نمک میں گھلتی زندگی
ڈیلٹا کی تباہی نے ساحلی علاقوں کے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کردیا ہے، مقامی پودے، پرندے اور جانور ناپید ہوچکے ہیں
سمندر ڈیلٹا کی زمین کے بہت بڑے حصے کو نگل چکا ہے۔ (تصاویر: بلاگر)
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
''مجھے آج بھی یاد ہے جب یہاں دریا کا میٹھا پانی بہتا تھا اور ہم ڈول بھر کر لے آتے تھے۔ تب ہم بہت خوش حال تھے۔ ہمارے پاس کئی جانور تھے۔ دودھ ، دہی اور مکھن کی کوئی کمی نہیں تھی''۔ 50 سالہ سکینہ کی آنکھوں میں ماضی کا سنہرا وقت جگمگا رہا تھا۔ ''لیکن اب کچھ بھی نہیں رہا۔ سب کہانی بن گیا ہے''۔ سکینہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ ''اب تو صرف کھارا پانی رہ گیا ہے، ہر طرف اور آنکھوں میں بھی۔''
سکینہ کی یہ کہانی صرف اس کی نہیں بلکہ ساحلوں پر رہنے والے ہر شخص کی کہانی ہے۔
ہمارے شیر دریا سندھو کو دنیا کے دس بڑے دریاؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ دریا کیلاش کی جھیل مانسرور سے نکلتا ہے اور میلوں کا سفر طے کرکے سمندر تک پہنچتا ہے۔ دریائے نیل کے بعد یہ دنیا کا دوسرا بڑا دریا ہے جو اپنے ساتھ اتنی زرخیز مٹی لے کر آتا ہے۔ سمندر تک پہنچ کر اس کی تندوتیز لہریں سمندر کے پانی سے برسر پیکار ہوتیں، جس میں فتح سندھو کی موجوں کو ہوتی اور سمندر کو دور دھکیل دیا جاتا۔ دریائی پانی میں موجود مٹی سمندری زمین کو ڈھانپ لیتی اور اس طرح ایک زرخیز ڈیلٹا کی تشکیل عمل میں آئی۔
اس بات کا حوالہ تو آسانی سے دستیاب ہے کہ ہر بڑے دریا کی طرح دریائے سندھ کے کنارے بھی کئی تہذیبوں نے جنم لیا اور عروج پر پہنچیں، مگر ساحلوں پر ڈیلٹا کی حدود میں جو منفرد تہذیب تشکیل پاتی ہے اس پر مورخین خاموش ہیں۔ ہم اسے ڈیلٹائی تہذیب یا تیمر کی تہذیب کہہ سکتے ہیں۔ کبھی یہ لوگ خوش حال اور ترقی یافتہ تھے۔ مگر یہ ماضی کی بات ہے، اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ ڈیلٹا میں پانی کی کمی نے ساحلوں پر رہنے والوں کی زندگی مشکل تر کردی ہے۔ دریائی پانی کی رکاوٹ نہ ہونے کے باعث سمندر دھیرے دھیرے ان کی زمینیں ہی نہیں بلکہ ان کی زندگیاں بھی ہڑپ رہا ہے۔
سکینہ صدیق دبلو گاؤں کی رہائشی ہے۔ صدیق دبلو ضلع ٹھٹہ کے تعلقہ کیٹی بندر کی ایک کھاڑی ہجامڑو کریک کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جس میں 37 گھرانے آباد ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق دبلو ذات کے 166 افراد کا یہ گاؤں 53 مرد، 56 خواتین اور 57 بچوں پر مشتمل ہے۔ یہ ساحلی علاقے کا ایک ایسا گاؤں ہے جہاں زندگی سال کے 365 دن ہر گھڑی آفت سے دوچار ہے۔
کبھی وہ بھی دور تھا جب یہاں دریا کا میٹھا پانی بہتا تھا اور زندگی خوش حال تھی۔ کچھ انسا نی سرگرمیوں اور کچھ بدلتے موسموں نے یہاں کے باشندوں کے نصیب میں دکھ اور درد لکھ دیا۔ اگر تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں خواندگی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ رپورٹ کے مطابق آبادی کا صرف ایک فیصد پرائمری پاس کرپاتا ہے۔ گاؤں کی آبادی میں 40 کے قریب بچے اسکول جانے کی عمر کے موجود ہیں لیکن قریب ترین اسکول نہ ہونے کے باعث یہ بچے اس سہولت سے محروم ہیں۔
صحت کے حوالے سے بھی بہت مسائل ہیں۔ کسی بھی طبی مدد کے لیے بگھان اور گاڑھو جانا پڑتا ہے، جس کےلیے ڈھائی گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ یہاں بھی اکثر لیڈی ڈاکٹرز موجود نہیں ہوتیں۔ بچوں کی پیدائش میں کوئی پیچیدگی ہو تو مریض کو کراچی جانا پڑتا ہے، جس کےلیے مسلسل چار گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ قریب ترین کیٹی بندر ٹاؤن تک پہنچنے کےلیے ہی آدھا گھنٹا کشتی میں سفر کرنا پڑتا ہے۔
یہ سارے مسائل بہت پیچیدہ اور بیماری میں انسانی زندگی کےلیے بڑاخطرہ ثابت ہوتے ہیں، مگر ان علاقوں میں سمندری پانی کی دراندازی نے سب کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔
ساحلوں پر رہنے والے عمر رسیدہ لوگ آج جب ماضی کا ذکرکرتے ہیں تو نئی نسل کو ان کی باتیں خواب جیسی لگتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تین دہائی پہلے تک ضلع ٹھٹہ میں اتنی بدحالی نہیں تھی۔ یہاں پھلوں کے باغات تھے، زرعی زمینوں پر گندم اور چاول کی فصلیں لہلہاتی تھیں۔
اس بات کی تصدیق سکینہ بھی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں ڈیلٹا میں پانی کی کمی نہ تھی، ہمارے پاس جانور بھی تھے اور دودھ ، دہی، مکھن اور گھی سب کچھ دستیاب تھا۔ دودھ دہی تو چھوڑیں، اب تو پینے کےلیے چار بوند پانی نہیں ملتا۔ پینے کےلیے بھی پانی خریدنا پڑتا ہے۔
صدیق دبلو گاؤں کی سب عورتیں اپنی گزر اوقات کے لیے ماروڑی مچھلی (Razor Clam) جسے سیپی کا کیڑا بھی کہہ سکتے ہیں، پکڑتی ہیں۔ 3 سے 4 انچ سائز کی یہ مچھلی کیچڑ میں پائی جاتی ہے۔ سکینہ نے بتایا کہ وہ گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں بیٹھ کر یہ مچھلی پکڑتی ہیں۔ تھوڑا سا نمک انگلی پر لے کر کیچڑ میں دھنسایا جاتا ہے، جسے کھانے کےلیے یہ مچھلی کیچڑ سے باہر آتی ہے، جسے پکڑ لیا جاتا ہے۔ سارا دن کیچڑ میں گزار کر وہ بمشکل 3 کلوگرام مچھلی پکڑ پاتی ہیں اور پھر وہ یہ مچھلی آگے ایک سیٹھ کو دے دیتی ہیں، جو انہیں فی کلو 150 روپے دیتا ہے۔ یعنی سارا دن کیچڑ میں گزار کر وہ بمشکل 500 روپے کما پاتی ہیں۔ یہ بہت مشقت اور محنت کا کام ہے، اس لیے وہ روزانہ نہیں کرپاتی ہیں۔ بلکہ کوئی بھی عورت روز نہیں جاسکتی، کیونکہ کھارے پانی کے آلودہ کیچڑ میں مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے ٹانگوں پر الرجی ہوجاتی ہے، جسے ٹھیک ہونے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔
پاکستان فشر فوک فورم کے میڈیا کوآرڈینیٹر کمال شاہ کے مطابق یہ ماروڑی مچھلی کوریا اور جاپان بھیجی جاتی ہے، جہاں کم از کم 1500 سے 2000 روپے کلو بکتی ہے۔ پوری ساحلی پٹی میں یہ مچھلی زیادہ تر خواتین ہی پکڑتی ہیں، مگر انہیں ان کی محنت کا بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔
سکینہ کا پوراگھر 10x8 فٹ کے مستطیل نما کمرے پر مشتمل ہے۔ سکینہ کے کمرے کی زمین بھی انتہائی سیلن زدہ بلکہ کسی حد تک گیلی تھی۔ کچھ بستر، چند برتن، کمرے کی دیوار پر لگا آئینہ، بس یہی اس کی کل کائنات ہے۔ آئینے کے کنارے پر لگی سکینہ کی جوانی کی تصویر یہ بتارہی تھی کہ سمندر کے کھارے پانی اور تند ہواؤں اور آگ برساتے شب و روز نے بہت جلد اس سے صحت، خوبصورتی اور تازگی چھین لی ہے۔ پہلے جہاں ان کا گاؤں تھا، وہ زمین اب سمندر میں ڈوب چکی ہے۔ اس لیے یہ لوگ وہاں سے نقل مکانی کرکے یہاں بیٹھ گئے ہیں۔ یہ جگہ ان کے پچھلے گاؤں سے زیادہ دور نہیں تھی۔ اور اگر یہاں بھی پانی آگیا تووہ لوگ کچھ اور دور چلے جائیں گے، مگر سمندر کو نہیں چھوڑیں گے۔
سکینہ اور اس کا گاؤں، دکھ اور درد کی ایک ایسی کہانی ہے جسے بیان کرنے کےلیے الفاظ نہیں ملتے۔ اسے صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ یا آفت ہے جو دھیرے دھیرے ساحلی علاقوں کی آ بادی کو نگل رہی ہے۔ جہاں ہمارے لیے سمندر کے نمکین پانی میں چند قدم چلنا اور سانس لینا دشوار تھا، وہاں یہ لوگ پوری عمر گزارر دیتے ہیں۔ بلکہ ان کی کئی نسلیں اسی طرح عمر گزار کر پیوند خاک ہوچکی ہیں۔
اگر ڈیلٹا کی صرف چند دہائیاں پہلے اور اب کی سیٹلائٹ سے کھنچی تصاویر کا موازنہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ سمندر ڈیلٹا کی زمین کے بہت بڑے حصے کو نگل چکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی کمی واقع ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ساحلی علاقوں سے لوگوں کی اب ایک بڑی تعداد ہجرت کررہی ہے۔ عالمی بینک 2017 کی رپورٹ کے مطابق ملک کے اندر جاری 40 فیصد نقل مکانی کی وجہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہیں۔ ہجرت کے اس عمل سے لوگوں کی معاشی، جسمانی اور دماغی صحت متاثر ہورہی ہے اور یوں ایک خاموش انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرات کا سامنا کرنے والے اولین دس ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستانی معیشت کو تین ہزار آٹھ سو ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور حکومت کو مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا چھ سے آٹھ فیصد ان تباہ کاریوں سے نمٹنے میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہجرت کے عمل میں لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات کا شمار کیا جائے تو یہ نقصان اور بڑھ جائے گا۔
ڈیلٹا کی تباہی نے یہاں کے پورے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کردیا ہے۔ مقامی پودے، پرندے اور جانور ناپید ہوچکے ہیں۔ زمینیں سمندر برد ہونے سے لوگ کاشت کاری چھوڑ کر ماہی گیری کی جانب آگئے مگر اب مچھلی کے وسائل میں کمی آتی جارہی ہے، جس کے باعث یہ نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔ نئی جگہ پر دیگر مسائل کے ساتھ یہ جذباتی، سماجی اور نفسیاتی مسائل سے بھی دوچار ہوتے ہیں، کیونکہ مقامی افراد ان کے ساتھ اجنبیت بھرا سلوک کرتے ہیں۔ مردوں کےلیے بھی ماہی گیری اب خواب بنتی جارہی ہے۔ ہم نے مچھلی پکڑنے کے جالوں کو بہت سے گھروں میں بطور احاطہ (باؤنڈری وال) آویزاں دیکھا۔ چکی اور چھاج کو نئی نسل جانتی نہیں۔ روایتیں بدل رہی ہیں۔ ان حالات میں پائیدار ترقی کا ہدف (SDG) نمبر 15 جس کا تعلق زندگی اور قدرتی وسائل سے ہے، کا حصول مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔