عوام کے2ارب روپے لوٹنے والے 2ملزم پکڑے نہ جا سکے

عادل جواد  جمعـء 21 جون 2013
زاہد علی اور سمیع احمد کی کمپنی 7 سال سے بغیر کسی لائسنس کے آزادانہ کاروبار کررہی تھی فوٹو: فائل

زاہد علی اور سمیع احمد کی کمپنی 7 سال سے بغیر کسی لائسنس کے آزادانہ کاروبار کررہی تھی فوٹو: فائل

کراچی:  کراچی کے ہزاروں شہریوں کی معاشی ٹارگٹ کلنگ کرنے والے جعلی انویسمنٹ کمپنی کا مالک اور ڈائریکٹر پراسرار طور پر غائب ہوچکے ہیں۔

ایک سال میں رقم دگنی کرنے اور ماہانہ لاٹری کا لالچ دے کر2 ارب روپے سے زائد ہڑپ کرجانے والے دونوں افراد کو پکڑنے میں تفتیشی ادارے ناکام ہوگئے معمہ مزید پرسرار ہوگیا ، تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی کو سپریم کورٹ ہیومن رائٹس سیل کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے توسط سے ایک شہری کی تحریری شکایت بھجوائی گئی تھی، ایف آئی اے کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ نیشن والا فنانشل سروسز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید زاہد علی نے ڈائریکٹر سمیع احمد اور دیگر افراد کی ملی بھگت سے ایک فراڈ اسکیم کا اجرا کیا ۔

جس میں وہ ایک لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کے عوض ماہانہ 5 ہزار روپے دینے اور ایک سال کیلیے رقم فکسڈ کرانے کی صورت میں دگنی رقم دینے کا اعلان کیا، سرمایہ کاری کیلیے مقررہ رقم کم از کم ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی اور زیادہ زیادہ رقم کی کوئی حد نہیں تھی،اس کے علاوہ کمپنی کے پلیٹ فارم سے ایک لاٹری اسکیم شروع کی گئی جس کے تحت ہر رکن سے ایک ہزار روپے ماہانہ وصول کیے جاتے تھے اور اسکیم کے اختتام تک دو سال (24 ماہ) تک انعام نہ نکلنے کی صورت میں اسکیم کے بعد 27 ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لاٹری اسکیم میں ساڑھے 7 ہزار شہریوں کو رکن بنایا گیا یعنی ہر ماہ 75 لاکھ روپے جمع کیے جاتے تھے۔

تحقیقات کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ کمپنی بغیر کسی لائسنس کے غیرقانونی کاروبار کررہی تھی اور اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک سمیت کسی مالیاتی ادارے میں رجسٹریشن نہیں کرائی گئی تھی، جعلی انویسمنٹ کمپنی اور لاٹری اسکیم کے ذریعے کمپنی کے مالک سید زاہد علی اور ڈائریکٹر سمیع احمد نے تقریباً 10 ہزار شہریوں سے 2 ارب روپے سے زائد کا فراڈ کیا، 7 سال سے جاری غیرقانونی کاروبار کے خلاف ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی نے سید زاہد علی، سمیع احمد سمیت مجموعی طور پر 8 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا، کمپنی کے ملازمین محمد عابد، محمد اسد، محمد سمیع، منصور خان اور فراڈ کمپنی کے معاون کار بینکرز خواجہ نعمان اور منصور علی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

تاہم فراڈ کے مرکزی کردار سید زاہد علی اور سمیع احمد ایف آئی اے کی جانب سے مقدمہ درج ہونے سے دو دن قبل انتہائی پراسرار انداز میں روپوش ہوگئے، ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ گذرجانے کے باوجود ایف آئی اے کے تفتیش کار ان دونوں افراد کا سراغ لگانے میں ناکام ہوچکے ہیں، دونوں ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے جاچکے ہیں اورامیگریشن کے کمپیوٹرائزڈریکارڈ کے مطابق دونوں مرکزی ملزم کسی قانونی چینل سے بیرون ملک نہیں گئے ہیں، ایف آئی اے نے سید زاہد علی اور سمیع احمد کی بینک اکاؤنٹس اور جائیدادوں کو منجمد کردیا ہے تاہم منجمد کیے جانے والے اثاثوں کی مالیت فراڈ کی جانے والی رقم کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، ذرائع کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ دونوں افراد کو زمین نگل چکی ہے یا آسمان کھا چکا ہے، خاص طور پر سید زاہد علی اپنے بیوی بچوں اور بہن کے خاندان کے ہمراہ اس طرح غائب ہوچکا ہے جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا جبکہ متا ثرین عدالتوں اور تفتیشی دفاتر کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔