انہوں نے چند منٹ کی ویڈیو میں اتنے کام، اتنی کامیابیاں گنوائیں کہ مجھے لگا بس اب یہ کہیں گے کہ اور پھر میں نے اپنے سینگ سمیٹے، اڑان بھری اور دوسرے ملک جا اترا۔ پھر رودادِ اڑان سنائیں گے۔ لیکن نہیں، وہ اب اپنے ساتھ گزرے مزید واقعات بتا رہے تھے۔ جن سے پتا چلا کہ پر اور سینگ نکلنے کے سوا، دنیا کا ہر واقعہ ان صاحب کے ساتھ پیش آچکا ہے۔ میرے تو ارمانوں پر پانی کیا کیچڑ پڑگئی۔ ناکامی کا سایہ چہرے پر پھیلا محسوس ہوا۔
ابھی یہ غبار اترا نہیں تھا کہ ایک خاتون اسپیکر کا لیکچر شروع ہوگیا۔ اول تو وہ مٹکتی ہوئی آئیں اور لال ہوتے ہونٹوں کو کمال مہارت سے گولائی بخشی اور جب منہ کھولا تو مجھ پر اوس پڑگئی۔ بس پوچھیے مت! خیر وہ بھی بالوں کو کانوں کے پیچھے ٹھونستی، کیٹ واک کرتی، ماہرانہ انداز میں کامرانیوں کے قصے سنا رہی تھیں۔ دو نالی بندوق سی ٹانگیں آپس میں چہ میگوئیاں کررہی تھیں۔
انہوں نے پھر پٹاری کھولی اور بتایا کس کس میدان میں جھنڈے گاڑے اور کیا کیا قصہ ہوا؛ کون کون سے پہاڑ سر کیے۔ اب پھر مجھے لگا کہ یہ بھی بولیں گی کہ ان کے سارے معرکے ایک طرف اور شکل بدل کر، شعلہ بنتے ہی روپوش ہوجانا ایک طرف... اور پھر بتلایا جائے گا کہ آپ بھی اس طور آگ لگا کر کامیابی سمیٹ سکتے ہیں۔ گندگی باقی سمیٹ لیں گے۔ لیکن یہاں بھی ارمان ندی میں بہہ گئے جب پتا چلا کہ سوائے یوں اچانک غائب ہوجانے کے، ان کے ساتھ بھی سارے کام ہوچکے ہیں۔
لیکچروں کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔ تالیوں کی گونج میں کوئی نیا گھسا پٹا قصہ تھا۔ سامنے بیٹھے مجمع کی رگوں میں چلتا خون دماغ کی بتی جلا، بجھا رہا تھا۔ کیا اس طور کامیابیاں سمیٹی جاسکتی ہیں؟ والدین کی نصائح جو تجربات کے خون سے سینچی ہوئی ہیں، ان کو تو ردّی کی ٹوکری کی نذر کردیا۔ وجہ یہی ہے ناں کہ وہ دیتے ہیں، کچھ لیتے نہیں۔ مفت میں ملی چیز کی وقعت ہی کیا۔ یہاں پیسہ لے کر دیتے ہیں، گرچہ فقط خواب فروش ہیں مگر زور و شور ہے۔
دوسروں کی کامیابیوں کے قصے سنا کر جیب بھرنا کوئی ان سے سیکھے۔ ایک لیکچر کے ہزاروں روپے اینٹھ کر نئے لیکچر کی تیاری اور ہماری معذور قوم کی کثرت، کہ اپنی ہی کمزوریوں، خامیوں پر لہراتے پھریرے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ سحر انگیزیوں میں کانوں کو مزہ تو آتا ہے مگر حاصل وصول کچھ نہیں۔ اک خبط ہے جو ہم پر سوار ہے۔
میں کئی لیکچرز سن چکا۔ اگر کوئی چیز سمجھدانی میں اتری تو وہ تالیوں کی گونج تھی، باقی سب دھواں تھا یا پھر خالی کھوکھے، کورے کاغذ۔ ہاں البتہ شوق ضرور جاگا کہ چلو اتنی ناکامیاں تو ہیں ہی کہ موٹیویشنل اسپیکر بنا جائے۔ باتونی بھی ہیں اور جھوٹ بھی سرشت میں داخل ہے۔ لیکن دوسرے لمحے قسمت کو کوسا اور توبہ کرلی۔
کیا آپ نے مسخرے دیکھے ہیں؟ بہروپیے؟ جو دوسروں کی کامیابیوں کے قصے مٹک مٹک کر سناتے اور بے وقوف بناتے ہیں۔ اسٹیج پر ادھر سے ادھر بندر کی طرح خوخیاتے پھرتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کے گن گا کر متاثر کرنے کی کوشش کرتے اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔ سننے والوں کے دماغ کی بتی بجھانا، سماعتوں کو نشے کا عادی بنانا اور جیب ہلکی کرنا ان کی کمال پروڈکٹ ہے۔ بہت سے لوگ انہی کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے ہیں۔ مانا کہ بہت سے مواقع پر موٹیویشن کی ضرورت ہوتی ہوگی، بلکہ ضروری ہے۔ جہاں ضرورت ہو وہاں ضرور مدد کیجیے اور مدد لیجیے۔ موٹیویٹ کیجیے، ہمت دیجیے، ہاتھ تھام کر چلائیے، لیکن یوں دھوکے کے کاروبارِ زندگی سے زندگیوں کے پہیوں کو زنگ آلود کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ یوں تو بس سست گدھے ہی تیار ہوسکتے ہیں۔
آج کل چوں کہ یہ کاروبار زوروں پر ہے، مقررین کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، مرد و زن برابر محنت کر رہے ہیں تو بچے پیچھے کیوں رہیں۔ ایک متحرک تصویر (ویڈیو) کا ربط (لنک) ملا تھا۔ یہ کسی کم عمر موٹیویشنل اسپیکر کا لیکچر تھا۔ نام تھا لٹل اسٹار چغد خان، تیرہ چودہ سال عمر، چہرے پر تجربے کا نشان، نہ ہی علم کی محراب؛ اور لیکچر دیتے ہوئے کسی قصے کا ذکر کیا اور پھر کہنے لگا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ایک کرکٹ ٹیم کا کوچ تھا۔ یار کمال ہے! ماں کے پیٹ میں کرکٹ ٹورنامنٹ۔ ہاں بھئی، تو کھیل سکتا ہے! یہ اس بچے کے ساتھ بھی ظلم ہے جو والدین نے کیا۔ بچپن چھن گیا، خبر ہی نہیں۔ ہاں انہیں کیا دکھ ہوگا؟ انویسٹمنٹ کی تھی۔ اب اگر باتوں کے بکنے سے مال مل رہا ہے تو برائی کیا ہے؟
ایسے لیکچر میں سامنے سامعین میں بڑے بڑے لوگ بیٹھے سن رہے ہوتے ہیں۔ نجانے وہ سیکھتے کیا ہیں؟ شاید عبرت حاصل کرنے بیٹھے ہوں۔ بھئی کیا سیکھ رہے ہیں؟ آپ کے چہرے کی ایک جھری میں چھپی کہانی ہزار سبق لیے ہوئے ہے۔ وہ سنائیے تو سیکھنے والے راستے پا لیں گے۔ تجربات، مشاہدات کے باکس میں سے کچھ نکال کر تقسیم کردیں گے تو زندگیاں سنور جائیں۔
من موہنی حرکات، چکنی چپڑی باتیں کرکے آپ بھی موٹیویشنل اسپیکر بن سکتے ہیں۔ بس دوسروں کے قصے یاد رکھنے ہیں۔ باتونی بنیے، باتوں کو گھمانا سیکھیے۔ چند محاورے، منقول واقعات، سوانح عمریوں کا منجن بھی کام آئے گا۔ بیچ میں مذہب کا تڑکا کامیابی کی دلیل ہے۔ باتیں بکیں گی اور خوب بکیں گی۔ کہتے ہیں جیسا بننا چاہتے ہو اس کی عادات اپناؤ۔ اب اپنے لیے موٹیویشنل اسپیکر چن لیجیے۔
جنہیں ہم سنتے ہیں یہ خود اگر اتنے ذہین، فطین اور زندگیاں سنوارنے کے گرو ہوتے تو اپنی نہ سنوار چکے ہوتے؟ مقابلے کے امتحان میں شریک نہ ہوچکے ہوتے؟ لیکن نہیں! یہ ناکامیاں سنا کر کامیابیوں پر ابھارتے ہیں۔ اِلاّماشاء اللہ! اب کوئی کہے کہ میاں تم کیوں جل رہے تو حضور! شدھ سکون ہے، کرائے کا ٹٹو نہیں۔ وگرنہ مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ بہت اچھا موٹیویشنل اسپیکر ہوں۔ باتونی بھی ہوں اور جھوٹ بھی بول سکتا ہوں۔ لیکن ناکامیوں سے اس طور نہیں سیکھا کہ زندگیوں کی واٹ لگا دوں۔ بس بات اتنی ہے کہ دانت نکوس کر کامیابی سمیٹنا قبول نہیں۔
تو بھائی لوگو! دیدہ زیب چوغوں تلے چھپے ان مداریوں، مسخروں سے بچو۔ ان کے پاس فرسودہ باتوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ تمام تر لوگوں کی زندگیوں کی تکالیف، مسائل ایک سے نہیں ہوتے، نہ ہی آٹھ نمبر کا نٹ ہے کہ آٹھ نمبر کی چابی لی اور ٹائٹ کرلیا۔ ہر ایک کے مسائل دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ ہر انسان کی پیچیدگیاں مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ہی دوا سب کےلیے کارگر نہیں ہوسکتی۔ بھیڑ بھڑکّے سے بچیے۔ کچھ مشورہ کرنا ہے تو اساتذہ سے مشورہ کیجیے۔ اپنے دوستوں سے، والدین سے مشورہ کیجیے۔ جہاں کہیں ضرورت ہو، موٹیویشن کی ضرور بڑوں سے مدد لیجیے۔ لیکن اگر صرف سننا مقصود ہے تو واش روم میں بیٹھ کر سچائیاں سننے سے بہتر کوئی جگہ نہیں کہ آپ خود ایک بہترین موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔