حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی کیا رنگ لائے گی؟

ارشاد انصاری  بدھ 23 اکتوبر 2019
ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں داخلی و خارجی سطح پر صورتحال کشیدہ ہو رہی ہے

ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں داخلی و خارجی سطح پر صورتحال کشیدہ ہو رہی ہے

 اسلام آباد: ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں داخلی و خارجی سطح پر صورتحال کشیدہ ہو رہی ہے۔

جس سے سیاسی و اقتصادی بے یقینی بڑھتی چلی جا رہی ہے جوکسی طور پر بھی معیشت کے حق میں بہتر نہیں ہے اسے چیلنجز سے نمٹنے سے متعلق حکومت کی ناتجربہ کاری کہیں یا انتخابی بیانیہ کی مجبوری کہ جب سے اقتدار میں آئی ہے کہ اس وقت سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مسلسل محاذ آرائی سے دوچار ہے اور تو اور خود پارٹی کے اندر بھی محاذ آرائی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی حکومت اور مخالفین ایک دوسرے پر خوب تنقید کر رہے ہیں۔ مگر اس سارے کھیل میں نقصان ملک اور عوام کا ہو رہا ہے کیونکہ ملک کو جن سیاسی، معاشی، دفاعی و خارجی چیلنجز کا سامنا ہے وہ انتشار، افراتفری،عدم استحکام کی بجائے قومی یکجہتی، استحکام اور امن و امان کا تقاضا کرتے ہیں مگر جو ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے اس سے آنے والے دنوں میں معاملات سدھرنے کی بجائے مزید بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ابھی پاکستان کو چین، ترکی، ملائیشیا سمیت دیگر دوست ممالک کی حمایت سے فیٹف میں کچھ عارضی ریلیف ملا ہے اور ازلی دشمن بھارت کی تمام تر کوششوں اورلابنگ کے باوجود پاکستان فیٹف میں بلیک لسٹ ہونے سے بچ ضرورگیا ہے مگر بلیک لسٹ کی تلوار ابھی بھی سر پر لٹک رہی ہے کیونکہ فیٹف نے پاکستان کو فروری 2020 تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس طرح پاکستان کو 27 میں سے باقی 22 شرائط کو پورا کرنے کیلئے مزید 123دن مل گئے ہیں اور پاکستان کو مستقل طور پر فیٹف بلیک لسٹ سے بچنے اور گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے فروری 2020 تک فیٹف کی باقی شرائط پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔

دوسری طرف اٹھائیس اکتوبر سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا جائزہ مشن پہلے اقتصادی جائزہ کیلئے پاکستان آرہا ہے جس میں اگلی قسط لینے کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرنا ہو گا اور جو شرائط پوری نہیں ہو سکیں ان پر استثنٰی لینا ہوگا، اس جائزہ مشن کی پاکستان آمد سے پہلے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اپنی ٹیم کے ہمراہ واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے بعد اگلے چند روز میں پاکستان واپس پہنچنے والے ہیں مگر واشنگٹن میں ان اجلاسوں کے موقع پر حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سربراہان سمیت دیگر اہم شخصیات سے سائیڈ لائن ملاقاتیں کی ہیں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بڑی کمپنیوں کے اہم حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

وزیر اعظم کے مشیر خزانہ و محصولات ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ اور ان کے ہمراہ پاکستانی وفد نے واشنگٹن کے دورے کے دوران عالمی بنک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے سربراہان سے علیحدہ ملاقاتیں کیں اور انہیں پاکستانی معیشت میں استحکام اور ادارہ جاتی اصلاحات کے نفاذ کی کوششوں اور بالخصوص موجودہ مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں معاشی اشاریوں میں ہونے والی نمایاں بہتری سے آگاہ کیا ہے۔

ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پاکستانی وفد کے ہمراہ عالمی بنک کے منیجنگ ڈائریکٹر ایکسل وان ٹراٹسن برگ اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کے دوران نئے ایم ڈی کو ان کی تعیناتی پر مبارکباد دی اور عالمی بنک کی جانب سے پاکستان کو فراہم کردہ امداد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ مشیر خزانہ نے ملاقات کے دوران پاکستان میں عالمی بنک کے منصوبوں کی تکمیل کی رفتار کو بہتر بنانے اور اس ضمن میں کیے گئے حکومتی اقدامات سے آگاہ کیا اور جواب میںعالمی بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر ایکسل وان ٹراٹسن برگ نے مشیر خزانہ کو بتایا کہ پاکستان عالمی بنک کے بڑے تین شراکت داروں میں سے ایک ہونے کے علاوہ انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن ورلڈ بنک کی جانب سے فراہم کردہ امداد سے بھی بڑے پیمانے پر استفادہ کر رہا ہے۔

ایکسل وان ٹراٹسن برگ نے کہا کہ پاکستان کو عالمی بنک کے دستیاب وسائل کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دوسری اہم ملاقات انٹر نشینل مانٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹا لینا جارجیوا اور دیگر اعلیٰ حکام سے ہوئی ہے جس میں ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے نئی ایم ڈی کو ان کی تعیناتی پر مبارکباد دی اور انہیں پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ پر ابتک ہونے والی پیش رفت سے آگا ہ کیا۔ ان ملاقاتوں کی جو سرکاری سطح پر تفصیلات سامنے آرہی ہیں وہ تو بہت حوصلہ افزاء ہیں اور آئی ایم ایف و عالمی بینک کے سربراہان نے بھی پاکستانی معیشت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کے آزادی کے مارچ سے جو سیاسی حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں اس سے سیاسی عدم استحکام اور بے یقننی بڑھے گی کیونکہ جوں جوں آزادی مارچ کی تاریخ قریب آرہی ہے ماحول تلخ ہوتا جا رہا ہے اور اسلام آباد میں اعلان کردہ آزادی مارچ اور دھرنے سے قبل ہی جے یو آئی (ف) کے مقامی رہنماؤں کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات درج ہونے شروع ہوگئے ہیں جب کہ کچھ کارکنوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

سکیورٹی اداروں کے خلاف تقریر پر مولانا فضل الرحمان کے خلاف کارروائی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی ہے۔ دوسری جانب حکومت کی طرف سے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں مولانا فضل الرحمان کو نظر بند کرنے کے فیصلے کی بھی اطلاعات ہیں اوراعلیٰ سطح اجلاس میں حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا دھرنا روکنے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع بتا رہے ہیں کہ فضل الرحمان کو اکتوبر کے آخری 4 روز ترجیحاً 26 اکتوبر کو گرفتار کیا جا سکتا ہے کیونکہ 25 اکتوبر کو جمعہ ہوگا اور حکومت جمعتہ المبارک سے قبل مولانا کو گرفتار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے یو آئی ف کے کم و بیش 8 اعلیٰ رہنماوں کو 16 ایم پی او کے تحت 30 تا 90 روز کیلئے نظربند کیا جا سکتا ہے جبکہ جماعت کے سرگرم کارکنوں کو وزارت داخلہ کی ہدایت پر صوبائی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تیار کی گئی فہرستوں کے مطابق گرفتار کیا جا سکتا ہے جبکہ انصار الاسلام پر پابندی کی سمری حتمی منظوری کیلئے وزیر اعظم کو بھجوا دی گئی ہے اور ممکنہ طور پر 26 اکتوبر کو انصار الاسلام پر پابندی لگادی جائے گی جبکہ حکومت کے پاس امن برقرار رکھنے کیلئے سوائے تمام وسائل، اختیارات اور آپشنز استعمال کرنے کے کوئی اور آپشن نہیں رہ جاتا ہے اب یہ وقت بتائے گا کہ کیا حکومت آزادی مارچ کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو پائے گی اور اگر حالات کنٹرول سے باہر ہوئے تو کوئی بڑا حادثہ بھی جنم لے سکتا ہے جس سے جمہوری نظام کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔