اثاثے انتخابات اور جمہوریت

الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواران کو کسی نہ کسی صورت اور لا محالہ اپنی ملکیت اور اثاثے ظاہر کرنے پڑ رہے ہیں۔



ملک میں اس وقت الیکشن کی تیاریاں زور و شور سے جاری و ساری ہیں۔ انتظامیہ اور امیدواران کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ ووٹرز کی بھی اپنی حیثیت منوانے کے لیے پرجوش اور متحرک ہونے کے ساتھ روایتی انداز سے بغاوت کرتے نظر آرہے ہیں۔

اس بار ایک طرف جانبداری کے الزامات میں گھری نگران انتظامیہ اور جلد باز الیکشن کمیشن ہے تو دوسری جانب دھماکا دار انٹری والی عدلیہ ہے جن کے نت نئے انتظامات، اقدامات نے مشترکہ طور پر ملک میں انتخابات کے ہونے نہ ہونے سے متعلق چہ مگوئیاں برپا کی ہوئی ہیں۔

اوپر سے سوشل میڈیا نے سیاسی شعوری لہر بیدار کرنے کے ساتھ عوام بالخصوص نوجوانوں کو سیاسی شخصیات، تنظیموں اور امیدواروں سے کارکردگی سے متعلق حساب کتاب کرنے کے لیے الجھنے کی وجہ سے امیدواروں بالخصوص سرداروں، چوہدریوں، وڈیروں، خانوں اور نوابوں کوبھی جواب اور حساب و کتاب دینا پڑرہا ہے۔

یہ ساری صورتحال جہاں ملک کے سیاسی ماحول کو گرما رہی ہے وہیں سیاست میں اخلاقی اقدار کی عدم موجودگی پر سنجیدہ سیاسی و جمہوری سوچ رکھنے والے فرد کے لیے دکھ و تشویش کا باعث ہے، البتہ اس سارے ماحول سے اگر کوئی محفوظ ہورہا ہے تو وہ مقتدر قوتیں ہیں جنھیں ملک میں جمہوری نظام ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ بہ بانگ ِ دہل کہتی پھر رہی ہیں کہ اس ملک کی موجودہ ابتر حالت کے ذمے داریہی جمہوری لوگ ہیں ۔

دنیا کے کتنے ہی ممالک میں انتخابات سے قبل امیدواران کی جانب سے اپنے اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے کا قانون ہے تاکہ اُن کے آمدن اور اثاثوں کے جائز یا ناجائز ہونے کا پتہ چل سکے اور ویسے بھی امیدواران کی جانب سے اثاثوں کی تفصیل جمع کرانا اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ عوامی عہدہ شفافیت کا متقاضی ہوتا ہے اور امیدوار کی قانونی و آئینی اہلیت بھی ظاہر ہو۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے یہاں اثاثوں کی تفصیل جمع کرانا ایک فارمیلٹی کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ صرف لوگوں کے مزاح ، حیرت اور طنز کا ساماں بن کررہ جاتا ہے اور کبھی بھی ووٹرز کی انتخاب رائے کا حصہ نہیں بن سکا ہے۔

حلقے میں امیدوار کے ماضی سے اچھی طرح واقفیت رکھنے والے ووٹرز کبھی اس کی راتوں رات بدلتی حیثیت و طرز ِ زندگی پر سوال نہیں اُٹھاتے ۔ لیکن ملک میں اس مرتبہ انتخابی اصلاحات کے نام پر کیے جانے والے اقدامات میں سیکیورٹی کے خدشات سے نبرد آزما ہونے، منی لانڈرنگ اور کرپشن کی روک تھام کے لیے کیے گئے اَن گنت انتظامات میں امیدواروں سے نامزدگی فارم کے ساتھ جو کوائف ضروری قرار دیے گئے ہیں اُن میں ذاتی و نجی معلومات کے ساتھ ساتھ ملکیت اور اثاثہ جات کی تفصیل بھی لازم جزو کے طور پر شامل ہے ۔یہ ایک اچھا عمل ہے لیکن ایک ایسے وقت پر یہ اصلاحات کی جارہی ہیں جب ملک میں یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ غیر جمہوری قوتیں ملک سے جمہوری بساط کو لپیٹ کر باہر کردینے کے درپے ہیں ۔

ملک میں ملکیت واثاثوں کے جھوٹے اعداد و شمار پرکسی بھی جمہوری حکومت کی جانب سے کبھی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں ناجائز ملکیت بنائی تو سب نے ہے لیکن اس پر پکڑ کی لپیٹ میں صرف سیاستدانوں کو لانے کا ماحول بنایا گیا ہے ، ورنہ اگر شفاف اور مؤثر قانون سازی کرکے اس پرغیر جانبدارانہ عمل کیا جائے تو ان سیاستدانوں سے زیادہ دیگران لپیٹ میں آئیں گے لیکن کیا کیا جائے کہ وہ قوتیں مضبوط اور متحد ہیں جب کہ سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں اور ایک دوسرے کے پول کھول کر اپنی بدنامی کے مواقع مہیا کرتے ہیں۔

جہاں تک اثاثے ظاہر کرنے کی بات ہے تو وہ مریم نواز جو پانامہ کیس میں ملک میں اپنی ملکیت نہ ہونے کے اعلان کرتی تھی اس کی جانب سے تحریری طور پر دی گئی اثاثوں کی تفصیل دیکھ کر تو ہوش اُڑ جاتے ہیں ۔ پھر آصف علی زرداری اور بلاول زرداری (نوٹ: ۔بھٹو اس لیے نہیں لکھا کہ انھوں نے خود انتخابی فارم جمع کراتے ہوئے لاڑکانہ کی عدالت میں تسلیم کیا ہے کہ وہ صرف زرداری ہیں ۔)اور دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواران کے اثاثوں کی تفصیل کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ عالمی اداروں کے قرضے ملک کے لیے نہیں ایسے ہی کچھ ہزار بااثر لوگوں کی ترقی کے لیے جاتے ہیں ۔

دوسری جانب اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے کے عمل دیکھ کر لگ رہا ہے کہ 70سال میں کی گئی بندر باٹ کچا چٹھا بن کر سامنے آرہی ہے ۔ جب کہ ملکی بجٹ کے آڈٹ کے زمرے میں آنیوالے نصف سے کم حصے سے کی گئی کرپشن سے اگر اتنے بڑے پیمانے پر اثاثے بنائے گئے ہیں تو آڈٹ سے استثنیٰ رکھنے والے ملکی بجٹ کے نصف سے زیادہ حصے سے کتنے اثاثے بنائے گئے ہوں گے۔

گزشتہ الیکشن کی نسبت اس مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے والے لوگوں یعنی امیدواروں کی تعداد کم ہے ۔ 2013ء کے الیکشن میں بڑی تعداد میں امیدواروں کے حصہ لینے کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت فارم کی فیس صرف 5 ہزار روپے تھی جو کہ اس مرتبہ زیادہ ہے اور اس میں مانگی گئی تفصیل اتنی زیادہ ہے کہ بہت سارے لوگ فارم اور حلف نامہ دیکھ کر چپ سادھنے کو ہی عافیت سمجھے جب کہ نواز شریف کی نااہلی سے یہ ضرور ہوا ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواران کو کسی نہ کسی صورت اور لا محالہ اپنی ملکیت اور اثاثے ظاہر کرنے پڑ رہے ہیں اور اُمیدواران میں ایک خوف کی کیفیت چھائی ہوئی ہے ۔

وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ایوان میں پہنچنے کے چکر میں کہیں جدی پشتی جمع کی ہوئی ملکیت نہ چلی جائے ۔ جب کہ جن لوگوں نے ماضی کی طرح اس بار بھی فارم میں اثاثے اور معلومات درست ظاہر نہیں کی اُن کے فارم تو مسترد ہو ہی گئے ساتھ میں اُن کی چھپائی ہوئی ملکیت، اولاد اور بیویوں کی تعداد نے اُن کی گھر و معاشرے میں زندگی اجیرن بنادی ہے۔

نجی معلومات اور ملکیت و اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے کا یہ عمل بظاہر تو شفافیت کا معاملہ نظر آتا ہے لیکن درحقیقت یہ معاملہ ہمارے کمزور ترین و اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوئے معاشرتی و جمہوری نظام، اداروں کے آپس میں ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے کام میں بے جا دخل اندازی اورملکی انتشار کا باعث بن کر سامنے آیا ہے ۔ بھلا اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہوسکتی ہے کہ کئی بار وزیر کے عہدے پر براجمان ہونے اور اس بار وزیر اعظم رہنے والے شاہد خاقان عباسی کا فارم بھی مسترد ہوگیا ہے ۔

دنیا کو حیرت ہے کہ40سال کے قریب عرصہ سے پاکستان کی دنیائے سیاست میں رہنے اور آج سے ایک مہینہ قبل تک وزیر اعظم رہ کر اپنی میعاد پوری کرنیوالے شخص کی نااہلی ، بے جا اثاثوں اور ناجائز ملکیت کا پتہ ریاست کے کسی ادارے کو نہ تھا؟ ۔۔کسی طرح کے چیک اینڈ بیلنس کے بغیر چلنے والے اس ملک جیسی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔

یہ سچ ہے کہ دنیا کا دستور ہے کہ کسی بھی سرکاری و انتظامی عہدے پر فائز یا سیاسی تنظیم کا رہنما بننے والے شخص کی ذاتی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ عوام کی امانت بن جاتا ہے ۔ اسی لیے دنیا کے مختلف ممالک میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی سرکاری و انتظامی عملدار یا سیاستدان کی نجی زندگی میں کی گئی غلطیاں اُن کے کیریئر کے اختتام کا باعث بن جاتی ہیں ۔

ویسے پاکستان کی انتخابی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں الیکشن ہوں یا نہ ہوں ؟ ۔۔ کب ہوں اور کیسے ہوں ؟۔۔یہ تمام معاملات کا فیصلہ بھی عالمی قوتوں کی منشا کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ۔ ماضی قریب کی بات ہے کہ ملک میں تیز رفتار ترقی کے لیے آمرانہ طرز حکمرانی کو لازمی سمجھا گیا اور اس تیز رفتار ترقی کے نام پر عالمی قوتیں اور مالی ادارے آمروں کی حمایت کرتے تھے ۔ جب کہ حالیہ انتخابات کے لیے کیے جانے والے نت نئے فیصلوں کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ یا تو الیکشن نہیں ہوں گے یا پھر ایسے انتخاب ہوں گے جن میں صرف من پسند امیدواران کو منتخب کرواکر اپنی منشا کیمطابق حکومت بنائی جائے گی ۔

اثاثوں سے متعلق اس ہنگامی اقدام پر جہاں ملکی اداروں پرانگلیاں اُٹھ رہی ہیں وہیں امیدواران کی جانب سے تفصیل جمع کرانے کے طریقہ کار اور ان کے اعداد و شمار نے سیاستدانوں کی غیر سنجیدہ اور اخلاقی اقدار سے عاری روش نے ملک کے جمہوری نظام کو دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔

ان تمام باتوں اور موجودہ حالت کے پیش نظر ملک میں تجزیے ہورہے ہیں کہ ماناکہ انتخابی اصلاحات بالخصوص امیدواروں کی جانب سے ذاتی معلومات ، ملکیت اور اثاثے جمع کرانے کا یہ قانون ایک اچھا عمل ہے لیکن جس طرح اس کو استعمال کیا جارہا ہے اس سے یہاں کے ضعیف جمہوری نظام کو اُس کے انتخابی محاذ کے ذریعے ہی ملک کے جمہوری نظام کومزید کمزور کرنے کی ساز ش کی بُو آرہی ہے ۔ یہ سارا ماجرہ جمہوریت کی بے چارگی اور غیر جمہوری قوتوں کی چالاکیوں کی داستان بیان کررہا ہے۔

لیکن ملک کی ان مقتدر قوتوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ عارضی طور پر حاصل کردہ اپنی انفرادی کامیابی کے لیے ملک سے جمہورت کا ہتھیار و شناخت چھیننا عالمی سطح پر خود کو دائمی طور پر کمزور کرنے کی جانب پیش قدمی ثابت ہوگا کیونکہ عالمی رائے عامہ عوامی مفاد اور جمہوریت کی بالادستی کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے اور عوامی رائے عامہ تو راج برطانیہ اور ہٹلر کی آمرانہ طاقت کو بھی ڈبوگئی تو اس ملک کی غیر جمہوری قوتیں کیا حیثیت رکھتی ہیں لیکن اس صورتحال پر ملک کے سنجیدہ حلقوں کی جانب سے اس تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس صورتحال سے خدانخواستہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچ جائے ۔۔!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں