تمہاری شاعری کیا ہے بھلا

ہم ویڈیو کیسٹ لگا کر بھی ٹی وی پر بھی مشاعرہ ’سنا‘ کرتے تھے، آپ مشاعرے میں شرکت بھی مشاعرہ ’دیکھنے‘ کےلیے کرتے ہیں


احمد اشفاق October 29, 2019
آپ کو کس نے روک رکھا ہے کہ آپ بڑے بڑے شعراء کو نہ پڑھیں؟ (فوٹو: فائل)

دیکھیے، ایک بات تو آپ مانیں گے کہ برسوں سے مشاعرہ سننے جانے والوں، وی سی آر پر مشاعروں کی کیسٹ لا کر مشاعرہ سننے والوں اور آج گوگل/ یوٹیوب پر ''دل شاعری، محبت شاعری، عشق شاعری، اردو سیڈ پوئٹری'' لکھ کر ''سرچ'' کرنے والوں میں کچھ تو فرق ہوگا؟ ہمیں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ ہم شاعری کو بہتر سمجھتے ہیں، نہ ہی آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ شاعری کی سمجھ نہیں رکھتے۔ ہماری اپنی پسند ہے۔

مثلاً ہم اداسی، دکھ یا تکلیف کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے جون بھائی نے بیان کیا:

تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے؟
تم اپنے دل کی اداسی کو گانے لگتے ہو

یا ہم میر کے رنج و اداسی کے قائل ہیں، جنہوں نے بتایا:

ان نے کھینچا ہے مرے ہاتھ سے داماں اپنا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا

یا پھر:

رات گزرے ہے مجھے نزع میں روتے روتے
آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے

جم گیا خوں کف قاتل پہ طرح میرؔ زبس
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے

اب آپ کے ہاں اداسی کا تصور بدل چلا ہے۔ آپ کے نزدیک اداسی اس حسینہ کی کیفیت ہے جس نے دل پر پتھر رکھا، پھر منہ پر میک اپ کیا اور ناچ ناچ کے سب کو بتایا کہ میرے سیّاں جی سے آج میرا بریک اپ ہوگیا! آپ کے نزدیک ترکِ تعلق کی اداسی یہ ہے، ہمارے نزدیک یہ درد محسن نقوی نے یوں بیان کیا ہے:

وہ شخص شہر کے لوگوں میں ڈھلتا جاتا ہے
کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے

اسے بھی دکھ ہے تعلق کے ٹوٹ جانے کا
وہ جا رہا ہے مگر ہاتھ ملتا جاتا ہے

ہاتھ ملنے اور منہ پر میک اپ ملنے کا یہ جو فرق ہے، بس یہی ہمارے اور آپ کے درمیان کا فرق ہے۔ ہم کو اگر میر، غالب یا جون کی اداسی مائل کرتی ہے تو آپ کو یہ قلق رہتا ہے کہ:

تیرے ہوتے ہوئے موم بتی بجھائی کسی اور نے
کیا خوشی رہ گئی تھی جنم دن کی میں کیک کیا کاٹتا

اب اگر آپ اس کیفیت پر جھوم رہے ہیں تو جون نے بلاوجہ ہی اتنی محنت کی اور یہ شاہکار تخلیق کیا:

اے وصل کچھ یہاں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا
اس جسم کی میں جاں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا

تو آج میرے گھر میں جو مہماں ہے، عید ہے!
تو گھر کا میزباں نہ ہوا، کچھ نہیں ہوا

کیا یہ ستم کم ہے کہ آپ کسی شاعر کو دورِ حاضر کا جون ایلیا قرار دے دیں، وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ وہ چھوٹی بحر میں کچھ تُک بندی کرنے پر قادر ہے؟ یہ ظلم تو اشتیاق احمد کے چاہنے والوں نے انہیں دور حاضر کا ابن صفی قرار دے کر بھی نہیں کیا تھا۔ شاعری سمجھنا کچھ دشوار نہیں، تھوڑی محنت اور دلچسپی کی ضرورت ہے۔ شاعر کو اس کے کام سے جج کیجیے۔ ملنگ بنے، ہاتھ میں انگوٹھیاں پہنے، بال بڑھائے اور خلا میں گھورتے لوگ تو مزاروں پر بھی بہت مل جاتے ہوں گے۔

شاعر کا اپنا رنگ دیکھیے، کسی اور کے رنگ میں رنگا شخص اپنی انفرادی حیثیت میں کیا ہے؟ آپ کو کس نے روک رکھا ہے کہ آپ بڑے بڑے شعراء کو نہ پڑھیں؟

کتنی آسانی سے آپ احباب کہہ دیتے ہیں کہ غالب اور میر ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ سمجھ میں کہاں سے آئیں گے؟ آپ کوشش کرتے ہی نہیں۔ پڑھیے! اور اگر وہ سمجھ میں نہ آئیں تو لغت سے رجوع کیجیے، صاحب علم احباب سے پوچھیے۔ آج کے نامور شعراء کو پڑھیے، گئے زمانوں کے لوگوں کو پڑھیے۔

یہ باتیں لغو ہیں کہ آج کی شاعری الگ ہے یا آج کا مزاج یہی ہے۔ غالب یا میر دو سو سال بعد بھی اثر رکھتے ہیں، شیکسپیئر کو چار سو سال بعد بھی لوگوں نے یاد رکھا ہے... چار ہزار سال بعد بھی رکھیں گے۔

تہذیب حافی ہوں یا علی زریون، مجھے ان سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں۔ میں تو علی کی پنجابی نظم ''چوڑا'' سن کر جھوم اٹھا تھا۔ ایک دوست سے گزارش بھی کی تھی کہ علی سے کہیے کہ فیس بک پر میری دوستی کی درخواست قبول کرلیں۔ ان احباب کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اگر لوگ انہیں سنتے اور پسند کرتے ہیں تو یہ معیاری کام کریں۔

دور گزشتہ کے بڑے بڑے ناموں کو بھی اپنے صفحات کی زینت بنائیں اور اپنی فین بیس کو دور حاضر کے اچھے ناموں سے بھی روشناس کرائیں، زبان کی خدمت کریں۔ اچھا شعر کہیں، کمرشل شاعری نہ کریں۔ مشاعرے کو مشاعرہ سمجھیں، کنسرٹ نہ بنائیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اساتذہ کو عزت دیجیے اور عزت دلوائیے بھی۔

مقبولیت خدا کی عطا ہے، انہیں عزت الله نے دلوائی ہے۔ اب ان کا کام ہے کہ زبان کو عزت دلوائیں، اس کا حق ادا کریں!

میں نے شروع میں ویڈیو کیسٹ کے مشاعرے کا حوالہ دیا تھا، ہمارے اور آپ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ بس ایک معمولی فرق ہے، ہم ویڈیو کیسٹ لگا کر بھی ٹی وی پر بھی مشاعرہ ''سنا'' کرتے تھے، آپ محفل مشاعرہ میں شرکت بھی مشاعرہ ''دیکھنے'' کےلیے کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں