سکندر کی روح اور ہمارے حکمران
سب نے جلتی ہوئی لکڑیاں ہاتھ میں اٹھائیں اور دارا کے شہر کو جلا کر راکھ کردیا
کون عقل کا دشمن کہتا ہے کہ سکندر اعظم کے مرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عادات، خصائل، اس کے شوق و مشغلے اس کے ساتھ ہی دفن ہوگئے۔ یہ کہنے والے سے بڑا جھوٹا اور دھوکے باز کوئی اور دوسرا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اس پر ذرا بعد میں تفصیلی بات کرتے ہیں، آئیے پہلے سکندر کی عادات، شوق، مشغلے، فطرت، خصائل کو جانتے ہیں۔
دارا دوم کو شکست دینے کے بعد جب سکندر اعظم نے اس کے شاہی حمام میں غسل کیا اور اس حمام کی شان و شوکت اور نقرئی و طلائی کاموں سے آراستہ حوض اور ظروف دیکھے اور مختلف قسم کے معطر ابٹن اور تیل استعمال کیے تو کہا ''یہ ہیں بادشاہت کے مزے''۔ کھانے پینے کے وقت جب سکندر کے دوست اور مداح اکٹھے ہوتے تو وہ خودستائی، شیخی خوری اور نمائش اور اسراف کا بڑا مظاہرہ کرتا اور پھر خوشامدوں کے قصیدے اور مداحیں شروع ہوجاتیں، ان میں زیادہ سے زیادہ خوشامد کرنے کا آغاز ہوجاتا۔ یہ ضرور تھا کہ کھلی کھلی خوشامد کے مقابلے میں سکندر کو سلیقہ مندانہ خوشامد زیادہ پسند تھی۔
پلوٹارک لکھتا ہے کہ ایسے مواقعوں پر سکندر کے بااصول اور باکردار خیر خواہوں کو بڑی ندامت اور کوفت ہوتی، وہ خاموش ہوجاتے لیکن اس بات کا خطرہ بھی ہوتا کہ سکندر برا مان جائے گا۔ ایک مرتبہ کھانے پر بہت سے فلاسفر، فضلا، جرنیل اور خطیب جمع تھے، ارسطو کی بھانجی کا بیٹا کیلی تھینیز جو ایک مشہور فلسفی تھا، وہاں موجود تھا، وہ ایک سنجیدہ، عقل مند، کم گو اور بلند فطرت انسان تھا، اکثر اوقات وہ ناؤنوش کی مجلسوں میں آنے سے انکار کردیا کرتا تھا، اس کی سنجیدگی، خاموشی اور سادگی سکندر کو ناپسند تھی۔ مجلس میں اس کی ان ہی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سکندر نے ایک یہ شعر پڑھا ''مجھے عقل مندی کے کھوکھلے دعوؤں سے نفرت ہے، کیونکہ عقل مندی آدمی کو اپنے مفاد کی طرف سے لاپروا کردیتی ہے''۔ کیلی تھینیز نے کئی مرتبہ سکندر کے سامنے یہ شعر پڑھا ''موت نے آخر پیٹرو کلیس کو بھی دبوچ لیا، گو کہ وہ عزت اور عظمت میں تم سے بہتر تھا''۔
پلوٹارک لکھتا ہے اس کے مداحوں اور کاسہ لیسوں نے اپنی خوشامدوں سے اسے اس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ وہ اپنی ان خرابیوں کو سمجھتا اور ان کی اصلاح کرتا۔ سکندر نے اپنی عظمت اور برتری کے احساس کو لوگوں میں نقش کرنے کی غرض سے اپنے آپ کو جیوپیٹر دیوتا کا بیٹا مشہور کردیا اور خود اس رشتے سے دیوتا ہونے کا مدعی بن گیا۔ اس کے ہم جلیسوں اور ہم نشینوں نے اپنی خاشامدوں کے ذریعے اس کی خودفریبی کو اور بھی پختہ کردیا۔ انھوں نے اپنی نظموں اور ڈراموں میں اسے بطور دیوتا پیش کیا۔
جس پر وہ پھولا نہ سماتا اور انھیں انعام و اکرام سے نوازتا۔ شراب نوشی کی مجلسوں میں اس قسم کی خوشامدانہ کارروائیاں اپنے عروج پر ہوتیں۔ مے نوشی کی ایک مجلس منعقد ہوئی، سکندر نے حکم دیا کہ تمام جرنیل اپنی داشتاؤں اور محبوباؤں کو اپنے پہلو میں بٹھا کر مے نوشی کریں، جب سرخوشی اور سرمستی اپنے شباب پر پہنچی تو جرنیل ٹولمی کی داشتا تھائیس نے تجویز پیش کی کہ آج دارا کے دارالخلافہ کو نذر آتش کردیا جائے، جس طرح زرقیس نے ایتھنز کو آگ لگادی تھی۔ سکندر کو یہ تجویز اتنی پسند آئی کہ وہ ایک مشعل لے کر دارا کے محلات کی طرف دوڑ پڑا، تمام فوج نے اس کی پیروی کی، سب نے جلتی ہوئی لکڑیاں ہاتھ میں اٹھائیں اور دارا کے شہر کو جلا کر راکھ کردیا۔
وہ تمام لوگ جو تاریخ کے شاگرد ہیں اور جو ہمارے ستر سال کے حکمرانوں کی عادات، مشاغل، شوق، خصوصیات، طور و طریقوں اور انداز حکمرانی سے اچھی طرح آگاہ اور واقف ہیں، وہ سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سکندر اعظم کی جملہ عادات، مشاغل، شوق، خصوصیات، طور و طریقے اور اندازحکمرانی ہمارے حکمرانوں میں پائی گئی ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ تو ان خصوصیات میں سکندر سے بھی بلند درجے پر فائز رہے ہیں۔ نجانے اقتدار اور حکمرانی کے مزوں میں کیا مزا ہے کہ اس پر بیٹھنے والے ہمیشہ سکندر کے ہی قبیلے سے ہی کیوں نکلتے ہیں یا پھر یہ کہ سکندر کی روح ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں ایسی گھسی ہے کہ وہ ہر آنے والے کو فوری دبوچ لیتی ہے اور وہ پھر سکندر ثانی بن جاتا ہے اور سکندر کی ہی جیسی حرکات و سکنات کرنے بیٹھ جاتا ہے۔
آپ چاہیں ان ایوانوں میں جتنی لوبان جلالیں، چاہیں کتنے ہی بڑے سے بڑے جادوگر کو کیوں نہ بلالیں، چاہے کتنے ہی ٹوٹکے کیوں نہ کرلیں، لیکن سکندر کی گھسی ہوئی روح سے آپ اپنے حکمرانوں کو پھر بھی بچا نہیں سکیں گے۔ یہ ایسی ترسی ہوئی روح ہے جو حکمرانوں کے اندر گھس کر انھیں ہر مزے لینے کے لیے تڑپاتی رہتی ہے۔ ہمارے حکمران شیطان سے تو بچ سکتے ہیں، اس کے بہکاوے سے تو دور رہ سکتے ہیں، لیکن سکندر کی روح سے بچنا ناممکن ہے۔ نجانے سکندر کی روح ہمارے کتنے اور حکمرانوں کو دبوچتی رہے گی، ان کو مزوں کے لیے تڑپاتی رہے گی۔ نجانے کب ہمارے حکمرانوں کو اس سے آزادی نصیب ہوگی۔ نجانے کب وہ واپس یونان جائے گی اور وہاں کے حکمرانوں کو دبوچے گی تاکہ ہمارے حکمرانوں کو چین و سکون اور شانتی نصیب ہو، نجانے کب وہ جائے گی۔