پنجابی فلموں کے ولن

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 2 دسمبر 2018
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

سابق امریکی صدر لنکن نے کہا تھا ’’مجھے وہ آدمی یاد آتا ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کردیا جب اسے سزا سنائی جانے لگی تو اس نے اس بنا پر رحم کی درخواست کی کہ وہ یتیم ہے ‘‘ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مشکل کشائوں نے اپنی نا اہلیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھ لیا ہے اور آج پاکستان کو انھوں نے درست سمت میں گامزن کردیا ہے تو آپ بے شمار غلطیوں کے بعد ایک اورشرم ناک غلطی کر رہے ہیں۔

ہم اپنی ناکامیوں کی راکھ سے کامیابی کو جنم دینے میں اب تک ناکام ہیں اور ظلم تو یہ ہے کہ ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہم مکمل ناکامی سے دوچار ہوچکے ہیں ۔ ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے یہ بات نہ مان کر ہمارے مشکل کشا اپنے آپ پر ظلم نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ ایک بار پھر ظلموں کی بارش ملک کے 20 کروڑ عوام پر کر رہے ہیں۔

آج کے دنیا بھرکے ترقی یافتہ، خوشحال،آزاد ممالک ماضی میں ناکامی سے دوچار رہے ہیں ۔ ان ممالک کے لوگوں کے حالات زندگی پڑھ کرکپکپی چڑھ جاتی ہے لیکن ان کے رہنمائوں، دانشوروں، مفکروں اورفلسفیوں نے تاریخ کھنگال ڈالی اور اس میں سے وہ سبق ڈھونڈ نکالا کہ کس طرح اپنے بد ترین حالات کو شرمناک شکست سے دوچارکیا جاسکتا ہے پھر وہ سبق بار بار پڑھا اور اپنی اپنی قوموں کو بھی بار بار پڑھایا ۔ وہ سبق یہ تھا کہ اپنے ملک کی معیشت کوکھڑا کردو، ملک خود بخود کھڑا ہوجائے گا ۔

ملکی تجارت کو فروغ دیدو پیسے Generate کرو ۔ زراعت کو ترقی دو ٹیکسوں کا نیٹ ورک بڑھا دو، ملک سے کر پشن کا مکمل خاتمہ کردو، تمام ملکی معاملات میں میرٹ لاگوکردو، تعلیم کو فروغ دو، شہر شہرگائوں گائوں بجلی ، سٹرک ،گیس اور پانی پہنچادو ، پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دو ٹرانسپورٹ کا نظام بہترکردو ، ملک کے تمام افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار پر لگا دو ، ملک بھر میں صنعتوں کاجال بچھا دو، صحت کی سہولیات عام لوگوں کو میسرکردو ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم بھی یہ ہی سبق نہ خود باربار پڑھتے بلکہ اپنے عوام کو بھی باربار پڑھاتے اور پھر دنیا بھرکی طرح اس سبق پر عمل کرنا شروع کردیتے لیکن کیا کریں شرمندگی اور رسوائی کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے نہ تو خود یہ سبق پڑھا اور نہ ہی عوام کو اسے پڑھایا بلکہ اس کے برعکس ہم وہ سبق بار بار پڑھتے رہے، جس کو پڑھنے میں صرف ہمارا خودکا فائدہ تھا یعنی صرف اپنے آپ کو خوشحال کرتے رہو، صرف اپنے آپ کو ترقی دیتے رہو اپنے اور اپنے پیاروں کو فائدہ پہنچاتے رہو، اپنے اثاثوں اور اپنے بینک بیلنس کو فروغ دیتے رہو، اپنے آپ کوکھڑا کرتے رہو، ملک لیٹتا ہے تو لیٹتا رہے ۔

اور معصوم عوام کے سامنے بڑی بڑی بڑھکیں مارتے رہو اور رفوچکر ہوتے رہو جیسے ماضی میں پنجابی فلموں کے ولن کیاکرتے تھے ہیرو کے آنے سے پہلے بڑی بڑی بڑھکیں مارتے تھے بڑی بڑی باتیں کرتے تھے اورجیسے ہی ہیرو آتا تھا دبک کر ٹھیلے یا پان کی کیبن کے پیچھے چھپ جاتے تھے اور ہیرو بیچارا ڈھا ریں مارما رکر اپنا گلا خراب کر لیا کرتا تھا اور اگلے روز بیچارا اشاروں میں بات کررہا ہو تا تھا۔

ہمارے مشکل کشائوں کو بولنے کی بیماری بھی لگ چکی ہے، بغیر سوچے سمجھے بغیر بس بولے ہی جاتے ہیں، بولے ہی جاتے ہیں حالانکہ وقت سب سے بڑی درس گاہ ہوتا ہے لیکن وہ اتنے کند ذہن واقع ہوئے ہیں کہ عقل کے استعمال کو بھی کفر کے زمرے میں لاتے ہیں ۔ مشہورکہاوت ہے کہ جب بچہ سیکھنے کا آرزو مند ہوتا ہے تو استاد فوراً وہاں آجاتا ہے لیکن بدقسمتی سے جیسے جیسے ہماری عمر بڑھ رہی ہے ہمارا ذہنی سفر آگے کے بجائے پیچھے کی سمت میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ نا اہلی میں تو ہم ایتھوپیا کو بھی پیچھے چھوڑ آئے ہیں لیکن اپنے آپ کو سقراط سے زیادہ سمجھدار ذہین سمجھے بیٹھے ہیں۔

سقراط نے زہر پینے سے پہلے عدالت میں اپنی آخری تقریر میں کہا تھا ’’مجھے تو معلوم ہے کہ مجھ میں دانش و حکمت تھوڑی نہ بہت، سرے سے ہی نہیں ۔ پھر آخر دیوتا پے تھیا کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ میں سب انسانوں سے زیادہ دانشمند ہوں بہرحال وہ دیوتا ہے جھوٹ تو بول نہیں سکتا یہ تو اس کی فطرت کے خلاف ہے بہت غورکرنے کے بعد اس بات کو آزمانے کا ایک طریقہ سمجھ میں آیا۔

میں نے سو چا کہ اگر مجھے کوئی اپنے سے زیادہ دانش مند آدمی مل جائے تو اس قول کے خلاف ایک دلیل ہاتھ آجائے گی اور میں اسے لے کر دیوتا کے سامنے جاسکوں گا۔ میں اس سے کہوں گا، دیکھو یہ شخص مجھ سے زیادہ دانش مند ہے تم نے توکہا تھا کہ میں سب سے زیادہ دانشمند ہوں ، چنا نچہ میں ایک شخص کے پاس گیا جو دانش مند مشہور تھا اور اسے ٹٹولا، اس کا نا م بتانے کی ضرورت نہیں وہ ایک سیاسی لیڈر تھا جسے میں نے امتحان کے لیے چنا تھا تو یہ نتیجہ نکلا اس سے باتیں کرنے کے بعد مجھے یہ رائے قائم کرنا پڑی کہ حقیقت میں وہ دانش مند نہیں ہے اگرچہ بہت سے لوگ اسے دانش مند سمجھتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ خود اپنے آپ کو سمجھتا ہے۔

میں نے اسے یہ سمجھانا چاہا کہ وہ اپنے آپ کو دانشمند سمجھتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے، غالباً ہم دونوں میں سے ایک کو بھی کسی اچھی اور معقول چیزکا علم حاصل نہیں ہے مگر اس سے میں پھر بھی بہتر ہوں ، اس لیے کہ وہ کچھ نہیں جانتا مگر سمجھتا یہ ہے کہ جانتا ہے اور میں نہ کچھ جانتا ہوں اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ میں جانتا ہوں اور چھان بین کا نتیجہ یہ نکلا میں نے دیکھا کہ جن لوگوں کی سب سے زیادہ شہرت ہے وہی سب سے زیادہ بے وقوف ہیں اور جو لوگ معزز نہیں ہیں وہ حقیقت میں ان سے بہتر اور زیادہ دانش مند ہیں ۔‘‘

پاکستان کے حالات ،واقعات اور مشکل کشائوں کو دیکھ کر مجھے بار بار سابق امریکی صدر لنکن کی کہی ہوئی بات یاد آجاتی ہے کہ ’’ مجھے وہ آدمی یاد آتا ہے جس نے اپنے ماں با پ کو قتل کردیا جب اسے سزا سنائی جانے لگی تو اس نے اس بنا پر رحم کی درخواست کی کہ وہ یتیم ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔