یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟

مقتدا منصور  جمعرات 4 اکتوبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بیسویں گریڈ کے وفاقی حکومت کے ایک افسر پر الزام ہے کہ اس نے کویتی وفد کے مندوب کا بٹوہ چوری کیا ہے ۔ اس کے اس عمل کو کیمرے کی خفیہ آنکھ نے محفوظ کرلیا ۔ موصوف کو معطل کرکے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔

اس عمل کے دو ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں۔اول، ایک ایسی نفسیاتی بیماری یا عادت جو لوگوں کی اشیا چرانے پر مجبورکرتی ہے ۔ دوئم ، کسی انتہائی خطرناک گروہ سے تعلق ، جو حساس سفارتی اور انتظامی معلومات کے لیے موصوف کو استعمال کر رہا ہو ۔ بہرحال آزاد ، غیر جانبدار اور شفاف تفتیش کے بعد ہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کون کرے گا ؟ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ’’ چور کا بھائی گرہ کٹ‘‘ سب سے پہلے تو یہ سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ سول سروس کا تصورکیا ہے؟ اس کی قابلیت ، اہلیت اور استعدادکیا ہونا چاہیے؟

جدید دنیا میں سول سروس دو قسم کی ہوتی ہے۔کچھ ممالک میں (جس کا  تصور برطانیہ نے دیا)، بیوروکریسی مستقل بنیادوں پر قائم ایک ادارہ ہوتی ہے، جو ریاست کے وسیع تر مفاد میں منتخب حکومتوں کی انتظامی امور میں معاونت کرتی ہے۔ برطانیہ اور اس کی نوآبادیات میں بیوروکریسی مستقل بنیادوں پر میرٹ پر تقرر کی جاتی ہے، جوکسی حکومت کی نہیں بلکہ ریاست کی ملازم(Servant of the state) ہوتی ہے ۔گویا برطانیہ میں سول سروس ہر منتخب حکومت کے آئین کے دائرے کے اندر معاونت کرتی ہے، لیکن ایسے احکامات ماننے سے گریزکرتی ہے، جو آئین اور تاج برطانیہ کے کلیدی اصولوں سے متصادم ہوں ۔

برطانوی نظام جو اس کی نوآبادیات بالخصوص برٹش انڈیا میں سب سے زیادہ کامیاب رہا، انڈین سول سروس (پہلے ایمپیریل سول سروس) یاICS کہلایا ۔ پاکستان میں اس سروس کو اسی ساخت(Structure)کے ساتھ قبول کرلیا گیا اور اسے CSS(سول سپیرئیر سروسز) یا CSP (سول سروس آف پاکستان) کا نام دیا گیا۔ صوبوں کی سطح پرPCS (پراونشیل سول سروسز) اور پولیس سروسز (PSP)کابھی اسی طرز پر انتخاب ہوتا ہے۔

اس کے برعکس کچھ ممالک (جس کا تصورامریکا کی طرف سے آیا) میں اس کی تقرری عارضی بنیادوں پرہوتی ہے، یعنی It is an independent of government and composed mainly of career bureaucrats hired on professional merit rather than appointed or elected, whose institutional tenure typically survives transitions of political leadership  ۔

دونوں نظاموں میں بیوروکریسی سے مراد اعلی پیشہ ورانہ اہلیت کے حامل وہ ذمے دار افسران جن میں پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت اور استعداد موجود ہو۔وہ معاون عملہ جو بیوروکریسی کی معاونت اور نظام کو نچلی ترین سطح تک چلانے کے لیے مقررکیا جاتا ہے، بیوروکریسی کی اس تعریف میں نہیں آتا ۔یعنی جونیر (نان گزٹیڈ)افسران اورکلرک وغیرہ ۔ یہ عملہ (نان گزٹیڈ) تمام دنیا میں مستقل بنیادوں پر ہی کام کرتا ہے اورایک خاص عمر یا ملک کے سروس رولزکے مطابق ریٹائر ہوجاتا ہے۔

اب دونوں طریقہ ہائے کار کا تقابلی جائزہ اور اس کے بعد پاکستانی بیوروکریسی کا معاملہ ۔برصغیر کو جو نظام حکمرانی برطانیہ سے ورثے میں ملا، اس میں قوانین کے مکمل ڈھانچے کے ساتھ طرز حکمرانی بھی شامل ہے۔ بھارت نے آزادی کے بعد کوشش کی کہ برطانوی نظام کو اس کی مبادیات کے ساتھ چلنے دیا جائے، لیکن انھوں نے شعوری طور پر ہر شعبے میں افسران اور اہلکاروں کے تربیتی ماڈیولز(Modules)کو اس طرح ترتیب دیا کہ ہر شعبہ ہندوستانیت میں ڈھل جائے۔ جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں آئین سازی بروقت ہوگئی اور جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ اپنی پٹری پر رواں دواں رہا۔ چنانچہ سول سروس کے بارے میں جو سفارشات ولبھ بھائی پٹیل کی سربراہی میں قائم کمیشن نے پیش کیں، ان پر عمل کرکے بھارت نے اپنی سول سروس کی اجتماعی نفسیات کو تبدیل کر دیا۔

ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہم روز اول ہی سے نظم حکمرانی کے بارے میں کنفیوژن کا شکار رہے۔ تہذیبی نرگسیت میں گرفتار سیاستدانوں اور اہل دانش کی بڑی تعداد ڈیڑھ ہزار برس پرانے ماڈل پر اصرار کرتی رہی ہیں ۔ ایک ایسا ماڈل جو 30 برس مکمل نہیں کرسکا اور اس دوران تین انتہائی اہم اور برگزیدہ شخصیات کوکسی بیرونی قوت نے نہیں، بلکہ خود ان کی اپنی کمیونٹی نے قتل کردیا۔ دوسرے ہمارے اہل دانش اور سیاسی اکابرین نے کبھی انسانی سماج ، نظم حکمرانی اور قانون سازی کے ارتقائی عمل کو تاریخ اور عمرانیات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ جس کی وجہ سے مسلسل غلط فیصلوں کا شکار چلے آ رہے ہیں ۔

ایک اور فکری خرابی یہ رہی کہ ہماری حکمران اشرافیہ دعوے تو بلند آہنگ کرتی رہی، لیکن ملک 1956 تک انڈیا ایکٹ1935اور تاج برطانیہ کے مرتب کردہ قوانین کے تحت ہی چلتا رہا، بلکہ آج تک چل رہا ہے۔اس کے علاوہ بیوروکریسی کے مزاج کو تبدیل کرنے اور نئے آزاد ملک کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ لازمی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر آئین کی عدم موجودگی اور قانون سازی پر پارلیمان کی مناسب گرفت کی عدم موجودگی میں فیصلے ایڈہاک بنیادوں پر ہی ہوتے ہیں ۔ پاکستان 1970 تک اس لیے بہتر انداز میں چلتا نظر آتا ہے ،کیونکہ انگریز کی تربیت کردہ بیوروکریسی میں نوآبادیاتی کروفر ضرور تھا، مگر اس کی انتظامی اہلیت اور پیشہ ورانہ استعداد اپنی جگہ مستند تھی۔

اگر انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ پاکستان کے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ڈھانچے کا مطالعہ کیا جائے، تو تمام تر خرابی بسیار مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد شروع ہوئی ۔گو کہ 1973میں آئین جیسے تیسے بن گیا، لیکن پورا ریاستی انتظامی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ  زمیں بوس ہوتا چلا گیا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بعض دیگر اقدامات کے ساتھ 1972 میں جس انداز میں سول سروس میں تبدیلیاں کی گئیں،اس کے نتیجے میں یہ انتظامی ادارہ Servant of the Stateکے بجائے فیوڈل سیاسی اشرافیہ کا کمدار بن کر رہ گیا ۔

ایک طرف تمام انتظامی قوانین کاما اور فل اسٹاپ کی تبدیلی کے بغیر نو آبادیاتی نظام سے حاصل کردہ ہیں ، جب کہ دوسری طرف ان قوانین پر عمل درآمد کرنے والی انتظامیہ کا میرٹ کی جگہ کوٹا سسٹم سے انتخاب اور پھر نوآبادیاتی ماڈیولزکے ذریعے تربیت  ۔ اس کے بعد بیوروکریسی کو  (Americanize) کرنے کی خواہش نے مزید تباہی سے دوچارکردیا۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ ہر حکومت امریکی طرز پر اپنی پسند کے افسران کو مختلف محکموں میں تعینات کر رہی ہے۔ جس سے افسران کی سینئرٹی ہی نہیں بلکہ ان کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔نتیجتاً انتظامی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے افسران مختلف محکموں میں ذمے دار عہدوں پر فائز کیے جارہے ہیں ، جو پیشہ ورانہ ویژن سے عاری حکمرانوں کی خوشامدکو اپنا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں ۔

پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کو درست سمت دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں سیاسی مداخلت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ جس طرح فوج کا اپنا اندرونی میکنزم ہے، اسی نوعیت کا میکنزم سول بیوروکریسی میں بھی ہونا چاہیے۔ پارلیمانی جمہوریت میں بیوروکریسی حکومت کی معاون ضرور ہوتی ہے، اس کی ملازم نہیں۔ چنانچہ وطن دوست، وسیع الذہن،دور اندیش اورصاحب کردار بیوروکریسی اسی وقت تیار ہوسکتی ہے، جب سیاسی جماعتیں انھیں اپنا ذاتی ملازم سمجھنا چھوڑکر ان کی تقرری اور تعیناتی کو میرٹ پر کرنے کا تہیہ کرلیں ۔ یاد رکھیے پاکستان میں جمہوریت کو دیگر عوامل سے زیادہ خطرہ خود سیاسی جماعتوں میں موجود فیوڈل مائنڈ سیٹ ہے، جو جمہوریت اور انتظامی ڈھانچے کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔