حکومت کو داخلی اور خارجی محاذ پر بڑے چیلنجز کا سامنا

ارشاد انصاری  بدھ 27 مارچ 2019
پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور سرحدوں کی خلاف ورزی بھی مسلسل جاری ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور سرحدوں کی خلاف ورزی بھی مسلسل جاری ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: دفاعی و سفارتی محاذ پر پسپائی کے بعد بھارتی سرکار شدید نفسیاتی دباو کا شکار ہے اور مودی سرکار آئندہ عام انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے مسلسل پاکستان اور مسلمان دشمنی کارڈ کھیل رہی ہے۔

فضائی جارحیت کا منہ توڑ جواب ملنے پر سفارتی محاذ پر عالمی برادری میں سبکی کے بعد بھارت میں مسلمانوںکیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ ایک طرف یوم پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امن اور نیک خواہشات کا پیغام دیتے ہیں تو دوسری جانب بغل میں چھُری مُنہ میں رام رام والی مکاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بھارت سیاسی فائدے کیلئے خطے میں مسلسل جنگ کی فضاء قائم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے، پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور سرحدوں کی خلاف ورزی بھی مسلسل جاری ہے جبکہ پاکستان نے کشیدگی کے اس ماحول میں بھی ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دیا ہے، جسے عالمی برادری نے بھی سراہا ہے۔

یہ پاکستان کا کردار ہی تھا جس نے دنیا کو ایک بڑی تباہی سے بچایا مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث خطے پر خطرات ابھی بھی منڈلا رہے ہیں جو بھارتی انتخابات تک منڈلاتے رہیں گے۔ پاکستان بھارت کی ہر سرگرمی پر کڑی نظر رکھے ہوئے اور اقوام عالم کو بھی بھارتی شرانگیزیوں سے مسلسل آگاہ رکھے ہوئے ہے، ساتھ ساتھ حکومت، سیاسی قیادت، مسلح افواج اور قوم ہر طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے پوری طرح متحد، منظم اور تیاری کی حالت میں ہے۔ مادر وطن کے رکھوالوں نے اس ضمن میں بھارتی سرحد پر اپنی فضائی اور زمینی حدود کی حفاظت کے لئے نیا ایئر ڈیفنس سسٹم نصب کر دیا ہے۔

داخلی سطح پر منگل کا دن پاکستان مسلم لیگ (ن)کے لئے انتہائی خوشگوار ثابت ہوا ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کو دو خوشخبریاں ایک ساتھ ملی ہیں۔ منگل کو مسلم لیگ(ن)کے قائد میاں نوازشریف کی سُپریم کورٹ سے ضمانت پر رہائی اور لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے دیا جانے والا فیصلہ دو اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہیں جس کے یقینی طور پر ملکی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواستِ ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواستِ ضمانت کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے 50 ہزار روپے کے مچلکے کے عوض نواز شریف کی 6 ہفتوں کے لیے ضمانت منظور کرلی، تاہم انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 5 میڈیکل بورڈز نے نواز شریف کی طبیعت کا جائزہ لیا اور ہر میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کو ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی، نواز شریف کو ہائپر ٹینشن، دل، گردے اور شوگر کے امراض ہیں جن میں سے گردوں کا مرض انجیو گرافی میں پیچیدگیوں کا باعث ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جس بنیاد پر کیس بنا رہے ہیں وہ ایک خط ہے، آپ کا کیس ہی یہی ہے صحت دن بدن گر رہی ہے، صحت اور مرض بگڑنے کے شواہد پر ہی سزا معطلی کا کیس بنتا ہے، آپ کا سارا انحصار صرف ڈاکٹر لارنس کے خط پر ہے، ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ڈاکٹر لارنس زندہ بھی ہے یا نہیں، فوجداری کیس میں خط پر انحصار نہیں کیا جاتا۔ فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ججز نے باہمی مشاورت کی اور چیف جسٹس نے فیصلہ تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواستِ ضمانت 6 ہفتوں کے لیے منظور کر لی۔

دوسری جانب ہائیکورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا ہے اورلاہور ہائیکورٹ میں جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی، شہباز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نیب نے جب شہباز شریف کو بلایا تو شہباز شریف پیش ہوئے پھر بھی نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔ عدالت نے نیب وکیل سے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہے، نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 23 اکتوبر کو آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری شروع کی جو ابھی جاری ہے، شہباز شریف کے اکاؤنٹس سے مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔ عدالت نے فریقین کا موقف سننے کے بعد صدر مسلم لیگ (ن) اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا۔

دوسری طرف موسم کی طرح سیاسی ماحول بھی گرم ہوتا دکھائی دے رہا ہے بہت سی اہم سیاسی شخصیات احتساب کی زد میں ہیں، سیاسی پنڈت مزید گرفتاریوں کی بھی پیشنگوئیاں کر رہے ہیں جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی نیب کے سامنے پیشی بھگت کر سوالات کے جوابات دے چکے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سمیت دیگر رہنما بھی پیشیاں بھگت رہے ہیں، حکومتی رہنماوں کا رویہ بھی اپوزیشن کو قریب لارہا ہے اور حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر ہونے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں جس کیلئے سیاسی جوڑ توڑ کی کوششیں جاری ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی بھی آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی ہے اس سے قبل بلاول بھٹو کی جیل میں میاں نوازشریف سے اہم ملاقات ہوئی ہے اور پیپلز پارٹی کا ٹرین مارچ بھی جاری ہے جو ان سطور کی اشاعت تک اپنے اختتام کو پہنچے گا اور بلاول بھٹو اس ٹرین مارچ کے دوران مختلف مقامات پر خطاب کر رہے ہیں ۔

لگ یوں رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے ورکر کو چارج کرنا شروع کردیا ہے جبکہ اس سے پہلے نیب میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے جیالوں نے اپنا روایتی جیالاپن دکھا کر حکومت کو پیغام دیدیا ہے جس کا ادراک حکومت کو بھی شائد ہو رہا ہے یہی وجہ ہے اس کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے بھی چند روز قبل صحافیوں سے ہونے والی گفتگو میں کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دھرنے کی کال کا مجھے کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ عوام ان کیلئے باہر نہیں نکلے گی‘یہ جماعتیں ذاتی کرپشن بچانے کیلئے جمع ہو رہی ہیں، شہباز شریف ‘نواز شریف کے فرنٹ مین ہیں، این آراو کیلئے مجھے بلیک میل کیا جا رہا ہے، نوازشریف کو کس قانون کے تحت علاج کیلئے باہر بھجوائیں،انہوں نے ایک فیکٹری سے 30 فیکٹریاں بنالیں لیکن ایک ایسا ہسپتال نہیں بنایا جہاں ان کا علاج ہو سکے، وزیراعظم آفس کے اخراجات میں 35 کروڑ روپے کی کمی کردی، بنی گالہ کے گرد جنگلے کی تعمیر کیلئے 60 لاکھ روپے خود ادا کئے ، کرپشن بڑے لوگوں کو پکڑنے سے ختم ہوگی۔

وزیراعظم نے اپوزیشن کو پیشکش کی ہے کہ اپوزیشن احتجا ج کرے، کنٹینر میںدوں گا، بلاول بھٹو نیب سے خوفزدہ ہیں اس لئے رو رہے ہیں۔ وزیراعظم کی یہ پیشکش اپنی جگہ لیکن پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے ورکروں کی جانب سے پچھلے چندروز کے دوران استعمال کئے جانیوالے احتجاج کے جمہوری حق میں حکومتی رویہ وزیراعظم کی پیشکش کے برعکس ہے اور احتجاج کا حق استعمال کرنے والوں کو حوالات کی ہوا کھانا پڑی ہے اور وزیراعظم و ان کی ٹیم آج وہ الفاظ اور بیانیہ پیش کر رہے ہیں جو کل حکومت میں ہوتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) پیش کیا کرتی تھی جبکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) وہ بیانیہ پیش کر رہی ہے جو کبھی پاکستان تحریک انصاف کے کنٹینر سے پیش کیا جاتا تھا جبکہ حکومت کیلئے سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ داخلی و خارجی سطح پر مزید کڑا امتحان شروع ہونے کو ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنی چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں 9 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ لے چکی ہے اور جو اسٹیٹ بینک سے لیا جا رہا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔

اب آئی ایم ایف سے بھی معاہدہ ہونے کو ہے جو کہ آٹھ ارب ڈالر سے بارہ ارب ڈالر کی باتیں ہو رہی ہیں ،کل اپوزیشن میں تحریک انصاف اس وقت کی حکومت کیلئے حاصل کئے جانیوالے قرضوں پر پاکستانی کرنسی میں جمع تفریق کرکے عوام کو اپ ڈیٹ دیا کرتی تھی کہ پاکستان پر تیس ہزار ارب روپے قرضہ چڑھ گیا اب نو ارب ڈالر لینے کے بعد کوئی نئی کیلکولیشن نہیںآئی اور اپوزیشن حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے اور تنقید کے نشتر چلا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔