دانیال عزیز کا نقصان انور عزیز پورا کر سکتے تھے؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 6 جولائی 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

امریکا کی بوسٹن یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، دانیال عزیز، نون لیگ کے ممتاز اور معروف رہنما ہیں۔ سیاست کاری کا فن انھوں نے گھر سے سیکھا ہے کہ اُن کے والد ِ گرامی،چوہدری انورعزیز،وطنِ عزیز کے بزرگ سیاستدانوںمیں شمار ہوتے ہیں۔ انور عزیز تحصیل شکر گڑھ کے ووٹروں کو کئی برس عزیز رہے ہیں۔

یہ ووٹروں کی بے لوث محبت ہی تھی کہ انور عزیز دوبار وفاقی وزیر بھی رہے۔ محمد خان جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران اگرچہ اُن پر الزامات تو لگے لیکن اِن الزامات کا اُن کے ووٹروں اور سپورٹروں کی محبت اور اُنس پر کوئی خاص منفی اثر مرتّب نہ ہو سکا۔ اگر اثر پڑتا تو دانیال عزیز شائد کبھی  اسمبلی کے ایوانوں تک نہ پہنچ پاتے۔یہ اُن کے والد کے اثرو رسوخ اور تجربات و تعلقات ہی کا ثمر تھا کہ دانیال عزیز کئی بار قومی اسمبلی کے رکن بھی بنے، این آر بی کے چیئرمین بھی اور وفاقی وزیر بھی۔ اگرچہ اُن کی وزارت (نجکاری) دس ماہ تک رہی۔

53 سالہ دانیال عزیز نے نواز شریف اور مریم نواز کا واقعی معنوں میں شدت اور حدت کے ساتھ دفاع کیا، شعلہ فشاں تقریریں کیں، لاتعداد پریس کانفرنسوں کا انعقاد کیا، قومی اسمبلی میں خطاب کیے۔ایسا کرتے ہُوئے شائد وہ کہیں کہیں احتیاط اور توازن کا دامن بھی کھو بیٹھے۔ نواز شریف کے کھلے حامیوں میں اگرچہ پرویز رشید بھی تھے، مریم اورنگزیب بھی تھیں، طلال چوہدری وغیرہ بھی تھے لیکن دانیال عزیز نسبتاً زیادہ نمایاں اور سرکشیدہ ہو گئے تھے۔

وہ میڈیا میں نواز شریف اور شریف خاندان کے دفاع کے لیے اپنے نقطہ نظر کی خوب تیاری کرکے جاتے تھے۔ متعلقہ دستاویزات بھی ہمیشہ ساتھ رکھتے اور ضرورت پڑنے پر لہراتے بھی تھے۔ جوش و جذبہ بھی اُن کے پاس فراواں تھا لیکن جوشِ اظہار میں وہ اکثر متوازن نہ رہ سکے۔ میڈیا میں اُن کے تصادم کی کہانیاںروز افزوں رہیں۔ نواز شریف کی محبت اور کپتان خان سے ناپسندیدگی میں انھوں نے وفورِ جذبات میں کئی اخبار نویسوں کو ایسے الفاظ سے بھی یاد کیا جو کم سے کم الفاظ میں نامناسب قرار دیے گئے؛ چنانچہ صحافیوں کی طرف سے سخت ردِ عمل بھی سامنے آیا۔

دانیال عزیز معذرت خواہ ہُوئے تو سہی لیکن کھلے الفاظ میں معذرت کرنے سے انکار ہی کیا۔اُن کا یہ طرزِ عمل یقینا نون لیگ اور نواز شریف کے لیے مفید ثابت نہ ہو سکا۔ دانیال عزیز مگر پھر بھی اپنے جوش و جنوں پر شافی اور کافی قابو نہ پاسکے۔ اُن کا پی ٹی آئی کے ایک رہنما کے ساتھ نجی ٹی وی پر جو تصادم ہُوا ، وہ ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دانیال عزیز سراپا جوش ہیں۔ محبت و جنوں سے مغلوب ہو کر انھوں نے نواز شریف سے پیار کیا ہے۔

اِس اندھی محبت کے انھیں کئی سیاسی فائدے بھی ہُوئے اور نقصان بھی ۔اپنے سیاسی و انتخابی حلقے کے لیے انھیں کروڑوںروپے کے خصوصی فنڈز کی فراہمی اور انھیں وفاقی وزارت کے منصب پر فائز کیا جانا، یہ سب سیاسی فائدے تھے۔ ہر سیاسی ورکر اور سیاستدان اِنہی مقاصد کے لیے تو سیاست کرتا ہے۔ دانیال عزیز نے بھی یہی مروجہ سیاست کی ۔ یہاں تک تو شائد درست تھا لیکن اپنے قائد کے عشق میں انھوں نے دانستہ یا نادانستہ جن حدود کو عبور کرنے کی جسارت کی، اِس کے لیے انھیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔

کہا گیا کہ وہ توہینِ عدالت کے مرتکب ہُوئے ہیں۔ اِس حوالے سے اُن پر تین کیس تھے۔ دو کی بنیاد پر وہ عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہل قرار دے ڈالے گئے۔ پانچ سال کے لیے نااہل۔ یوں وہ بھی اُس راستے کے راہی بن گئے جس راستے پر نون لیگ کے نہال ہاشمی روانہ ہُوئے تھے۔ نہال بھی نااہل کیے جا چکے ہیں۔ بلند اور بیباک لہجہ اختیار کرتے ہُوئے شائد نہال اور دانیال اپنے قائد کے رُوبرو تو سُرخرو ہو گئے ہوں لیکن سیاسی اور سماجی اعتبار سے انھیں مطلق کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ بولنے سے پہلے الفاظ کو تولا جائے۔

دانیال عزیز نے غالباً اِس حکیمانہ قول کو درخورِ اعتنا سمجھا ہی نہیں۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز نے دانیال عزیز کی نااہلی پر نہائت مختصر اور محتاط الفاظ میں افسوس کا اظہار تو کیا لیکن اِس سے زیادہ پارٹی میں کوئی احتجاج نہ کیا گیا۔ نون لیگ کے نئے صدر ، شہباز شریف، نے تو ردِ عمل میں ایک لفظ تک دانیال عزیز کے لیے ادا نہ کیا۔ ممکن ہے کل کلاں اگر پھر نون لیگ اقتدار میں آجائے تو دانیال عزیز کو بھی شائد اِس قربانی کا کوئی صِلہ مل جائے لیکن فی الحال وہ خسارے میں رہے ہیں۔

دانیال عزیز جب سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دیے گئے، اُس وقت وہ اپنے انتخابی حلقہ این اے 77(تحصیل شکر گڑھ، ضلع نارووال)کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کروا چکے تھے۔ انھیں نون لیگ کا ٹکٹ بھی دیا جا چکا تھا۔ اِس اُفتاد( جس کے لیے بقول دانیال، وہ پہلے سے ذہنی طور پرتیار تھے)کے بعد خیال تھا کہ اُن کے والد صاحب، چوہدری انور عزیز، اُن کی جگہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ انور عزیز موزوں ترین اُمیدوار ثابت ہو سکتے تھے۔ وہ جس مرتبے اور صلاحیت کے سیاستدان ہیں، قوی اُمید کی جارہی تھی کہ وہی اپنے بلند قامت صاحبزادے کا سیاسی و انتخابی نقصان پورا کر سکتے ہیں۔

دانیال عزیز نے نااہل ہونے کے فوراً بعد عدالت کے باہر جو پریس کانفرنس کی تھی، اُس میں بھی یہی عندیہ دیا تھا کہ اُن کے والد صاحب ہی اُن کی جگہ انتخاب لڑیں گے۔ اب مگر ایسا نہیں ہورہا۔ نہ معلوم وجوہ کی بِنا پر دانیال عزیز کی اہلیہ محترمہ، مہناز اکبر عزیز، الیکشن لڑرہی ہیں۔ نون لیگ کے ٹکٹ پر۔ وہ ایک گمنام خاتون ہیں۔ میڈیا میں اُن کا نام کبھی سُنا گیا ہے نہ دانیال عزیز کے انتخابی حلقے میں کسی نے انھیں دیکھا اور سُنا ہے۔ لیکن اب وہ میدان میں ہیں اور کہا جارہا ہے کہ چونکہ اصل الیکشن تو دانیال عزیز ہی لڑیں گے، اس لیے ممکن ہے یہ خاتون کامیاب بھی ہو جائیں۔

دانیال عزیز کے والد اور مہناز اکبر کے سسر، انورعزیز، تو خود آزاد حیثیت میں، پیرانہ سالی کے باوصف، صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انورعزیز کے مقابلے میں نون لیگ کے رانا منان اور پی ٹی آئی کے عارف خان ہیں۔ دونوںنوجوان اور باہمت ہیں۔ رانا منان کی بڑی شہرت اور نیک نامی ہے ۔ وہ پچھلے پانچ سال صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ شنید ہے انھوں نے اپنے حلقے میںترقیاتی کام بھی بہت کروائے ہیں۔حریفوں سے مگر اُن کا مقابلہ آسان حلوہ نہیں ہے۔

حلقہ این اے 77میں مہناز اکبر عزیز یعنی دانیال عزیز کا مقابلہ کئی طاقتور اُمیدواروں سے ہے: (۱)میاں محمدرشید(۲)چوہدری طارق انیس(۳) چوہدری اشفاق تاج۔سابق رکنِ اسمبلی میاں محمد رشید پی ٹی آئی کے اُمیدوار ہیں ۔ چوہدری طارق انیس آزاد اُمیدوار ہیں اور دو تین بار اسمبلی ممبر رہ چکے ہیں۔ اشفاق تاج ’’تحریکِ لبیک‘‘ کے اُمیدوار ہیں۔ کئی بار الیکشن لڑنے کا تجربہ کر چکے ہیں ۔ اِس حلقے میں اکثریت ووٹ گجر برادری کے ہیں۔

اندیشہ ہے کہ یہ ووٹ تقسیم ہو جائیں گے کہ مہناز اکبر عزیز یعنی دانیال عزیز، طارق انیس اوراشفاق تاج تینوں گجر ہیں جب کہ میاں محمد رشید مہاجر ریاستی کشمیری راجپوت برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس حلقے میں مہاجر ریاستی کشمیریوں کے بھی خاصے ووٹ ہیں کہ اِنہی ووٹوں کی بنیاد پر میاں رشید آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوتے رہے ہیں۔ میاں محمد رشید کی کمزوری بس یہ بتائی جارہی ہے کہ اُن کے نیچے پی ٹی آئی کے صوبائی اُمیدوار، ڈاکٹر نعمت علی جاوید، زیادہ عوامی مقبولیت نہیں رکھتے۔

ڈاکٹر نعمت بھی گجر ہیں اور ایک بار پہلے بھی ضلع ناظم کے طور پر آزمائے جا چکے ہیں۔ یوں قومی اسمبلی کے تین گجر اُمیدواروں کی موجودگی میں گوجروں کے ووٹ اگر تقسیم ہوتے ہیں تو اِس کا براہِ راست فائدہ راجپوت میاں محمد رشید کو اور نقصان دانیال عزیز کو پہنچے گا۔دانیال عزیز کے نیچے نون لیگ کے نیک نام صوبائی امیدوار، مولانا غیاث الدین، ہیں۔

مولانا  صاحب پچھلے پانچ سال نون لیگ کے رکن صوبائی اسمبلی رہے ہیں۔ وہ انصاری برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس حلقے میں انصاریوں کے بھی خاصے زیادہ ووٹ بتائے جاتے ہیں ۔ پچھلی بار دانیال عزیز اور مولانا غیاث الدین نے مل کر الیکشن لڑا تھا اور اکثریتی ووٹوں سے جیت گئے تھے۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انصاریوں کے ووٹ یکمشت ہو کر دانیال عزیز اور مولانا غیاث الدین کو ملے تھے۔ اِس بار پی ٹی آئی کے مقابل دانیال عزیز اور مولانا غیاث الدین کو زیادہ جان مارنا پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔