ISLAMABAD:
بچپن سے دیکھا تھا ہمارے گھر میں ایک بہت بڑا بکسا تھا۔ بکسے کے اوپر سلیقے سے سلا ہوا رنگ برنگی کور چڑھا رہتا تھا۔ ہر تین مہینے میں ایک بار اس بکسے کی صفائی ہوا کرتی تھی اور وہ منظر ہمارے لیے بڑا دلچسپ ہوتا تھا، کیونکہ گھر میں ہمارا وزن سب سے کم تھا اس لیے بکسے کے نچلے حصے کے سامان کو نکالنے کی ذمے داری ہماری تھی۔ ہمیں بکسے کے اندر اتار دیا جاتا اور ہم سامان اٹھا اٹھا کر دیتے۔ دنیا بھر کے کپڑے، بستر، تکیے، بڑی پراتیں، دادی کا پاندان اور تحفے میں آئے ہوئے قیمتی برتنوں سے لبریز یہ بکسا ہمیں بہت ہی پسند تھا۔ اس میں رنگ برنگی کرنوں والے چھوٹے چھوٹے بستر نہایت ہی خوبصورت تھے۔ امی بتاتی تھیں کہ یہ ہمارے بڑے بھائی جان کے پیدا ہونے پر نانی اماں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے تھے۔ امی کی شادی کے کچھ کپڑے بھی بہت ہی نفیس کڑھائی والے تھے۔ سب گھر پر ہی بنائے گئے تھے۔ ہمیں سلمیٰ ستارے کا سبز دوپٹہ جھلمل کرتا بہت ہی حسین دکھتا تھا۔
امی کا وہ بکسا سجاوٹ اور زیبائش کے سامان سے بھرا ہوا تھا۔ اون سے بنے ہوئے مکرامے، قریشیا کے میز پوش، تکونی کونے پر بچھائے جانے والے جھالر کے چھوٹے بڑے رومال بہت ہی کاریگری اور خوبصورت رنگوں کے امتزاج سے بنائے گئے تھے۔ امی کےلیے وہ صرف سجاوٹ کی چیزیں نہ تھیں ان چیزوں سے ان کی جوانی کی یادیں اور قصے بھی جڑے ہوئے تھے۔ امی جب بھی انہیں بکسے سے نکالتیں، ہاتھ سے سہلاتیں اور مسکرانے لگتیں۔ شاید انہیں کچھ یاد آجاتا۔ ان کےلیے یہ چیزیں سونے سے بھی زیادہ قیمتی تھیں۔
اس بکسے کی صفائی کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ بڑے بہن بھائیوں کے جو کپڑے تنگ ہونے پر نئے کے نئے رکھ دیے گئے تھے، اب کس کو فکس آئیں گے۔ اور جس کو جو کپڑا صحیح آجاتا وہ کپڑا اسے ایک نصیحت کے ساتھ دے دیا جاتا اور نصیحت یہ ہوتی کہ تم کپڑے کو عزت دو گے تو کپڑا تمہاری عزت کروائے گا۔ اس لیے کپڑے کو سلیقے سے پہننا، جیسا تمہارے بڑے بھائی یا بہن نے پہنا۔
امی کے بکسے میں مختلف ملکوں سے لائی گئی سوغاتوں کی بھرمار تھی، جو امی نے بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں۔ اور جب ان سے چیزوں کے بارے میں پوچھتے تو امی کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک آجاتی اور کہتیں کہ یہ تم سب بہنوں کو جہیز میں دوں گی۔ اور واقعی ہر چیز تین کے جوڑے میں تھی۔ پھل رکھنے کی خوبصورت ٹوکری، چائے دانی کا پورا سیٹ، سلائی کے سامان رکھنے کے ڈبے، نمک دانی اور نہ جانے کیا کیا۔ ہماری دلچسپی کا مرکز کانچ کا ڈنرسیٹ رہتا تھا اور ہم امی سے ہر بار کہتے یہ میرے جہیز میں دیجیے گا، یہ بہت خوبصورت ہے۔ اور امی مسکرا کر جواب دیتیں ''بیٹا جو تمہارے نصیب میں ہوگا، ضرور تمہیں ملے گا۔ بس یہ دعا کیا کرو اللہ خوشیاں دکھائے اور ہر چیز اپنے ہاتھوں سے برتنا نصیب ہو''۔
غرض وہ بکسا کیا تھا عمروعیار کی زنبیل تھی۔ جس وقت جس چیز کی ضرورت ہوتی وہ بکسے میں موجود ملتی۔ مہمان آ جائیں تو بستر نکال لو۔ مہمانوں کو دینے کےلیے تحفے نکال لو۔ مہمانوں کے بچے اگر کپڑے لانا بھول جائیں تو ان کے ناپ کے کپڑے بھی نکل آتے تھے۔ اور تو اور کسی کی شادی میں تحفہ دینے کےلیے جب ابو کہتے کہ کیا دینا ہے تو بھی بکسا ہی کام آتا۔ اس میں سے کچھ نہ کچھ نایاب نکال کر تحفے میں دے دیا جاتا اور ہم سوچتے یہ کب لاٸیں امی؟ پچھلی بار صفائی میں تو نہیں نکلا تھا۔ وہ بکسا کیا تھا جادو کا ڈبہ تھا۔ آپ صرف ضرورت بولیں اور وہ حاضر کردیتا۔
اس زمانے میں ہر گھر میں ایک بکسا ایسا ہوا کرتا تھا۔ جب کہ عورتیں نہ جانے کس مٹی کی بنی ہوئی تھیں؟ وہ کیسے کفایت شعاری کرلیتی تھیں؟
ایسا نہ تھا کہ اس طرح کی چیزیں صرف غریبوں کے ہاں ہی نظر آتیں۔ امیر سے امیر اور اچھے سے اچھے گھرانوں میں بھی بکسے دیکھے جاتے تھے۔ اصل میں بات امیری غریبی کی نہ تھی۔ اس دور کی عورتیں تہذیب، ثقافت، محبت و خلوص، رشتے، رسمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی تھیں۔ ان کے یہ بکسے اس بات کی دلیل تھے کہ انہوں نے پرانی تہذیب بھی سنبھال رکھی تھی۔ کفایت شعاری سے ایک بچے کے کپڑے دوسرے کو دینے کا مقصد آپس میں محبت اور خلوص پیدا کرنا اور بچوں کو چیزوں کی قدر سکھانا اور فضول خرچی سے دور رکھنا ہوتا تھا۔ پہلے زمانے میں لوگ برانڈ کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے، ہر گھر کی اپنی ہی ایک برانڈ ہوتی تھی۔ لوگوں کے نزدیک یہ فخر کی بات نہیں تھی کہ کتنا مہنگا جوڑا ہے، بلکہ یہ فخر ہوتا تھا کہ یہ دوپٹہ میری امی کا ہے یا میری بڑی بہن کا۔ ان کپڑوں سے آتی ہوئی محبت کی مہک روح کو تسکین دیتی تھی، رشتوں کو جوڑے رکھتی تھی۔ اور ان ہی لباس میں وہ اپنے وجود کو معتبر و موقر سمجھتے تھے۔ ہر کسی کو بلا حیل و حجت یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ دوپٹہ یا چادر یا کرتا میری نانی کا ہے یا خالہ کا ہے۔
پہلے زمانے کے یہ بکسے عورتوں کی خوبصورتی کے آئینہ دار ہوتے تھے اور خوبصورتی چہرے کی نہیں بلکہ کرداروں کی دلکشی، حسن و سلوک کی نزاکت، وسیع قلب کی رعنائی، تہذیب کی دلنوازی اور سلیقے کے عود و مشک پر مشتمل حسن سے رنگین و مزین تھے۔
مصائب و مسائل جو بھی ہوں، اس زمانے کی عورت کے پاس بکسے کی طرح اس کا ایک مکمل اور جامع حل ضرور نکل آتا تھا۔ اور وہ اپنے پورے خاندان کو بحسن و خوبی پرسکون اور مطمئن رکھنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ اس بکسے نے بچوں کے مستقبل کو بھی سنبھالا ہوا تھا کہ برے وقت میں گھر کے مرد کے کندھوں پر بوجھ نہ پڑے اور وہ بے فکری اور عزت سے بیٹی کو اپنے گھر کا کرسکے۔
کیا خوب تھی وہ عورتیں بھی اور ان کے بکسے بھی۔ لگتا تھا عورت کے کردار کے سارے دلکش عناصر اس بکسے میں بند تھے۔ چمکتے دمکتے کانچ سے نازک جذبات و احساسات سب ہی تو تھے اس میں۔ آج کی عورتیں بھی کچھ کم نہیں، بس کچھ صلاحیتیں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آج کی خواتین تعلیم و تربیت کے ساتھ کفایت شعاری، سلیقہ مندی اور حسن سلوک پر تھوڑی سی توجہ دیں تو ایک بہترین معاشرہ بناسکتی ہیں۔ کاش ہم بھی اس قابل ہوجائیں کہ ویسا ہی کوئی بکسا اپنے گھر میں بھی رکھ سکیں۔ کاش ہم میں بھی وہ صلاحیتیں ہوں جو اس زمانے کی عورتوں میں تھیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔