحد رکاوٹ ہے وہ اپنی سیاہ بختی کو شروع کے برسوں میں جارحانہ طور پر اور باآواز بلند کوستا ہے، بعد ازاں جوں جوں وہ عمر رسیدہ ہوتا ہے وہ محض بڑبڑاتا رہتا ہے اس کے مزاج میں بچپنا آجاتا ہے، آخرکار اس کی بینائی ضعیف ہونے لگتی ہے اور وہ نہیں جان پاتا کہ آیا یہ دنیا ہی تاریک ہے یا اس کی آنکھیں اسے دھوکہ دے رہی ہیں وہ اب تھوڑے ہی عرصے کا مہمان ہے مرنے سے پہلے اس کی زندگی کے تمام تجربات اس کے ذہن میں ایک نکتے پر یکجا ہوجاتے ہیں۔
ایک سوال جسے اس نے اب تک دربان سے نہیں پوچھا وہ اشارے سے دربان کو اپنے قریب بلاتاہے کیونکہ اس میں اپنے جسم کو بلند کرنے کی سکت باقی نہیں ہے دربان کو نیچے تک جھکنا پڑتا ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان قد کا فرق اس شخص کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوچکاہے ''اب کیا جاننا چاہتے ہو تم'' دربان پوچھتا ہے ''تمہاری جاننے کی حس کبھی ختم نہیں ہوگی '' ''ہر شخص قانون تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے'' وہ شخص بولا ''لیکن کیا ماجرا ہے کہ ان تمام برسوں میں کوئی ایک شخص بھی یہاں اندر جانے کے لیے نہیں آیا'' دربان جان لیتا ہے کہ دیہاتی اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے اور اس لیے کہ اس کی مرتی ہوئی حسیات اس کے الفاظ سن لیں وہ اس کے کان میں چیختی ہوئی آواز میں کہتا ہے ''یہاں کسی اورفرد کو اجازت مل ہی نہیں سکتی۔کیونکہ یہ دروازہ صرف تمہارے لیے بنایا گیا تھا اور اب میں اسے بند کر رہا ہوں'' ۔
کافکا کی اس کہانی کا ہماری زندگی سے کیا تعلق ہے۔ آئیں! اس تعلق کو مل کر ڈھونڈتے ہیں ان ستر سالوں میں ہمارے ملک میں نجانے کتنے انسان پیدا ہوئے اور مرگئے وہ تا عمر خوشحالی، انصاف، ترقی، مساوات، حقوق، عزت اور اقتدار کے دروازے پر اس امید پر بیٹھے رہے کہ کسی نہ کسی روز ان کی ملاقات ان سے ہوہی جائے گی۔ اسی امید پر انھوں نے اپنی جوانی گزار دی، پھر بڑھاپا آگیا اور پھر مرگئے لیکن وہ اس دروازے سے اندرکبھی نہ جا سکے اور ان سے ان کی ملاقات کبھی نہ ہوسکی۔
یہ ہی حال ہم سب کا بھی ہے ہم بھی ان ہی کی طرح اس دروازے پر نہ جانے کتنے سالوں سے پڑے ہوئے ہیں۔ اس امید پر کہ کسی نہ کسی روز ہمیں اندر جانے کی اجازت مل ہی جائے گی لیکن ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہم بھی کسی روز ایک ایک کرکے مر جائیں گے، لیکن ہمیں اندر جانے کی اجازت پھر بھی نہیں ملے گی۔
اس لیے کہ اس دروازے سے کبھی بھی ہم جیسے عام،فقیر اور حقیر انسان اندر داخل ہی نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ دروازہ صرف اسی لیے بنایا گیا ہے کہ ہم دروازے پر پڑے صرف انتظار کرتے رہیں اور مرتے رہیں اور دوسرے چور دروازوں سے لٹیرے، غاصب، راشی، بدکردار چپ چاپ داخل ہوکر خوشحالی،انصاف، ترقی، مساوات، حقوق اور عزت کو لوٹتے رہیں اور ہم انتظارکرنے والوں پہ اجتماعی قہقہوں پہ قہقہے لگاتے رہیں، ہمارا مذاق اڑاتے رہیں ہماری تذلیل کرتے رہیں۔ ہم سب کی کہانی ایک جیسی ہیں ہم سے پہلے گزرے ہوؤں کی کہانی بھی ہم ہی جیسی تھی بس نام بدلتے رہے ، چہرے تبدیل ہوتے رہے، مقامات ادھر ادھر ہوئے لیکن کہانی کبھی نہیں بدلی۔
یہ ہی کہانی ستر سالوں سے اسی طرح سے جاری و ساری ہے یہ ہی کہانی ہم سے پہلے والے ہمارے ہاتھوں میں دے کر گئے اور ہم یہ ہی کہانی آنے والوں کے ہاتھوں میں اسی طرح دے کر چلے جائیں گے نہ پہلے کچھ بدلا نہ آج بدلا اور نہ ہی کل کچھ بدلنے والا ہے۔ وہ دیکھو اور نئے انسان پیدا ہورہے ہیں اس دروازے پر بیٹھنے کے لیے۔ جوہمارے مرنے کے بعد ہماری جگہوں پر بیٹھیں گے۔