وابستگی کے22سال

مقتدا منصور  پير 22 اکتوبر 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

میں نے 1988ء سے اردو، سندھی اور انگریزی کے اخبارات اور جرائد و رسائل کے لیے لکھنا شروع کردیا تھا۔ اسی زمانے میں زاہدہ حنا صاحبہ نے روشن خیال کے نام سے ماہانہ جریدے کا اجرا کیا، تو ان کے ساتھ سابق طالب علم رہنما ندیم اختر بھی شامل تھے۔ انھوں نے مجھے اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔ برادرم ندیم اختر کی خواہش تھی کہ میںکسی اخبار میں بھی مستقل بنیادوں پر اظہاریہ نویسی کروں۔ اس مقصد کے لیے وہ مجھے مختلف اخبارات کی طرف بقول شخصے دھکیلتے رہتے تھے، مگر اس زمانے میں شایع ہونے والے اخبارت یا کسی اشاعتی ادارے کے ساتھ دیرپا وابستگی قائم نہیں ہوسکی۔

1998ء میں ستمبر میں ایک نیا اخبار ایکسپریس کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے ایڈیٹر نیر علوی مرحوم تھے، جب کہ جون ایلیا کے قریبی دوست شمیم نوید مرحوم ادارتی صفحہ کے انچارج تھے۔ اردو کالج میں شعبہ اردو کے استاد ذاکر نسیم مرحوم بھی سب ایڈیٹر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ندیم بھائی کا جب اصرار بڑھا تو میں نے اپنے دوست پروفیسر توصیف احمد خان سے تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا ذاکر نسیم ایکسپریس جارہے ہیں، آپ فوراً ان کے ساتھ چلے جائیں اور نیر علوی سے مل لیں۔ یوں میں ذاکر نسیم کی موٹر سائیکل پر ان کے ساتھ ایکسپریس کے زیر تعمیر دفتر پہنچ گیا۔

کچھ ہی دیر بعد نیر علوی آگئے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو خاصے خوش ہوئے۔ کہنے لگے، یہاں آپ بغیر کسی روک ٹوک اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جس اخبار کے وہ اس سے قبل مدیر تھے، میرے تین چار اظہاریے قطع وبرید کے بعد شایع ہوئے تھے۔ اس لیے وہ مجھ سے اور میری خفگی سے آگاہ تھے۔ کہنے لگے کہ ہمارے اخبار کی پالیسی مکمل طور پر آزاد یعنی لبرل ہے۔ چنانچہ پہلا کالم جو ہاتھ سے تحریر کیا تھا، انھی کو تھمادیا۔ وہ دو یا تین روز بعد 22 اکتوبر کو شایع ہوگیا۔ یوں تین یا چار کالم شایع ہوئے ہوں گے کہ ایک روز ذاکر نسیم مرحوم کہنے لگے اگرمستقل لکھنے کا ارادہ ہے تو اپنی ایک تصویر بھی عنایت کردو۔ چنانچہ تصویر پہنچادی گئی۔ اس طرح ہمارا کالم ہماری تصویر سے مزین ہوگیا۔ صدائے جرس کا عنوان اس سے پہلے جن اخبارات میں کالم لکھے ان میں استعمال کرہی رہے تھے، اس لیے یہ ہمارا ٹریڈ مارک بن گیا تھا۔ یوں یہ اظہاریہ جس روز شایع ہوگا، ہماری روزنامہ ایکسپریس سے وابستگی کو پورے 20  برس ہوجائیں گے۔

ایک روز میں سکھر گیا ہوا تھا کہ اطلاع ملی کہ نیر علوی اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ واپسی پر ان کے گھر جاکر تعزیت کی۔ ان کی جگہ ہمارے دوست اور مہربان طاہر نجمی کو ادارتی ذمے داریاں تفویض ہوگئیں۔ طاہر بھائی دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے اور بلا کسی لالچ دوستوں کے ساتھ تعاون کرنے والی شخصیت ہیں۔ پھر شمیم نوید بھی پہلے ریٹائر ہوکر گھر چلے گئے اور کچھ ہی ماہ بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی جگہ ادارتی صفحہ کی ذمے داری ہمارے دوست اور اردو کے معروف شاعر ن م دانش کے جگری یار اور سینئر صحافی نادرشاہ عادل نے سنبھال لی۔ شاہ صاحب کا تذکرہ ہمارے انتہائی محترم سیاسی گرو لالہ لعل بخش رند مرحوم نہایت احترام سے کیا کرتے تھے۔ جب میں نے لالہ کو بتایا کہ شاہ صاحب نے ادارتی صفحہ کی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں، تو بہت خوش ہوئے۔

ایکسپریس نے اپنے اجرا کے ساتھ ہی اردو اخبارات کی مارکیٹ میں نمایاں مقام حاصل کرنا شروع کردیا تھا۔ کوئی چار برس بعد ہی اس کی انتظامیہ نے لاہور سمیت ملک کے کوئی 11 اسٹیشنوں سے بیک وقت اجرا کا فیصلہ کیا۔ کئی اہم لکھاریوں کو ادارتی صفحہ کی زینت بڑھانے کے لیے مدعو کیا گیا۔ میں ان دنوں پاکستان پریس فاؤنڈیشن میں بطور ایڈیٹوریل کوآرڈینیٹر اور ہیڈ آف ٹریننگ کام کررہا تھا۔ تنظیم کے کام کے حوالے سے لاہور جانا ہوا، تو ایک اسمارٹ اور خوبرو شخصیت سے ملاقات ہوئی، چہرے پر دائمی مسکراہٹ اور لہجے میں شیرینی۔ تعارف پر معلوم ہوا کہ ان کا نام ایاز خان ہے اور یہ نوائے وقت سے ایکسپریس آگئے ہیں۔ وہ ان دنوں لاہور ایڈیشن کے ایڈیٹر تھے۔ ایاز خان پر سرور بارہ بنکوی کا یہ شعر صادق آتا ہے:

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے، وہ لوگ

آپ نے شاید دیکھے نہ ہوں، مگر ایسے بھی ہیں

پھر عباس اطہر مرحوم بطور گروپ ایڈیٹر آگئے۔ انتہائی سادہ لوح اور قلندر صفت انسان۔ محبت اور اعلیٰ ظرفی کا پیکر۔ ان کی اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال تو یہ ہے کہ ہم سے ایک گستاخی ہوگئی، تو دوستوں کی مداخلت پر انھوں نے نہ صرف ہمیں معاف کردیا بلکہ اپنی محبت اور شفقت میں کبھی کمی نہ آنے دی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہم تسلسل کے ساتھ ملک کے دیگر شہروں میں صحافیوں کی تربیت کے حوالے سے جارہے تھے اور لاہور کا سفر کسی نہ کسی حوالے سے مہینے دو مہینے کے بعد ہوجاتا تھا۔ ایک روز ایکسپریس لاہور گئے تو ایاز خان نے ہمارا تعارف لطیف چوہدری سے کرایا۔ لطیف چوہدری بھی یار باش قسم کے صحافی اور دانشور ہیں، جب بھی لاہور جانا ہوتا ہے، ان کے ساتھ گھنٹہ بھر گپ شپ لازمی ہے۔

ایکسپریس کا ذکر ہو اور اعجاز الحق کی بات نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ اعجاز اپنے کام میں مشاق لیکن انتہائی ہمدرد انسان ہیں۔ جب بھی کوئی کام پڑا، تو انھوں نے بلاتامل اسے حل کردیا۔ ان کی وجہ سے ہمارے بہت سے پیچیدہ مسائل باآسانی حل ہوئے۔ اعجاز بہت مصروف رہتے ہیں، اخبار کی تمامتر انتظامی ذمے داریاں ان کے سر پر ہیں۔ صرف ایکسپریس اردو ہی نہیں جو تیرہ جگہ سے شایع ہوتا ہے بلکہ ایکسپریس ٹریبیون بھی ان کے زیر انتظام ہے۔ اس کے علاوہ وہ مدیران کی تنظیم CPNE میں خاصے متحرک اور فعال رہتے ہیں، مگر اتنی بھاری ذمے داریوں کے باوجود ہم نے کبھی ان کے چہرے پر بیزاری یا تھکاوٹ کے آثار نہیں دیکھے۔ ہمیشہ مسکرا کرہی ملتے ہیں۔

ایک شخصیت جس کے ذکر کے بغیر یہ اظہاریہ مکمل نہیں ہوسکتا، وہ حمید اختر مرحوم کی ہے۔ حمید اخترمرحوم اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن تھے۔ میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ لاہور جاؤں اور انھیں سلام کیے بغیر واپس آجاؤں۔ انھوں نے کالم نویسی میں ایک نیا اسلوب دیا تھا۔ وہ ان دنوں صرف ماضی کے واقعات لکھا کرتے تھے، مگر ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا کرتا تھا۔ ان کے کئی کالم ایسے تھے جنھیں پڑھنے کے بعد ماضی کے ان واقعات کا درست ادراک ہوا۔

آج جب میں پیچھے مڑکر دیکھتا ہوں تو مجھے ایکسپریس کے ساتھ اپنی وابستگی پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ کیا کیا نادر روزگار ہستیاں اس اخبار سے وابستہ رہی ہیں۔ انور احسن صدیقی جو زمانہ طالب علمی سے صحافت اور موت کو گلے لگانے تک کمیٹیڈ ترقی پسند رہے۔ جس روز میرا اظہاریہ شایع ہوتا، تو سب سے پہلا فون انھی کا آتا، اچھے اظہاریے پر مبارکباد دیتے، کہیں کوئی سقم ہوتا، تو اس کی نشاندہی کرتے ہوئے تصحیح فرماتے۔

آج جب کہ آزادی اظہار مختلف خطرات میں گھری ہوئی ہے، ایکسپریس کمال مہارت سے درمیانے راستے پر چلتے ہوئے قارئین تک درست معلومات اور اطلاعات فراہم کررہا ہے۔ یہی صاف ستھری اور غیر جانبدار صحافت کا وصف ہے۔ امید ہے کہ ایکسپریس اسی طرح اپنا مقام و مرتبہ کسی تنازع میں شریک ہوئے بغیر برقرار رکھے گا۔ اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کس طرح ہنستے کھیلتے، دوستیاں نبھاتے، محبتیں بانٹے اور سمیٹتے بیس برس بیت گئے۔ اگر زندگی نے وفا کی تو اگلی دہائیاں بھی اسی طرح گزر جائیں گی۔ انشااﷲ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔