آخر یہ ظلم کب تلک؟

مقتدا منصور  جمعرات 27 ستمبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

یوم آزادی سے ایک شام قبل لوگ خوشیوں سے سرشار گھروں سے نکل رہے تھے ، چہار سو جشن کا سا سماں ہے۔ ایسا ہی ایک خاندان اپنے بچوں کی فرمائش پرگھر سے نکلتا ہے ۔ میاں کار چلا رہے ہیں، بیوی برابر والی نشست پر براجمان ہے ۔ بچے جن میں 10سالہ امل بھی شامل ہے ، کارکی پچھلی نشست پر بیٹھے ہیں۔ کار ایک سگنل پر رکتی ہے، مسلح افراد اسلحہ لہراتے آتے ہیں ، لوٹ مار کرتے ہیں ، اچانک پولیس آجاتی ہے۔ چاروں طرف دوڑتی گاڑیوں کے درمیان پولیس مقابلہ شروع ہو جاتاہے۔گولیوں کی بلاامتیاز فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔

AK47کی ایک گولی کارکی پچھلی نشست پر بیٹھی10سالہ ایمل کے سر میںلگتی ہے ، وہ زخمی ہوجاتی ہے۔ والدین بچی کو قریبی اسپتال لے کر جاتے ہیں ۔ اسپتال انتظامیہ بے حسی کا وہی رویہ اختیارکرتی ہے، جوعموماً نجی شعبے کے اسپتالوں کا وطیرہ ہے۔ بچی ابھی زندہ تھی اور اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی تھی ۔ بچی کا باپ ایمبولینس کے لیے فون کرتا ہے مگر ایمبولینس کی انتظامیہ غیر ضروری سوالات میں وقت ضایع کردیتی ہے۔

بالآخر بچی کی سانسیں رک جاتی ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے منہ موڑ جاتی ہے۔ یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ معصوم ایمل کے قتل کا ذمے دارکون ہے؟ کیا نجی اسپتال کی انتظامیہ اور عملے پر ذمے داری ڈالی جائے؟ کیا ایمبولینس انتظامیہ کو ذمے دار ٹہرایا  جائے؟ کیا پولیس کو مورودِ الزام ٹہرایاجائے ؟ یا پھر پورے ریاستی انتظامی نظام اور معاشرتی ڈھانچے کو ذمے دار ٹھہرایا جائے؟

مختلف نوعیت کے جرائم پر مناسب طریقوں سے قابو پاتے ہوئے عوام کو پر امن و پر سکون ماحول کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے،کیونکہ جب تک نظام حکمرانی(Governance)کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا جاتا کسی بھی شعبے میں بہتری کے امکان کا تصور نہیں کیا جاسکتا ، جب کہ فرسودہ نو آبادیاتی انتظامی ڈھانچے پر تکیہ اور اس کے تسلسل پر اصرار، معاشرے کو ان گنت انتظامی اور سماجی مسائل کی دلدل میں دھکیلنے کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان میں حکمران اشرافیہ ابتدا ہی سے عوام اور ترقی دوست اہداف متعین کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے نئے ریاستی اداروں کی تشکیل اور نوآبادیاتی دورکے اداروں کی تطہیر اور تنظیم نوکی جانب توجہ نہیں دی جا سکی۔ 1971 تک ملک کسی حد تک اس لیے آگے بڑھتا رہا ، کیونکہ اس وقت کی سیاسی قیادت میں مڈل کلاس کی جسامت قدرے بہترتھی(بنگالیوں کی وجہ سے) اور ساتھ ہی بیوروکریسی میں تمامتر خامیوں کے باوجود انتظامی ڈھانچے کو احسن طریقے سے چلانے کی صلاحیت موجود تھی، مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد صورتحال کی ابتری نمایاں ہوکر سامنے آنے لگی۔

سیاست پر فیوڈل مائنڈ سیٹ کے سیاستدانوں کی بالادستی میں اضافہ اور مڈل کلاس کے سیاست میں سکڑتے کردار نے اشرافیائی کلچرکو مزید مضبوط بنا دیا ، جو مڈل کلاس سامنے آئی وہ پیداواری سے زیادہ تنخواہ دار(Salariat) کلاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے خوشامدانہ روش اور رویوں کی حامل ہے۔ اس میں فرسودگی پر مبنی اقدامات کے خلاف ڈٹ جانے کی صلاحیت اور جرأت کا فقدان ہے ۔

1971 کے بعد ہی جہاں سیاست پر فیوڈل اثرات گہرے ہوئے، وہیں بیوروکریسی کو ریاست کے بجائے حکومت کا تابع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ انگریز نے بیوروکریسی کے انتخاب میں جن عوامل کو مدنظر رکھا تھا انھیں نظر اندازکیا گیا، لیکن انگریزکی نوآبادیاتی تربیت ماڈیولز(Modules)کو جاری رکھا گیا ۔ جس کی وجہ سے کم اہلیت اورکم استعداد کی بیوروکریسی سامنے آئی ۔ دوسرے بیوروکریسی میں براہ راست تقرریوں نے بھی اس کے بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثرکیا۔

پاکستان میں ویسے تو تمام محکمے اور شعبہ جات اشرافیہ کی مداخلت کا شکار ہیں، لیکن سب سے زیادہ مداخلت پولیس کے محکمے میں ہوتی ہے ۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پولیس نوآبادیات میں ایک قوت (Force) ہوتی ہے، جب کہ جمہوری معاشرے میں پولیس ایک Service ہوتی ہے ۔ نوآبادیاتی حکومتیں اپنی رعیت (Subjects)کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کو بطور ایکForce  استعمال کرتی ہیں، جب کہ جمہوری معاشروں میں پولیس شہریوں (Citizens)کے جان و مال کی محافظ اور انھیں جرائم پیشہ اور ناپسندیدہ عناصرکی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے ۔

مگر یہاں پولیس کو ایکService بنانے کے بجائے ہنوز بطور ایک Force  استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو سیاسی جماعتیںجمہوریت کی چیمپئن کے طور پر سامنے آتی ہیں، وہ اپنے فیوڈل مائنڈ سیٹ کی وجہ سے فوجی آمروں سے زیادہ آمرانہ ذہنیت کی حامل ہوتی ہیں ۔ یہ جماعتیں پولیس کی اپنی سیاسی قوت کے طور پر استعمال کرتی ہیں ، اس طرز عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ پولیس محکمہ عوام کا محافظ بننے کے بجائے ان کا قاتل بن گیا ہے ۔

فیوڈل مائنڈ سیٹ کی بد ترین مثال یہ ہے کہ 2008 میں جیسے ہی سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں ، انھوں نے سب سے پہلے 2000ء میں متعارف کرایا جانے والے مقامی حکومتی نظام اور2002میں نافذکیے جانے والے پولیس آرڈرکی تنسیخ کی۔ سندھ حکومت نے نہ صرف مقامی حکومتی نظام ختم کرکے صوبے کے تمام شہروں پر صوبائی حکومت کی آمریت قائم کردی، بلکہ پولیس آرڈر2002کی جگہ نو آبادیاتی دورکا پولیس آرڈر1861 نافذ کرکے نہ صرف اپنی نوآبادیاتی سوچ پر مہر صداقت ثبت کی، بلکہ شہر وں کومزید یرغمال بنالیا ۔

ایک ایسی صورتحال میں راؤ انوار جیسے پولیس افسران اور اہلکار جنم نہیں لیں گے، تو کیا برطانوی پولیس کی طرز کے Servants of the people جنم لیں گے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ شہروں پرکنٹرول اور اپنے مخالفین کا حلقہ حیات تنگ کرنے کی خاطر پولیس کو غیر آئینی اور غیر قانونی طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے دوسرے  شہروں سے من پسند پولیس افسران اور اہلکار لاکر لگائے جاتے ہیں ، حالانکہ دنیا بھر میں پولیس اور پرائمری اسکولوں کے اساتذہ (کچھ ممالک میں سیکنڈری اسکولوں میں بھی) کی تقرری مقامی بنیادوں پر کی جاتی ہے، مگر پاکستان میں باوا آدم ہی نرالا ہے۔

ہم (صحافی ، تجزیہ نگاراور قلمکار) سے زیادہ جمہوریت کا حقیقی طلبگارکوئی اور نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ہمیں اظہار رائے کی آزادی درکار ہوتی ہے، جو صرف اور صرف جمہوریت سے مشروط ہے ، مگرکیا ان جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو جمہوری سمجھا جائے؟ جن کے اقدامات کسی بھی طورپر جمہوری نہیں ہیں، جو پولیس کو Service بنانے کے بجائے اسے بطور Forceقائم رکھنے پر مصر ہیں۔ بلکہ اسے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔

کراچی میں امل کی ناگہانی موت کا واقعہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے ان گنت واقعات صوبائی حکومتوں کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ نقیب اللہ سمیت ہزاروں نوجوانوں کے قتل میں ملوث پولیس افسر کو جس طرح جیل میں شاہانہ سہولیات فراہم کی گئیں اور پھر جس طرح تفتیشی افسر کو غائب کرا کے اسے رہا کرایا گیا، سب کے سامنے ہے۔ پنجاب ہوکہ سندھ پولیس مقابلے ایک ایسی عفریت بن گئے ہیں، جنہوں نے قتل وغارت گری کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ آج لوگ عام مجرموں سے زیادہ سرکاری وردیوں میں ملبوس خوفناک چہروں والے پولیس اہلکاروں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔آج تھانہ عوام کے لیے جائے امان اور داد رسی کا ذریعہ ہونے کے بجائے عقوبت خانے اور لوٹ مار کے Dragons بنے ہوئے ہیں ۔

یاد رکھیے، معصوم امل اسی طرح اپنی جانیں گنواتی رہیں گی، جبتک سیاست سے فیوڈل مائنڈ سیٹ ختم نہیں ہوتا ، پولیس میں تطہیراور تشکیل نوکے ذریعے اسے Depoliticise نہیں کیا جاتا اور اس میں تقرریاں مقامی بنیادوں پر نہیں کی جاتیں ۔کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ نہیں دیا جاتا ۔ اس کے علاوہ حکمران اشرافیہ اور سیاسی قیادتیں جبتک اپنے مذموم  مقاصد کو پولیس کے لیے استعمال کرنا نہیں چھوڑتیں ، معصوم شہری اسی طرح پولیس گردی کا شکار رہیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔